قائد ِ اعظمؒ اور قائداعظم ثانی
موازنہ بنتا بھی نہیں اوراندھیرے ‘اُجالے کا بھلا موازنہ کرنا بھی کیا لیکن قائد ِ اعظم ثانیوں کی آئی بہار دیکھ کر دل پر پتھر رکھے یہ موازنہ کررہا۔
قائد ِ اعظمؒ گورنر جنرل ‘ممبئی سے رشتہ دار ملنے آیا، پوچھا کیسے آئے، جواب ملا’’ اگر سرکاری ملازمت مل جائے تو میں بھی پاکستان کی خدمت کر سکوں‘‘ فرمایا ’’نہیں بالکل نہیں لوگوں کو تاثر ملے گا کہ تم چونکہ گورنر جنرل کے رشتہ دار، اس لئے ملازمت ملی ‘‘ وہ پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا، بولا’’ پھر میں کراچی میں وکالت کر لیتا ہوں ‘‘ آپ کا جواب تھا’’نہیں۔ پھر تمہیں لوگ گورنر جنرل کے رشتہ دار سمجھ کر مقدمات دیا کریں گے ‘‘یہی نہیں جب ایک بار مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماؤں نے کہا ’’فاطمہ جناح کو بھی کوئی عہدہ ملنا چاہئے‘‘ آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا ’’ یہ مناسب نہیں کہ گورنر جنرل کی بہن عہدیدار ہو‘‘ آج کے قائد ِ اعظم ثانیوں کا حال ملاحظہ ہو، بھٹو اور بے نظیر بھٹو سے ہوتی ہوئی بات بلاول تک آ پہنچی، بھٹو کے ساتھی بڑی تابعداری سے آج بلاول کے پیچھے کھڑے ملیں، دوسری طرف نواز شریف، شہباز شریف سے معاملہ مریم اورحمزہ تک آپہنچا، صورتحال یہ کہ بڑے بڑے لیگی رہنما حمزہ، مریم کیلئے لائن بنائے ملیں غلامی کا عالم یہ کہ پچھلے ماہ احتساب عدالت میں بیٹھی مریم نواز کے ساتھ والی کرسی خالی ہوئی، ایک خاتون وزیر کو بیٹھنے کی دعوت دی گئی، جواب آیا ’’مریم صاحبہ کے پیچھے کھڑا ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ‘‘ یہاں شریف فیملی کے رشہ داروں کے اعلیٰ عہدوں پر براجمان ہونے کی کیا بات کرنی، بلوچستان میں اچکزئی خاندان کو دیکھ لیں تسلی ہو جائے گی۔
گورنر جنرل جناح کا پروٹوکول صرف ایک موٹر سائیکل سوار پولیس والا ہواکرتا ایک بار کہیں جاتے ہوئے قائد ِاعظمؒ کی گاڑی جب بند ریلوے پھاٹک پررُکی تو ڈرائیور نے کہا’’ سر میں جا کر پھاٹک والے کو بتاتا ہوں کہ گاڑی میں گورنر جنرل تا کہ وہ پھاٹک کھول دے ‘‘ یہ سن کر قائد بولے’’ پھاٹک کھلنے کا انتظار کرو‘میں کوئی ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جس سے لگے میں کوئی خاص آدمی ہوں ‘‘ ذرا آج کے قائد ِاعظموں کے ہٹوبَچو کے مناظر دیکھ لیں، درجنوں گاڑیوں کے کارواں، گھنٹوں پہلے سڑکیں بلاک، عوام رکشوں میں بچے جنتی رہے یاقوم ایمبولینسوں میں مرتی رہے، مگر شاہوں کاروٹ لگارہے، ائیر پورٹوں سے محلات تک ہیلی کاپٹروں پر آنا جاناتواب معمول، یہ چھوڑیں بلاول، مریم کے قافلوں اورآج کل پیشیاں بھگتتے نااہل وزیراعظم کے پروٹوکول دیکھ لیں ہر موقع اور ہر جگہ سب کے سب قائد ِ اعظم ثانی پہلے قدم سے آخری قدم تک یہ جتاتے اور بتاتے ہوئے کہ یہ مَیں ہوں اور صرف میں ہی تو ہوں۔
قائد ِاعظمؒ سربراہ مملکت ہوئے تو کبھی تنخواہ نہ لی یہ بھی کہا جائے کہ ایک روپیہ تنخواہ لیا کرتے، رات کو گورنر جنرل ہاؤس کی فالتو لائٹیں خود بجھایا کرتے کسی سرکاری میٹنگ میں کھانا یا چائے کا رواج نہ ڈالا کہتے ’’سب گھرسے کھا پی کر آیا کریں‘‘ جب گورنر جنرل ہاؤس کیلئے خریداری ہوتی تو کبھی خود چیک کرتے اور کبھی اگر کوئی چیز ذاتی نکلتی تو اپنی جیب سے ادائیگی کرتے، ذاتی فزیشن کرنل الہی بخش کے مطابق زیارت میں قیام کے دوران ایک مرتبہ جب ہم پاجامے منگوانے لگے تو قائد بولے ’’ کیا ضرورت ہے ‘میرے پاس پاجامے ہیں تو سہی ‘‘ میں نے کہا سردی بڑھتی جارہی ہے ‘گرم پاجامے منگوانے ہیں بڑی مشکل سے راضی ہوئے شروع شروع میں زیارت میں نرس نہ رکھی کہ سرکاری خرچہ ہوگا، کہاکرتے سرکاری پیسے عوامی فلاح وبہبود پر لگنے چاہئیں نہ کہ حکمرانوں پر، ذرا آج قائد ِ اعظم ثانیوں کے سرکاری گھروں کے خرچے، کیمپ آفسز کے اللے تللے، سرکاری مال پر ذاتی عیاشیاں دیکھ لیں، ہمیں تو آج ممنون حسین کا ایوانِ صدر ہی 7 آٹھ کروڑ ماہانہ میں پڑے پھر شاہی کھانے، دعوتیں، ضیافتیں، عشائیے، تحفے تحائف، سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے اخراجات، سرکاری دورے، سرکاری علاج معالجے اور وہ بھی ایسے کہ نزلے زکاموں کے ولائیت میں چیک اپس، یہاں پچھلے دس سالوں میں ہاؤس آف شریفس کی سیکورٹی پر 10 ارب خرچ ہوچکے، 3 ہزار پولیس اہلکار شاہی خاندان کی سیکورٹی کررہے، نااہل وزیراعظم نے 4 سالوں میں 100 سے زیادہ غیر ملکی دورے کر ڈالے، غور فرمائیں پارلیمنٹ میں تو وہ 15 بیس بار تشریف لائے مگر لندن 30 سے زیادہ مرتبہ گئے، یعنی وزیراعظم ہاؤس سے پارلیمنٹ دور اور لندن قریب، پھر بڑے بڑے وفود والے ان دوروں کا حاصل وصول یہ نکلا کہ 5 ارب ڈالر کی برآمدات گھٹ گئیں، زرِمبادلہ نیچے جاپہنچا اور پاکستان عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکارہوا، یاد رہے یہ سب وہاں ہو رہا جہاں بچہ بچہ مقروض اور مقروض بھی ایسا کہ قرضے چھوڑیں قرضوں کا سود دینا بھی مشکل ہورہا۔
گورنر جنرل بننے کے بعد زمین خریدنے، جائیدادیں بنانے کی بجائے قائد ِاعظم ؒنے اپنی کمائی ہوئی دولت بھی تقسیم کر دی، کبھی ذاتی فائدے یا کاروبار کا سوچا تک نہیں اور ہمیشہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد ات پر ترجیح دی، آج قائد ِاعظم ثانیوں کے کیا کہنے، حکمراں خاندان کی صرف لندن میں کتنی پراپرٹیز یہ سب کے سامنے، ان کی 5 براعظموں میں کتنی جائیدادیں یہ بھی اب کوئی راز نہیں، زرداری صاحب کے سوئس اکاؤ نٹس، سرے محل اور سندھ سے انگلینڈ تک پھیلے کاروبار دیکھ لیں، اپنے اسحق ڈار بڑی معصومیت سے کہتے ملیں ’’مجھے عربی شیخ نے 3 سال میں ایک ارب تنخواہ دیدی‘‘ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کی کہانیاں، اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی، نیب میں پونے دو سومیگا کرپشن اسکینڈلز پڑے ہوئے، 5 فیصد طبقہ ایم بی بی ایس مطلب میاں، بیوی بچوں سمیت لٹ مار کر رہا، منی لانڈرنگ کاحال یہ کہ ماہانہ 10 ارب باہر جارہااور 12 سے 15 ارب کی ماہانہ کرپشن ہو رہی ( بہت سؤں کا تو یہ کہنا کہ اتنا ماہانہ نہیں روزانہ ہورہا) ایک طرف کراچی کے رفاعی پلاٹ 10 کھرب میں بک گئے، 80 فیصد کراچی کو صاف پینے کا پانی میسر نہیں، دوسری طرف شہر ہوں یا دیہات پورے سندھ کا ایک جیسا حال، یعنی اگر تھر میں بچے بھوک سے مررہے تو پی پی کے سیاسی قبلے لاڑکانہ میں بھی دُھول اُڑ رہی، بلوچستان کو 2008 سے 2013 کے دوران 8 سو ارب ملے مگر نوبت یہ کہ صوبے کو چھوڑیں کوئٹہ کھنڈر بن چکا، موٹروے، سڑکیں، انڈر پاس، میٹرو اور اورنج ٹرین والے پنجاب کے شہباز شریف کی ترجیحات کا عالم یہ کہ ابھی چند ہفتے پہلے ان کے محل کے سامنے سڑک پر خاتون نے بچہ جنا، گوجرانوالہ میں یہی کچھ پیٹرول پمپ پر رکشے میں بھی ہوا۔
صاحبو! قائد ِاعظمؒ کی شوگر ملیں تھیں اور نہ اُنہوں نے کبھی کسانوں کو پولیس کے ذریعے مجبور کیا کہ گنا مجھے دو، قائد ِ اعظم ؒنے قرضے لئے نہ معاف کروائے، ان کے قول وفعل میں تضا د تھا، نہ اُنہوں نے ملک کو اپنی جاگیر سمجھا‘کسی لمحے بھی قوم کو بے وقوف بنایا نہ وہ جھوٹ، منافقت اور خوشامد میں پڑے، ویسے تو آج کے سب سے بڑے قائد ِ اعظم ثانی میاں نواز شریف کے منہ سے یہ سن کر ’’ اگر میرے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو تمہیں اس سے کیا‘‘ کسی شک وشبہے کی کوئی گنجائش نہ رہ جائے کہ قائداعظم ؒایک ہی تھے اور وہ جا چکے، ویسے تو ضمانت پر رہا ہونے والے مجید اچکزئی کی گاڑی پر پھول نچھاور کرتی عوام اور ہر ڈبل شاہ کو کندھوں پر اُٹھائے قوم کو دیکھ کر یہ یقین بھی ہو جائے کہ اب قائد ِاعظم کا پاکستان بھی نہیں رہا، لیکن 25 دسمبر کو جب جانے مانے 10 نمبریوں کو بھی قائد ڈے پر قائد اعظم بنتے دیکھا اور جن کے بزرگ قائد ِاعظم حتی کہ پاکستان کے مخالف تھے، جب انہیں قوم کی بزرگیاں کرتے پایا، تب نہ چاہتے ہوئے بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوا، لیکن میرے اس لکھے کو نئے سال کی پہلی غلطی سمجھ کر درگزر کر جایئے گا کیونکہ واقعی یہ موازنہ بنتا ہی نہیں ‘اندھیرے ‘اُجالے کا بھلا کیا موازنہ، لیکن بات وہی کہ قائد ِ اعظم ثانیوں کی آئی بہار دیکھ کر دل پر پتھر رکھے یہ موازنہ کیا۔