قوم جاگ ہی نہیں رہی
دُکھ تو یہ بھی کہ ملک چراگاہ بناد یا گیا، یتیم کے مال کی طرح لوٹا گیا مگر بڑا دُکھ یہ کہ !
جج نے مصری صدر انور سادات کے قاتل سے پوچھا ’’تم نے سادات کو کیوں قتل کیا؟‘‘جواب آیا ’’وہ سیکولر تھا‘‘ جج نے کہا ’’یہ سیکولر کیا ہوتا ہے؟‘‘ قاتل کا جواب تھا ’’مجھے نہیں پتا‘‘ مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم سے سوال ہوا ’’تم نجیب کو کیوں مارنا چاہتے تھے؟‘‘ جواب ملا ’’اس لئے کہ وہ ایک دہشت گرد ہے۔ ‘‘ پوچھا گیا ’’نجیب دہشت گرد کیسے ہے؟‘‘ جواب ملا’’ اس نے دہشت گردی کو بڑھاوا دیتی کتاب ’’روایت اولاد حارتنا‘‘ لکھی ہے۔ ‘‘ اگلا سوال ہوا ’’کیا تم نے وہ کتاب پڑھی ہے؟‘‘ جواب آیا ’’نہیں‘‘ مشہور کاتب فرج فودۃ کو مارنے والے 3 مجرموں میں سے ایک سے پوچھا گیا ’’فرج کو قتل کرنے کی وجہ؟‘‘ قاتل بولا ’’کیونکہ وہ کافر تھا۔ ‘‘سوال کیا گیا ’’تمہیں کیسے پتا چلا کہ وہ کافر تھا؟‘‘ قاتل کا جواب تھا ’’اس کی کتابوں سے پتا چلا۔ ‘‘ پوچھا گیا ’’تجھے اس کی کونسی کتاب سے پتا چلا کہ وہ کافر تھا؟‘‘جواب تھا ’’میں نے اس کی کتابیں نہیں پڑھیں۔ ‘‘ سوال ہوا ’’تم نے اس کی کتابیں کیوں نہیں پڑھیں؟‘‘ جواب آیا ’’کیونکہ میں لکھنا پڑھنا نہیں جانتا۔ ‘‘
جب بھی اس طرح کی چیزیں نظروں سے گزرتی ہیں ‘ صرف مفروضوں اور تُک بندیوں کی بنا پر ہوئے جرائم کے حوالے سے سنتا یا پڑھتا ہوں، جب بھی بڑی خوبصورتی سے استعمال ہو چکے حقائق سے لاعلم مجرموں کو دیکھتا ہوں یا مکار ذہن سازوں اور جہالت زدہ عقیدت میں ڈوبے لوگوں کا تال میل نظر آتا ہے تو بے اختیار اپنی قوم یاد آجاتی ہے، آپ 70 سال سے کبھی مشرق تو کبھی مغرب اور کبھی شمال تو کبھی جنوب جاتی اور پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتی قوم سے آج اس کے کسی فیصلے، کسی ہاں، کسی ناں یا کسی یوٹرن کا پوچھ لیں، اکثریت کو ککھ پتا نہیں اور چھوڑیں انہیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوگا کہ انہوں نے کب، کیوں اور کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں کیا، کیا یہ عجیب بات نہیں کہ یہ قوم لیاقت علی خان سے بے نظیر بھٹو تک کسی قتل کی اصل وجہ تک نہیں پہنچ پائی، غلام محمد سے پرویز مشرف تک یہ بھی نہ جان سکی کہ آئین شکنی کہاں ہوئی اور کیوں ہوئی، یہ آدھا ملک گنوا کر بھی نہ سیکھی اور ملک توڑنے والوں پر بھی متفق نہ ہو سکی، کیا یہ عجیب بات نہیں کہ قوم کو عقیدت تو فاطمہ جناح سے تھی مگر حکم ایوب خان کا مانا، قوم کو پیار تو بھٹو سے تھا مگر ’’مردِ مومن اور مردِ حق‘‘ ضیاء الحق کو بنا دیا اور تو اور قوم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کو ووٹ دے کر پھر ان کے جانے پر ہی مٹھائیاں کھاتی اور کھلاتی رہی، کتنی عجیب بات ہے کہ اس قوم کے رہنما تو امیر سے امیر تر ہوتے رہے لیکن یہ غریب سے غریب تر ہو کر بھی چپ رہی، قوم کے لیڈروں نے سرے محل اور مے فیئر فلیٹس تک خرید لئے مگر یہ اپنی جھونپڑیاں بیچ کر بھی خاموش رہی، قوم کے رہنماؤں کے نزلے زکام کے علاج تو ولایت میں ہوتے رہے لیکن یہ ڈنگر اسپتالوں میں رُل کر بھی دھمالیں ڈالتی رہی اور قائدین کو کھا کھا کر بدہضمیاں ہوگئیں مگر قوم بُھک ننگ اوڑھ کر بھی بھنگڑے ڈالتی رہی۔
یہ بھی سن لیں کہ قوم کی اکثریت کیلئے اوپر اوپر سے امریکہ شیطان مگر اندر سے اسی شیطان کے ویزے اور پاسپورٹ کے شیدائی، اوپر اوپر سے برطانیہ اور یورپ بے حیائی کے گڑھ مگر اندر سے بیویوں بچوں سمیت وہیں بسنے کے خواہشمند، اوپر اوپر سے سب سے بڑا دشمن بھارت مگر اندر سے کترینہ کیف سے شاہ رخ تک بالی ووڈ دلوں پہ راج کرے، اوپر اوپر سے ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کا ورد مگر اندر سے شخصیت پرستی نس نس میں رچی بسی ہوئی، اوپر اوپر سے انقلاب کے خواہاں مگر اندر سے اسٹیٹس کو کے حامی، اوپر اوپر سے ہر وقت ملک وقوم کے درد میں ڈوبے ہوئے مگر اندر سے ہر لمحے، ہر پل ذاتی خواہشوں کی تکمیل میں لگے ہوئے، اوپر اوپر سے مومن، مومن کا بھائی مگر اندر سے بھائی سے سگا بھائی بھی محفوظ نہیں، اوپر اوپر سے ’’خودی‘‘ کے فلسفے مگر اندر سے قدم قدم پر قدم بوسیاں، اوپر اوپر سے موسیٰ ؑ سے محبت مگر اندر سے فرعون بننے کی خواہش، اوپر اوپر سے ٹیپو سلطان کی باتیں مگر اندر سے حرکتیں میر صادق کی اور اوپر اوپر سے اچھی آخرت کی خواہش مگر اندر سے’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔ ‘‘
وقت یہ بھی ثابت کر چکا کہ یہاں زیادہ تر تماشہ دیکھنے والے، چغل خور، غیبت گو اور کمال کے خوشامدی، ان کی یاداشتیں کمزور، معدے مضبوط، انہیں طاقتوروں پر پیار آئے اور کمزوروں پر غصہ، ان کی فطرت کیکڑے والی یعنی اتنی توجہ اپنی ترقی و خوشحالی پر نہیں جتنی لگن سے یہ دوسروں کی ٹانگ کھینچیں، قوم ذہین ایسی کہ مردہ جانوروں کی انتڑیوں سے گھی بنالے اور زندہ مرغی کو ٹیکے لگا کر وزن دوگنا کر لے، عقل مند ایسی کہ انسانی کھانے پینے کی چیزوں میں ملاوٹ سے جانوروں کی خوراک میں دونمبری کر کے بھی پکڑائی نہ دے، قوم دور اندیش ایسی کہ گھر کی جائیداد گھر میں رکھنے کیلئے بہنوں، بیٹیوں کی شادیاں قرآن سے کردے اور پاکباز ایسی کہ حرام پیسوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر حلال چیزیں خریدے، قوم کے دیس میں مرُدے سے گدھوں اور کچھوؤں تک سب غیرمحفوظ، قوم نے مذہب قرآن خوانیوں، بدعتوں اور رسموں رواجوں تک محدود کر دیا، اکثریت کو تو اس نماز کا اُردو ترجمہ بھی نہ آئے جو نماز روزانہ پانچ وقت پڑھے، قرآن میں کیا ہے، قوم کی اکثریت نے یہ جاننے کی کوشش نہ کی، رسولؐؐ کی سیرت طیبہ کیا قوم کہے زیادہ تر کو تو کچھ پتا نہیں، ہاں سب اس پر متفق ضرور کہ حقوق العباد سے مطلب صرف اپنے حقوق۔
اور سنئے یہی قوم سب جان کر بھی ہر ڈبل شاہ کو پھولوں کے ہار پہنائے، یہی قوم جو سب دیکھ اور سن کر بھی ملزموں کو کندھوں پر بٹھائے اور سونے کے تاج پہنائے، یہی قوم جس کے لیڈر وہ بھی جو ’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے مار چکے اور یہی قوم جس کے سامنے میمو گیٹ کر کے بھی لوگ مزے کر رہے، شائد یہ انہی کرتوتوں کا نتیجہ کہ قوم کو آج تک خالص جمہوریت ملی اور نہ جینوئن مارشل لا نصیب ہوا، سویلین حکومتوں نے سنجیدگی سے لیا اور نہ مارشلائی نظاموں نے لفٹ کرائی، ویسے تو سینکڑوں مثالیں اور ہزاروں باتیں مگر چند ہزار افراد نے قوم کو کیسے بے وقوف بنا رکھا، ابھی کل ہی جب اس ملک کی پارلیمنٹ نے صدر پرویز مشرف کو باوردی صدر منتخب کیا تو قوم نے خوشی کے شادیانے بجائے اور آج جب اسی ملک کی پارلیمنٹ نے نااہل کو اہل کیا تو اسی قوم نے پھر سے خوشی کے شادیانے بجائے مطلب توہین عدالت کے خلاف ترمیم منظور ہو تو جیت قوم کی، جب سپریم کورٹ اسے ختم کر دے تو بھی فتح قوم کی اور جب این آر او بل پاس ہو جائے تو بھی فتح مند قوم ہی اور جب این آر او بل سپریم کورٹ ختم کر دے تو بھی Winner قوم ہی مگر یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ جیسا کروگے، ویسا بھرو گے، قصہ مختصر قوم کی 70 سالہ سیاست، معاشرت اور تجارت پر نظر مار کر اور 7 دہائیوں میں ہوئے فیصلوں پر قوم کی فرمانبرداری دیکھ کرپہلا خیال یہی آئے کہ دُکھ تو یہ بھی کہ ملک چراگاہ بنادیا گیا، اسے یتیم کے مال کی طرح لوٹا گیا مگر بڑا دُکھ یہ کہ ۔