حضور عزت کمانا پڑتی ہے !
نواز شریف فرمائیں " ووٹ کو عزت دو" شاہد خاقان عباسی کہیں" سیاستدانوںکی عزت کرو " احسن اقبال چیف جسٹس کو بتائیں "enough is enoughجے تہاڈی عزت اے تے ساڈی وی اے "، نجانے کیوں سب بھلا بیٹھے کہ جیسے جمہوریت ڈراموں کا نہیں، کارکردگی اور خود احتسابی کا نام، ویسے ہی عزت مانگنے سے نہیں ملتی، عزت کمانا پڑتی ہے!
سابق گورنراسٹیٹ بینک عشرت حسین کی کتاب Governing the Ungovernableپڑھنے لائق، بلکہ یہ زیادہ مناسب کہ پڑھتا جا، شرماتا جا، پاکستان کی 70 سالہ تاریخ کو 1947 سے 1990 اور 1990 سے 2015 تک دو حصوں میں تقیسم کر کے ڈاکٹر صاحب بتائیں "1947 سے 1990 کے دوران حالات خراب اوربحران در بحران، جیسے نیابنا ملک، بے سروسامانی، وسائل کی کمی، مسائل کی بھرمار، قائداعظم ؒ کی رحلت، لیاقت علی خان کا قتل، جمہوری حکومتوں کا آئے روز یوں بدلنا کہ نہرو کہہ اُٹھے "اتنی جلدی سے تو میں دھوتی نہیں بدلتا، جتنی تیزی سے پاکستان میں حکو مت بدل جائے "، پھر ایوب کا مارشل لاء، 65 اور 71 کی جنگیں، ملک کا ٹوٹنا، بھٹو کی نیشنلائزیشن، ضیاء کا مارشل لاء اور افغان جنگ، لیکن ان تمام مصائب اور سانحوں کے باوجود 1947 سے 1990 تک پاکستان دنیا کے بہترین کارکردگی والے 10 ملکوں میں تھا، بھارت کی معاشی ترقی 3 فیصد اور غربت بڑھ رہی تھی جبکہ پاکستان کی ترقی کی شرح ساڑھے 6 فیصد اور غربت کم ہور ہی تھی، اسی دورمیں پاکستان انڈسٹریل کارپوریشن بنی، انڈسٹری کا جال پھیلا، پرائیویٹ سیکٹر آگے آیا اور ہماری انڈسٹری اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی، پلاننگ کمیشن بنا، ایسے ذہین اورقابل لوگ کہ بیسوؤں ممالک آئے اور ہمارے پلاننگ کمیشن سے اپنے ملکوں کیلئے گائیڈ لائنز لے کر گئے، ایگریکلچر ڈویلپمنٹ کارپوریشن بنی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پاکستان جو 30 ملین لوگوں کو دو وقت کی روٹی دینے سے قاصر تھا اسی ملک میں 26 ملین ٹن گندم اضافی ہوگئی، واپڈا بنا اور اسی نے دنیا کا سب سے بڑا انڈس بیسن ورکس بنا دیا، 2 ڈیم، بیراجز، نہروں، کھالوں کا جال بچھا، واپڈاکی کارکردگی کا عالم یہ تھا کہ ورلڈ بینک آیا اور واپڈا کے 98 فیصد انجینئروں کو ساتھ لے گیا تا کہ باقی دنیا میں بھی یہ نظام متعارف کروایا جا سکے، پی آئی اے وجود میں آئی، دنیا بھر کے مسافروں کیلئے یہ ترجیحی ائیر لائن بنی بلکہ اسی ائیر لائن نے سنگا پور، ایمرٹس اور رائل اردن ائیر لائنز سمیت کئی ائیر لائنوں کو بنایا، چلایا اور قدموں پر کھڑا کیا۔
ڈاکٹر عشرت حسین کے مطابق پھر 88 اور 90 آیا، بی بی، میاں کی باریاں شروع ہوئیں، قرضہ بڑھنے لگا، ادارے بیٹھنے لگے، بیوروکریسی ذاتی ملازم ہوئی، میڈیا کرپٹ ہوا، "یس سریس سر" کرتے سیاستدانوں کی بھرمار ہوئی، اقربا پروری ہونے لگی، ملک میں ایمانداری پر وفاداری غالب آئی اور کرپشن، کمیشن، چوریاں، ڈاکے، قبضے اور رشوت سب کچھ سرعام ہونے لگا اور پھر مشرف، زرداری حکو متوں میں جو کسر رہ گئی وہ نواز حکومت میں نکل گئی، لہٰذا آج صورتحال یہ کہ قرضوں کا سود اتارنے کیلئے قرضے لینے پڑ رہے۔
یہ تو تھی ڈاکٹر عشرت حسین کی کتاب کی ایک جھلک، اب ذرا سی دیر کیلئے ملک، چاروں صوبوں اور سب شہروں اور اداروں کی تباہی وبربادی و خستہ حالی کو ایک طرف رکھ کر صرف وفاقی دارالحکومت پر آجائیں، ووٹ کو عزت دینے والوں یا اپنی عزتوں کے متلاشیوں کی اصلیت معلوم پڑ جائے گی، اسلام آباد جس کی آبادی 90 کی دہائی میں 5 لاکھ تھی، 15 لاکھ ہو گئی، اِردگرد ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھرمار ہوچکی مگر نہ بنیادی سہولتوں میں اضافہ، نہ کوئی پلاننگ، اوپر سے حکومت کی دارالحکومت میں دلچسپی کا عالم یہ کہ شہر میں درختوں کا قتلِ عام چیف جسٹس کو رکوانا پڑا، مارگلہ کے پہاڑوں پر غیر قانونی تعمیرات کا نوٹس چیف جسٹس نے لیا، راول جھیل کو گندگی گھر بنانے سے چیف جسٹس نے روکا، باقی چھوڑیں وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر اور پارلیمنٹ سے 4 پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ملک کے بڑے سرکاری اسپتال" پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز " پمز جو وفاقی وزیر پرویز ملک اور جسٹس قیوم کے بھائی ڈاکٹر جاوید اکرم کے رحم وکرم پر تھا، موصوف ایک طرف سرکاری اسپتال کے سربراہ جبکہ دوسری طرف لاہور میں ان کا پرائیویٹ اسپتال اور دوائیوں کی فیکٹری بھی، خیر پمز میں بون میروٹرانسپلانٹ سینٹر بند ہونے کی خبر پر جب چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر ڈاکٹر وں اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کا حکم دے کر یہ شعبہ بند ہونے سے بچایا تو اسی کیس کے دوران ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہمارا کارڈیک سینٹر بھی بند ہونے کے قریب اور 2015 سے تنخواہیں بھی رُکی ہوئیں، حکومت سے پوچھا گیا تو جواب ملا" یہ پروجیکٹ ملازمین تھے، ان کی مدت ملازمت ختم ہو چکی"، چیف جسٹس بولے " کچھ خوف ِ خدا کریں، کبھی کوئی اسپتال اپنا شعبہ امراض قلب بھی پروجیکٹ کے طور پر چلاتا ہے " عدالت کے حکم پر ان کو تنخواہیں ملیں اور یہ شعبہ بھی بند ہونے سے بچ گیا لیکن اسی دوران یہ معلوم ہوا کہ لیور ٹرانسپلانٹ کا شعبہ بھی بند پڑ ا، چیف جسٹس نے پوچھا تو بتایا گیا کہ" 2016 میں وزیراعظم نواز شریف کو شعبہ لیور ٹرانسپلانٹ کی سمری بھجوائی گئی مگر وزیراعظم اپنی گوناگوں مصروفیت سے چند منٹ نکال سکے نہ شعبہ لیور ٹرانسپلانٹ کے 9 ڈاکٹروں و ملازمین کی قسمتوں کا فیصلہ ہو پایا، سمری وزیراعظم کے دفتر میں پڑی رہی، پمز اپنے مریض اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسپتال بھجواتا رہا اور یوں ان ڈیڑھ پونے دو سالوں میں سرکار کو 60 کروڑ پرائیویٹ اسپتال کو دینا پڑے"، چیف جسٹس نے یہ معاملہ حل کروایا تو پتا چلا کہ اسپتال کا 30 سالہ پرانا کولنگ سسٹم بھی جواب دے چکا اور اسپتال کا wasteٹھکانے لگانے کیلئے مشین بھی نہیں، یہ دونوں کا م بھی چیف جسٹس کو کرنا پڑے، یہاں یہ یاد رہے پمز سمیت اسلام آباد کے سرکاری اسپتالوں کے انچارج وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، میاں صاحب سے پہلے احتساب عدالت میں آنے اورمیاں صاحب کے بعد وہاں سے جانے والے ڈاکٹر صاحب کی اولین ترجیح ایک ہی کہ جب نواز شریف میڈیا سے بات کر رہے ہوں تو ان کا چہرہ مبار ک بھی کیمروں کی زد میں رہے۔
تو حضور یہ ہیں وہ 3 بار کے وزیراعظم، ان کا رویہ اور ووٹ کو عزت دینے کی اصل حقیقت، ویسے نواز شریف کے تو کیا کہنے ابھی دو دن پہلے فرمایا" احسن اقبال پر حملہ فیض آباد دھرنے میں ہزا ر ہزار بانٹنے کا نتیجہ ہے " یہ نہ بتایا کہ "فیض آباد دھرنے میں وزیراعظم عباسی کے حکم پر ہزار ہزار بانٹے گئے "۔ جہاں تک بات ہے شاہد خاقان عباسی کی تو جیسے امریکی ائیر پورٹ پر تلاشی دینا، امریکی قانون کی پابندی کرنا اچھا اور پاکستان میں "تلاشی " اور سپریم کورٹ کے فیصلے برے لگیں، جس کی پی آئی اے خسارے میں اوراپنی ائیرلائن منافع میں، جسکی ایل این جی ڈیل ایسی کہ 3 ارب کا منصوبہ 13 ارب کا کر دیا اورگیس ٹرمینل کا معاہدہ پرائیویٹ کمپنی سے یوں کیا کہ حکومتِ پاکستان 2 لاکھ 72 ہزار ڈالر روزانہ ٹرمینل کا کرایہ دے گی، ٹرمینل استعمال ہو یا نہ ہو مگر حکومت 15 سال تک روزانہ کرایہ دینے کی پابند اور سب ادائیگیاں ڈالروں میں، اب اس شاہد خاقان عباسی کے کہنے پربھلا کون کسی کی کیا عزت کرے گا، رہ گئے احسن اقبال تو ان کی بھی سن لیں، موصوف نے ہی کہا تھا "اگر مشرف چلا گیا تو میں سیاست چھوڑ دوں گا"، جب اپنی حکومت میں مشرف چلاگیا تو فرمایا " میں نے تو کہا تھا کہ اگر مشرف عدالتوں کا سامنا کئے بنا چلا گیا تو استعفیٰ دوں گا، چونکہ وہ عدالتوں میں پیشیاں بھگت کر گیا لہذا استعفیٰ نہیں دوں گا"، پھر انہوں نے فوجی ترجمان کے ایک جملے " معیشت اچھی بھی نہیں اور بُری بھی نہیں " پر امریکہ سے بیان داغا کہ " ادارے حدود میں رہیں، بیان غیر مناسب او ر جمہوریت خطرے میں "مگر میاں صاحب کے بار بار یہ کہنے پر کہ " معیشت کا بیٹر ا غرق ہو چکا" اور اسحق ڈار کے لندن سے یہ فرمانے پر کہ " حکومت نااہل، نالائق، معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا " پر احسن اقبال خاموش رہے، چپ سادھ رکھی اور پھر وہ احسن اقبال جو رینجر کے روکنے پر مستعفی ہونے کا کہہ کر مکر جائیں، فیض آباد دھرنے کے معاہدے پر دستخط کر کے پِھر جائیں، جو وزیرداخلہ ہوتے ہوئے اقامہ ہولڈر اور مدینہ میں کاروبار، وہ جب کہیں کہ "ساڈی وی عزت کرو" تو ہنسی آئے، حضور مان لیا کہ ہم کمزور یاداشتوں اور مضبوط معدوں والے اور ہم اخلاقی پستیوں کے اعلیٰ مقام پر، لیکن گزشتہ پنج سالہ عذاب بھگتنے کے بعد نوا زشریف کا یہ کہناہضم نہ ہو کہ "ووٹ کو عزت دو " شاہد خاقان عباسی کا یہ فرمان سننے کو دل نہ چاہے کہ " سیاستدانوں کی عزت کرو" او ر احسن اقبال کی یہ للکار سن کر تو بندہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جائے کہ "چیف جسٹس صاحب Enough is enough جے تہاڈی عزت اے تے ساڈی وی اے " نجانے کیوں سب بھلا بیٹھے کہ جیسے جمہوریت ڈراموں کا نہیں، کارکردگی اور خود احتسابی کا نام، ویسے ہی عزت مانگنے سے نہیں ملتی، عزت کمانا پڑتی ہے۔