چوری دا مال تے ڈانگاں دے گز!
پنجابی محاورہ "چوری دا مال تے ڈانگاں دے گز " مطلب مالِ مفت، دلِ بے رحم، یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو رہا۔
پہلے بات آخری کابینہ اجلاس کی جو اُس رات دیر تک جاری رہا، جس رات 12 بجے لیگی حکومت ختم ہونا تھی، مطلب وزیراعظم عباسی کی سربراہی میں رہنماؤں نے اقتدار کا آخری منٹ، آخری سکینڈ تک ا نجوائے کیا، کابینہ اجلاس میں وزارتِ داخلہ کی ایک سمری منظور ہوئی، جسکے تحت اب تمام سابق وزراء اعظم کو لائف ٹائم" وی وی آئی پی" سیکورٹی ملے گی، اس "وی وی آئی پی" سیکورٹی پر نظر ماری جائے تو لگے کہ دنیا کا سب سے قیمتی اثاثہ ہمارے سابق وزراء اعظم، قوم کو مبارک کہ اب یہ ہمارے پیسوں سے عمر بھر "وی وی آئی پی" سیکورٹی کے مزے بھی لوٹیں گے، اسی کابینہ اجلاس میں وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل کی وہ سمری بھی منظورہوئی، جس کے مطابق اب آئندہ حکومت 4 ارب ڈالر قرضہ لینے پر مجبور، 3 ارب ڈالر تو اتنے مہنگے شرح سود پر کہ6 بینکوں کے وارے نیارے ہو گئے، قوم کو مبارک ہو، حکومت جاتے جاتے ملک کو مزید 4 ارب ڈالر کا مقروض کر گئی۔
اب بات نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی جو چیف جسٹس ثاقب نثار کی اس بات کا بُرا مان گئے کہ "احتساب عدالت ایک مہینے میں شریف خاندان کا کیس نمٹائے، خواہ ہفتے، اتوار کو ہی عدالت کیوں نہ لگانی پڑے"، چیف جسٹس نے یہ ہدایت احتساب عدالت کو کی، مگر برا مانا خواجہ حارث نے، اِدھر چیف صاحب نے یہ کہا اُدھر اگلے ہی دن خواجہ صاحب نے نہ صرف وکالت نامہ واپس لینے اور کیس سے دستبرداری کا اعلان کر دیا بلکہ اسی سہ پہر نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس بھی ٹھوک دی، فرمایا " چونکہ خواجہ صاحب نے کیس لڑنے سے معذرت کر لی، لہٰذا اب نیا وکیل کرنا پڑے گا"، یعنی نیا وکیل، لمبا ٹائم، اسی پریس کانفرنس میں میاں صاحب کے منہ سے یہ بھی سننے کو ملا کہ " مجھے حقِ دفاع نہیں دیا جارہا "، بلاشبہ خواجہ حارث کی دستبرداری میاں صاحب کی مرضی سے، یہ کیس کو لمبا کرنے کا حربہ، انتخابات تک فیصلہ نہ آنے کی منصوبہ بندی، لیکن کیا دال میں کچھ کالا تو نہیں، یہ پھر کبھی، ابھی کمزور یاداشتوں والی قوم کو یادد لانا کہ میاںصاحب کے خط پر پانامامعاملہ سپریم کورٹ پہنچا، میاں صاحب کے وکلا کے کہنے پر جے آئی ٹی بنی اور کرپشن کیسز احتساب عدالت میں آئے، پھر یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ چوٹی کے وکلا، دنیا بھر کے وسائل، شاہانہ ماحول، شاہوں جیسے پروٹوکول اور سوا دو سال میں 5 فورمز پر سنے جانے کے باوجود شریف خاندان کی طرف سے ابھی تک ثبوت نہ گواہ، اور تو اور قطری شہزادہ سپریم کورٹ پہنچا اور نہ حسن، حسین احتساب عدالت آئے، اس کے باوجود یہ کہنا کہ مجھے حقِ دفاع نہیں دیا جارہا، چہ معنی دارد؟
یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف لندن فلیٹس ریفرنس، العزیزیہ ریفرنس اورفلیگ شپ ریفرنس زیرِ سماعت، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ میاں صاحب سے سوال صرف "منی ٹریل " کا، مطلب پیسہ کہاں سے آیا اور کہاں سے کمایا، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ 9 ماہ ہو چکے، ابھی تک صرف لندن فلیٹس ریفرنس کی کارروائی بھی مکمل نہیں ہو پائی، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ شریف خاندان "منی ٹریل " پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے، یہ بھی یاد رہے کہ احتساب عدالت میں صورتحال یہ کہ ایک طرف واجد ضیا کے بیان اور جرح پر لگیں ایک ماہ 7 دن، جبکہ دوسری طرف میاںصاحب، مریم نواز اورکیپٹن صفدر حلف اٹھائے بنا اپنے بیان ریکارڈ کروائیں، کیونکہ اگر حلف دے کر بیان دیتے تو پھر جو کہتے اس پر جرح بھی ہوتی اور اسے ثابت بھی کرنا پڑتا، یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ میاں صاحب، مریم نواز اور کیپٹن صفدر 390 میں سے تقریباً 350 س والوں کے جواب میں کہیں "میرے علم میں نہیں، سوال مجھ سے متعلق نہیں اور سوال کا کیس سے کوئی تعلق نہیں، اور یہ بھی ذہنوں میں رہے کہ اس سوال پر کہ" آپ کے خلاف یہ ریفرنس کیوں بنایا گیا "، میاں صاحب کمال معصومیت سے فرمائیں "مشرف پر غداری کا مقدمہ بنانے کی وجہ سے "جبکہ مریم نواز بولیں " مجھے تو نواز شریف کی بیٹی ہونے کی سزا دی جارہی "، مطلب 5 براعظموں میں جائیدادیں، کرپشن، منی لانڈرنگ اور لوٹ مار کے الزامات، سب فرضی کہانیاں، سبحان اللہ، باقی رہ گئی میاں صاحب اور وکلا کی یہ خواہش کہ ہفتے اور اتوار کو کیس نہ سنا جائے، مطلب ہفتے میں دو دن کیس ہی نہ سنا جائے، جمعے والے دن ویسے ہی گھنٹہ ڈیڑھ کی کارروائی، ہفتے میں ایک آدھ دن کسی نہ کسی وجہ سے چھٹی، لہٰذ ا ہفتے میں کیس چلے 3 دن اور ہر ریفرنس پر لگیں کم ازکم 8 دس ماہ، سبحان اللہ، قانونی جنگ ہاتھ سے نکلی تو سارا زورلگ رہا کیس کو سیاسی بنانے پر۔
یہ بھی سن لیں کہ نااہل ہو کر بھی نواز شریف ملک وقوم کو کتنے مہنگے پڑ رہے، 21 مئی 2018 کو نوا زشریف کا دورہ بہاولپور، ڈپٹی کمشنر کی منظوری سے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر بہاولپور دورے کے حوالے سے مختلف محکموں کو خط لکھتے ہوئے فرمائیں، میاں صاحب کے تشریف لانے پر بہاولپور ایئر پورٹ پر وی آئی پی لاؤنج میں پروٹوکول دے گا اسسٹنٹ کمشنر صدر، سرکٹ ہاؤس بہاولپور میں میاںصاحب کے پروٹوکول کا ذمہ دار ہو گا اسسٹنٹ کمشنرسٹی، ایئر پورٹ پر سول ڈیفنس افسر بم ڈسپوزل عملے کے ساتھ موجود ہوگا، ایئر پورٹ پر گرائونڈ ہینڈلنگ کا ذمہ دار ہوگا سول ڈیفنس کا ضلعی افسر، سرکٹ ہاؤس کی بکنگ ودیگر انتظامات کرے گا اسسٹنٹ کمشنر جنرل، سرکٹ ہاؤس کی صفائی، کمروں کو خوشبودار بنانے، سرکٹ ہاؤس میں 2 مستعد ملازمین مہیا کرنے، ٹوائلٹ پیپرز، تولیے، صابن، منرل واٹر کی بوتلیں، ٹشو پیپرز، لائٹنگ کے انتظامات، ٹیلی فون کی سہولت، ڈرائنگ روم، مین ہال کی صفائی اور ایک سب انجینئر کی وہاں موجودگی یقینی بنانے کے ذمہ دار ہوں گے اسسٹنٹ کمشنر سٹی، ایکسین اور سرکٹ ہاؤ س کا نگراں، دورے کی فول پروف سیکورٹی ڈی پی او بہاولپور کے ذمے، سیکورٹی جیمرز کی ذمہ داری ہوگی ا سپیشل برانچ کے ڈسٹرکٹ افسر کی، نالوں، پلوں اور راستوں کی نگرانی کے ذمہ دار ہوں گے ضلعی افسر سول ڈیفنس، ایس ڈی او، ڈی ایس پی اسپیشل برانچ، چیف افسر میونسپل کارپوریشن، اسٹیشن ماسٹر ریلوے اور آر ایم سوئی گیس، اسپیشل برانچ افسر کی موجودگی میں ڈاکٹر صاحبان میاں صاحب کی خوراک چیک کریں گے، سرکٹ ہاؤس میں ایک عارضی آپریشن تھیٹر، ڈسپنسری بنے گی، زندگی بچانے والی ادویات ہوں گی، ہنگامی حالت کیلئے خون کی بوتلیں اور بہاولپور اسپتا ل کا ایک وارڈ تیار رکھا جائے، ایک ایمبولینس اور فائر بریگیڈ کی گاڑی بہاولپور ایئرپورٹ پر، ایک ایمبولینس اور آگ بجھانے والی گاڑی سرکٹ ہاؤس میں موجود رہے گی، وی آئی پی روٹ سے تجاوزات ہٹانے کی ذمہ داری ایم ڈی ایم ڈبلیو ایم سی اور چیف افسر میونسپل کارپوریشن کی، شہر کی صفائی، وی آئی پی روٹ سے ملحقہ دیواروں سے متنازع وال چاکنگ، پوسٹرز اور بینرزہٹانے کی ذمہ داری ہوگی ڈائریکٹر پی ایچ اے کی اوراسسٹنٹ کمشنر صدر کی، بجلی کی مسلسل فراہمی اور متبادل روٹ کے ذمہ دار ہوں گے ایس سی اورایکسین، بہاولپورائیر پورٹ روڈ کی مرمت اور پورے راستے کے پینٹ کا ذمہ دار ہوگا، ایس ای ہائی وے اور ایکسین، وی آئی پی روٹ پر تمام مین ہولز کور کرنے کا ذمہ دار ہوگا چیف آپریٹنگ افسر میونسپل کارپوریشن، سپرنٹنڈنٹ ایڈمن سرکٹ ہاؤس میں ایک عارضی کنڑول روم بنائے گا اور اسی طرح کا ایک کنڑول آفس ڈپٹی کمشنر آفس میںبھی بنایا جائے گا۔
کیوں، کیسا، ٹھنڈ پڑی، و ہ شخص جسے سپریم کورٹ ڈکلیئر کر چکی کہ صادق اور امین نہیں، جس کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی عدالت لکھ چکی کہ "اس نے عدلیہ، پارلیمنٹ اور عوام کو بے وقوف بنایا" جو نااہل ہو چکا اور جو نیب کا ملزم، ا س کے چند گھنٹوں کے دورہ کیلئے یہ انتظامات، یہ ملک ہے یا ماسی دا ویڑا، اتنے انتظامات تو امریکہ میں ٹرمپ کیلئے بھی نہیں ہوتے ہوں گے، اس پیمانے پر سرکاری مشینری تو برطانیہ میں ملکہ الزبتھ کیلئے بھی استعمال نہیں ہوتی ہوگی، اب ذرا بہاولپور میں ہوئے انتظامات کو ذہن میں رکھ کر سوچیں کہ نااہلی کے بعد میاں صاحب کے جی ٹی روڈ لانگ مارچ سے 50 کے قریب ہوئے جلسوں پر کتنے انتظامات ہوئے ہوں گے، کس طرح بے دریغ سرکاری وسائل کا استعمال ہوا ہو گا، کیا یہ کرپشن نہیں، ملک وقوم کے ساتھ زیادتی نہیں ؟اگر اب بھی آپ کو یہ شبہ کہ یہ جمہوریت ہے، اگر اب بھی آپکا یہ خیال کہ ہمارے حکمرانوں کا جینا مرنا ہمارے لئے، اگر اب بھی آپ یہ سوچ رہے کہ ملکی تقدیر اور عوامی قسمتیں یہی لوگ بدلیں گے، اگر اب بھی آپکو یہ یقین کہ ان کے دلوں میں ملک وقوم کا درد اور اگر اب بھی آپ یہ سمجھ رہے کہ یہ پاکستان سے مخلص تو پھر آپ بھی لاعلاج مرض میں مبتلا، پہلی فرصت میں اپنا علاج کروائیں، یقین جانئے ابھی تین چار اور موضوعات پر بھی لکھنا تھا مگر "دورہ بہاولپور" کے انتظامات پر لکھتے لکھتے دل ایسا دکھی کہ اب کچھ اور لکھنے کو دل ہی نہیں چاہ رہا، لہٰذا آخر میںصرف یہی کہنا کہ جن کی اولادیں، جائیدادیں، پوشاکیں، خوراکیں باہر کی، جن کی خوشیاں، غم ہم جیسے نہیں اور جو ہم میںکھڑے ہو کر ہم جیسے نہیں لگتے، کیا آپ چاہیں گے کہ ایسے لوگوں کے حوالے آپکا گھر بھی ہو، یقیناً جواب ہو گا۔ ۔ نہیں۔ ۔ تو پھر اس مخلوق کے حوالے ملک کیوں، پاکستان اتنا بھی یتیم نہیں جتنا ہم نے بنا دیا یا جتنا ان لوگوں نے سمجھ رکھا، پھر سے پنجابی محاورہ یاد آگیا "چوری دا مال تے ڈانگاں دے گز" مطلب مالِ مفت، دلِ بے رحم، یہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہور ہا۔