بیگم ہتھ پستول نئیں ہُندا
ہمارا ایک دوست جو وطن سے اپنی محبت کی دلیل یہ دے کہ "جب تک پاکستان بن نہ گیا، میں پیدا ہی نہ ہوا"، جسکی یادداشت ایسی کہ اکثر بولتے بولتے یہ بھول جائے کہ موضوع کیا، جب موضوع یاد آئے تو یہ بھول جائے کہ بول کیا رہا، جو عمر کے اس حصے میں کہ جہاں آئینے میں خود کو دیکھ کر پہلا خیال یہی آئے کہ اس شخص کو پہلے کہاں دیکھا ہے، جسکا منہ اتنا بڑا کہ ایک بار ڈاکٹر کے کہنے پر ابھی آدھا منہ ہی کھولا تھا کہ ڈاکٹر بول پڑا"بس بس میں باہر کھڑا ہو کر ہی معائنہ کروں گا"، جو احتیاط پسند اتنا کہ بیمار بعد میں ہو، دوا پہلے لے آئے، جو پھرتیلا ایسا کہ اگر چور کے پیچھے بھاگے تواگلے ہی لمحے چور اس کے پیچھے ہو، جو جس روز فارم میں ہو اس دن حاضر دماغ ایسا کہ ایک جاننے والے نے جب رالیں ٹپکا ٹپکا کر بتایاکہ " گزشتہ چاردن سے میرے خواب میں میمیں آرہیں۔ ۔ " تو یہ بولا"لنڈے کی جرسی اتار کے سویا کر"، ایک دفعہ ایک بزرگ نے جب بڑے فخریہ لہجے میں کہا کہ "جہاں میں ہوتا ہوں، وہاں شیطان نہیں ہوتا" اس نے کہا" قبلہ سچ کہا۔ ۔ جہاں آپ، وہاں بھلا شیطان کا کیا کام "، ایک مرتبہ مسجد میں محلے دارباآوازِ بلند دعا مانگتے ہوئے جب یہاں پہنچا "یا اللہ میرے کاروبار میں برکت ڈال "تو اس نے پیچھے سے آواز لگائی "اوئے کوئی آمین نہ کہے، اسکا کفن بیچنے کا کاروبار ہے "، جسے بحث کے دوران ایک شخص نے جب کہا کہ تم مجھے بے وقوف سمجھتے ہو تو اس کا جواب تھا " میں تو نہیں سمجھتا لیکن ہو سکتا ہے کہ میں غلطی پر ہوں "، جسکا یہ کہنا کہ اگر علامہ اقبال کو پتا ہوتا کہ پاکستان کا یہ حال ہونا، جو آج ہو چکا تو جس رات علامہ نے پاکستان کا خواب دیکھا، اس رات وہ کوئی فلم دیکھ لیتے، جو وہاں بھی منہ استعمال کرے جہاں دوسرے عقل استعمال کریں، جسکی اول تا آخر حرکتیں آئیڈیل خاوندوں والی، جسکی زوجہ ماجدہ کی صحت ایسی کہ ایک دفعہ رات کے وقت زلزلہ آنے پر جب خوفزدہ بیگم بیڈ سے نیچے گرپڑی تو یہ بولا " زلزلے کی وجہ سے گری ہو یا تمہارے گرنے کی وجہ سے زلزلہ آیا ہے "، جو کھانے پینے کا اتنا شوقین کہ بیوی کی تعریف بھی یوں کرے
تیرے بن میری زندگی میں سناٹا
تو ہی میراآملیٹ توہی میرا پراٹھا
اورجسکے اعصاب پربیگم ہر وقت ایسی سوار کہ خود کہے
بیگم ہتھ پستول نئیں ہندا
فیروی اَگے بول نئیں ہندا
مفت مشوروں کی فیکٹری ہمارا یہی دوست پچھلے ہفتے اچانک آدھمکا، پوچھا، آپ اور یہاں، بولا" جی ہاں۔ ۔ انسان کو بگڑنے میں بھلا کتنی دیر لگتی ہے " چند لمحے اپنے جواب کو خود ہی انجوائے کرکے گویا ہوا"یار الیکٹرانک میڈیا کی ا ہمیت اپنی جگہ، مگر میں تو پرنٹ میڈیا کی طاقت مان گیا ہوں " پوچھا کیسے، کہنے لگا" بٹوہ گم ہو ا، جس روز اخبار میں اشتہار دیا، اسی شام بٹوہ مل گیا "پوچھا کہاں سے ملا، جواب آیا" دوسرے کوٹ کی جیب سے " میرے چہرے پر پھیلی ناگواری دیکھ کر کہنے لگا "دل پر نہ لو، مجھے چھوڑو"، پیرومرشد نپولین بھی یہ کہہ کر پرنٹ میڈیا کی طاقت مان چکے کہ " چار مخالف اخبار، ایک ہزار بندوقوں سے زیادہ خطرناک " میں نے کہا حضور آپ سے توقع تو نہیں، مگر پھر بھی کوئی کام کی بات کر لیں، چہک کر بولا "کیا یا د کرو گے، پہلی کام کی با ت حاضر، غلط کام نہ کرنے کا ایک ہی طریقہ کہ بندہ کوئی کام ہی نہ کرے "، میں نے کہا بس یا کچھ اور، بولا " جاتے جاتے ایک مشورہ، عمل کرو گے تو سکھی رہو گے"، اگلے چارماہ اخبار میں صرف فلمی اور کھیلوں کی خبریں پڑھو اور اگر حالات جاننے کا زیادہ ہی شوق ہو تو دن میں ایک بار ٹی وی کی آواز بند کرکے خبریں دیکھ لیاکرو، اس سے تمہاری صحت اور سیاستدانوں کی ریپوٹیشن اچھی رہے گی، میں نے کہا اس قیمتی مشورے کا شکریہ، اب اجازت دیں، مجھے ایک شادی میںجانا ہے، بولا، شادی سے یاد آیا، کسی مجھ جیسے سیانے نے کہا کہ "آئیڈیل عورت وہ جو خوبصورت ایسی ہو کہ تم فوراً اس سے شادی کیلئے تیار ہو جاؤ اور کم عقل اتنی ہو کہ وہ فوراً تم سے شادی کیلئے رضا مند ہو جائے "اس سے پہلے کہ موصوف کچھ اورکہتے، میں نے زبردستی الوداعی جپھی ڈالی، ہاتھ پکڑ کر دروازے سے باہر نکالا اور اگلے ہی لمحے دروازہ بند کردیا۔
صاحبو! مجھے مکمل یقین کہ آپکی زندگی میں بھی دو چار ایسے دوست ضرورجو زندگی میں ٹکا کر غلطیاں کرنے والے، بڑی محنت سے ہارنے والے، ناکامیاں سمیٹنے میں انتہائی کامیاب اور عملی طور پر ہر امتحان میں فیل لیکن زبانی کلامی ارسطو، افلاطون کو مات کرنے والے، ان کے پاس ویسے تو سر درد سے ٹرمپ تک اور ہاکی، کرکٹ کے زوال سے معیشت کی بحالی تک ہر معاملے کا حل موجود، مگر اپنی ذاتی معیشت کا حال ایسا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ مسلسل بڑھتا زوال، ایسا ہی ایک دوست جو بچپن سے ہی اتنا لائق فائق کہ اسکول کے زمانے میں ایکدن استاد تنگ آکر بولا"تمہارا کیا کروں، تمہیں تو یہ بھی پتا نہیں چل رہا کہ علامہ اقبال کب پیدا ہوئے، حالانکہ سامنے بورڈ پر 9-11-1877 لکھا ہوا، بولا "اچھا سر۔ ۔ میں تو سمجھا کہ یہ علامہ صاحب کا فون نمبر ہے اور جو زندگی میں اپنی اکلوتی نوکری سے اس لئے ہاتھ دھو بیٹھا کہ دفتر میں اپنے محکمے کا وزیر آنے پر بھی جب یہ کرسی پر بیٹھا جھولتا رہا تو وزیر نے غصیلی آواز میں کہا" تمہیں پتا ہے کہ میں کون ہوں" بیٹھے بیٹھے بولا "آپ تشریف رکھیں، میں ابھی کسی سے پتا کرکے آپکو مطلع کرتا ہوں " یہی دو دن پہلے ملا تو کہنے لگا "ہمارے ہاں ہر وہ شخص جو وہ نہیں کرتا جو اسے کرنا چاہیے اور جو وہ کرتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے، اسے "احسن اقبال " کہنا چاہیے " پھر آدھا گھنٹہ سیاست کی ہر زیبا کو نازیبا کرکے کہنے لگا "ذاتی تجربے کی بنیاد پر بتارہاہوں کہ بیوی کی بے وقت اور بے جا تعریف بھی ٹھیک نہیں " پوچھا کیسے، بولا " کل ہی کی بات، شام کو گھر داخل ہوتے ہی جب میں نے تمہاری بھابھی سے کہا"آج تو کمال کی حسین لگ رہی ہو، پریوں جیسی۔ ۔ نہیں نہیں، بلکہ آج تو حو ر کی طرح دکھائی دے رہی ہو "تو تیری بھابھی نے رونا شروع کر دیا، میں نے گھبرا کر رونے کی وجہ پوچھی تو بولی "رؤں نہ تو اور کیا کروں، آج دن ہی خراب، تمہاری بیٹی نے سلائی مشین میں انگلی دے کر زخمی کر لی، تمہارے لاڈلے نے میرے جہیز کے ڈنر سیٹ کی دو پلیٹیں توڑدیں اور اوپر سے تم نشہ کر کے آگئے "۔
اس دوست کو چھوڑیں، ہزاروں شادیاں کھا اور بھگتا کر بھی ابھی تک کنوارے دوست کی سن لیں، گزشتہ شام ملا، بولا "پچھلے ماہ ایک شادی پر تمہیں کھانے کیلئے خوار ہوتے دیکھا، بہت افسوس ہوا، ماشاء اللہ اب تم بال بچے دار ہو چکے، اب تو شادی کے کھانے کے آداب سیکھ لو" جب منہ سے نکلا آپ ہی سکھا دیں تواسی موقع کی تاک میں بیٹھا یہ دوست اسٹارٹ ہوگیا، جب بھی شادی کا کھانا شروع کرو تو آدھا نان ہاتھ میں پکڑو اور لگاتار بوٹیاں اس نان پر رکھ کر کھاتے جاؤ، اس طرح تم بوٹیاں کھا رہے ہوگئے جبکہ لوگ یہی سمجھیں گے تم نان کھارہے، باربی کیو یا بریانی سے اپنی پلیٹ خوب اچھی طرح بھرنے کے بعد پلیٹ میں دو چمچ اضافی رکھ لو، دیکھنے والے یہی سمجھیں گے کہ تم اپنے ساتھیوں کیلئے بھی کھانا لے جارہے، کھانا شروع ہوتے ہی تین بوتلیں اُٹھاؤ، دو بوتلوں کو تھوڑا تھوڑا پی کر ساتھ رکھ لو اور تیسری بوتل پینا شروع کر دو، چونکہ ان بوتلوں کو جوٹھا سمجھ کر کوئی ہاتھ بھی نہیں لگائے گا، لہذا بعد میں بڑے سکون سے یہ بوتلیں بھی پی لینا، حلوہ، کسٹرڈ، کھیر، قلفہ مطلب جو میٹھا بھی لینا ہو وہ کھانے کی بڑی پلیٹ میں لو، بڑی پلیٹ میں زیادہ ڈالا ہوا بھی کم لگے گا، ابھی دوست یہیں پہنچا تھا کہ میں نے ٹوکا" حضورآج اتنا ہی کافی، پہلے مجھے یہ پریکٹس کرلینے دیں۔
صاحبو قصہ مختصراور ہزار باتوں کی ایک بات کہ کچھ نادر دوستوں کو دیکھ کر اور انکے نایاب مشورے سن کر اکثر ایک آنکھ والا وہ شخص یاد آجائے کہ جس نے اپنے دوست سے کہا " میری ایک آنکھ اور تمہاری دو، لیکن پھر بھی مجھے تم سے زیادہ نظر آتاہے"، دوآنکھوں والے نے حیران ہو کر پوچھا، وہ کیسے، ایک آنکھ والا بولا" وہ ایسے کہ تمہیں اس وقت میری صرف ایک آنکھ نظر آرہی، جبکہ مجھے تمہاری دو آنکھیں نظر آرہیں۔