برائے مہربانی اب یہ ڈرامے بند کریں!
اکثرسوچوں، ڈاکو نیب کیا کرے، تقسیم در تقسیم، ناشکرا، معاشرہ خوش ہوجائے، یہ اپوزیشن کا کوئی بندہ پکڑلے، نیب حکومتی آلہ کار، پولیٹکل مینجمنٹ، حکومت کے کسی چہیتے کو بلالے، ناراضی کے پیغامات، فنڈز رُک جائیں، پی پی کی طرف رُخ کرے، لیگیوں کو ڈھیل دینے کی باتیں، لیگی پکڑے جائیں، پی پی سے ڈیل کی باتیں، دوسرے درجے کا کوئی کرپٹ پکڑلے، لوجی بڑے ہاتھ آنہیں رہے، یہ نیب توپٹواریوں، کلرکوں جوگاہی رہ گیا، کوئی بڑا پکڑ لے، سازشی تھیوریاں، اسے تو فلاں کے کہنے پرفلاں کو سبق سکھانے کیلئے پکڑا، نیب حراست میں کسی معزز کے چند دن گزر جائیں، باتیں شروع، کیا برآمد کر لیا، خاک برآمد ہوگا، نیب ہے ہی ایسا، پکڑے پہلے، ثبوت ڈھونڈے بعد میں، کسی سے پلی بارگین کر لے، اپنی کمیشنوں کیلئے پلی بارگینیں ہور ہیں، لو جی اربوں والوں سے کروڑوں لے کر کلین چٹیں دی جارہیں، کوئی برائی نہ ملے تو نیب آمر کا بنایا ادارہ، قوانین کالے، جمہوریت کیلئے خطرہ، حکومت سے ملاہوا، اس کے اندر کرپٹ بیٹھے ہوئے، اکثر سوچوں، حدیبیوں کو مُردہ بنا کر اور اسحق ڈاروں کوکلین چٹیں دے کرتو نیب قصور وار، لیکن نواز شریف سے آصف زرداری تک کا پیچھا کرنا، کیا یہ بھی اس کا قصور، نیب کرے کیا، ایک طرف سپریم کورٹ کی ڈانٹ ڈپٹ، دوسری طرف سویلین بالادستی والے، ایک طرف میڈیا کے حملے، دوسری طرف کردار کشی کرنے والے، ایک طرف خواجہ حارث، اعتزاز احسن، علی ظفر جیسے وکلا، دوسری طرف 75 ہزارفیسوں والے وکیل، ایک طرف بااختیار لوگ، لامحدود وسائل، دوسری طرف سرخ فیتے، قانونی رکاوٹیں اور کبھی نہ بھرنے والے فائلوں کے پیٹ۔
اکثر سوچوں، پی پی 5سال حکومت کر چکی، 5سال لیگی حکومت رہی، 3ماہ تحریک انصاف کو ہوگئے، اگر یہ آمر کا بنایا ادارہ، یہ جمہوریت کُش، ختم کیوں نہ کیا، اگر اس کے قوانین کالے، کیوں نہ بدلے، اگر اس میں کرپٹ، کیوں نہ کلین اپ ہوا، اگر مسئلہ capability اور capacity کا، کیوں نہ اس طرف توجہ دی گئی، کس نے نیب کو اس قابل بنانا تھا کہ شکایت نہ رہتی، کس نے ایسا سسٹم بنانا تھا کہ کسی کو بھی گلہ شکوہ نہ ہوتا، چونکہ نیتیں بد، لہٰذا منزلیں کھوٹی، سب کو موقع ملا، کسی نے کچھ نہ کیا، کچھ کرتے بھی کیسے، جب تک نیب کی برائی سامنے آتی، تب تک اقتدار مل جاتا اور اقتدار میں تو نیب کمال کا، ابھی دیکھ لیں، ذرا بات بڑوں کے بڑے ڈاکوئوں تک پہنچی تو اچانک ہر سقراط کو معلوم پڑا، اصل خرابی تو نیب میں، کل نیب کے دفاع کرنے والے نواز، شہباز سے مریم اورنگزیب تک، زرداری، بلاول سے ڈاکٹر عاصم تک سب نیب پر گرج، برس رہے، سعد رفیق نے تو قومی اسمبلی میں ڈی جی نیب کو "سرکاری سانڈ، قرار دیا، سوچئے اگر ڈی جی سعد رفیق کو "سرکاری سانڈ، کہہ دیتے تو اب تک کس کس کا استحقاق مجروح ہوچکا ہوتا، آگے سنیے، احد چیمہ پکڑا جائے، پنجاب اسمبلی میں قرارداد مذمت، فواد حسن فواد گرفتار ہو الزامات ہی الزامات، قمرالسلام گرفتار ہو، بچے ریلیاں نکالیں، لوگ ہار پہنائیں، میڈیا انٹرویو کرے، انہیں چھوڑیں، اپنے ڈاکٹر مجاہد کامران کی بات کر لیں، ضمانت پر باہر آئے، دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی، ہم تو انہیں استاد سمجھتے تھے، یہ تو استادوں کے استاد بلکہ منجھے ہوئے سیاستدان نکلے، چند دن اندر رہ کر اندر سے وہ کچھ باہر نکال لائے کہ انکی تحقیق پر بڑے بڑے محقق عش عش کر اُٹھے، فرمایا" " نیب کے 14 سیل، یہ عقوبت خانے، ایک سیل میں 4 چار لوگ بھی، واش رومز میں کیمرے لگے ہوئے، ملزمان پر تشدد ہو رہا، پیراگون اسکینڈل میں گرفتار حاجی ندیم کو بیوی بچوں کی موجودگی میں ماراپیٹا گیا"۔
ڈاکٹر مجاہد کامران نے ہی قوم کو یہ اطلاع بھی دی کہ "شہباز شریف رتی بھر پریشان نہیں، پڑھتے یا سوتے رہتے ہیں" ، میں بھی اسی اسکول میں پڑھا، جس میں فواد حسن فواد پڑھے، سبحان اللہ، مزید کہا، فواد سے جب میں نے پوچھا "آپ وعدہ معاف گواہ بن گئے" تو وہ بولے " وعدہ معاف گواہ بنتا تو یہاں ہوتا" ڈاکٹر صاحب نے یہ ہوش ربا انکشاف بھی کیا کہ "میرے خلاف کیس کا منصوبہ ایک فیشن ڈیزائنر کے گھر اُس چیف سیکرٹری نے بنایا جو آجکل یوایس ایڈ میں اور چونکہ میں نے نائن الیون کے خلاف کتاب لکھی، اس لئے امریکی اسٹیبلشمنٹ میرے خلاف" مطلب ڈاکٹر صاحب کے خلاف جو کچھ ہورہا، یہ بین الاقوامی سازش، اللہ تیری شان، اب نیب کا یہ کہنا کہ واش رومز میں کیمرے نہیں لگے ہوئے، ڈاکٹر صاحب کی ہر روز بیگم صاحبہ سے ملاقات کروائی جاتی رہی، ان کی اساتذہ کے وفد سے ملاقات کرائی گئی، کمر درد کی وجہ سے روزانہ چیک اپ کروایا جاتا رہا، انہیں سونے کیلئے میٹرس دیا گیا، چیئرمین نیب نے بیگم صاحبہ کی موجودگی میں ان سے ملاقات کی، مناسب دیکھ بھال پر انہوں نے چیئرمین کا شکریہ بھی ادا کیا، ان سب باتوں کو ایک طرف رکھیں، اگر صرف اس بات کی ہی تحقیق کرلی جائے کہ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے کہ " وہ فواد حسن فواد سے ملے اور پیرا گون والے حاجی ندیم کے بیوی بچوں کے سامنے تشدد کے گواہ" ، جبکہ نیب کہے "ڈاکٹرمجاہد کامران 11 اکتوبر 2018 کو گرفتار ہوئے اور فواد یکم اکتوبر 2018 جبکہ حاجی ندیم 18 جون 2018 کو جوڈیشل کسٹڈی پر جیل جا چکے" مطلب ان کے آنے سے پہلے وہ جا چکے، ان کی آپس میں ملاقات ہی نہیں ہوئی، اگر یہی تحقیق ہوجائے تو معلوم پڑ جائے گا کہ ڈاکٹر صاحب سچے یا جھوٹے، خواہش کہ یہ تحقیق ضرور ہو۔
یہاں نجانے کیوں جی کر رہا کہ جس طرح دو چار بڑوں کی نیب حراست میں آنے کے بعد نیب کے ظلم سامنے آئے، نیب قیدیوں کے دکھوں، دردوں سے قوم آگاہ ہوئی، اسی طرح دو چار بڑوں کو چند دن حوالاتوں، جیلوں میں بھی رکھا جائے، تھانے کچہریوں میں لے جایا جائے، انہیں حبس زدہ قیدی وینوں میں جانوروں کی طرح لایا لیجایا جائے، ان کا علاج سرکار ی اسپتالوں میں کرایا جائے، ان کے بچے، پوتے، نواسے سرکاری اسکولوں میں پڑھائے جائیں، انہیں اتوار بازاروں سے خریدوفروخت کروائی جائے، وہی پانی پلایا جائے جو عوام پی رہے، وہی خوراک کھلائی جائے جو قوم کھا رہی، ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے انہیں ہم بھوکے ننگوں کے دکھ، درد محسوس ہو جائیں، انہیں پتاچل جائے کہ ذلت بھری زندگی گزارنا کتنا مشکل اور ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے کچھ بہتری آجائے، کیونکہ اگر سال بھر کی مقدمہ بازی کے بعد نواز شریف کویہ پتا چل سکتا ہے کہ " انصاف کا حصول مہنگا، تھکا دینے والا" توبڑی بڑی توندوں کو بھک ننگ کے ذائقے چکھاکر بہتری کی امید کی جاسکتی ہے، باقی نیب سے کوئی شکایت نہ ہو، دوحل، نیب کو ختم کر دیا جائے یا پھر سب بڑے ملکر بیٹھیں، آئین میں یہ ترمیم کر لیں، گریڈ 15 سے اوپر کا کوئی معزز چاہے چوریاں کرے، ڈاکے مارے، لوٹ مار یا لوٹ کھسوٹ، نیب پوچھنے کا مجاز نہیں، بلکہ نیب کے ساتھ ساتھ اگر ایف آئی اے، پولیس اورعدالتوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو ماحول زیادہ پرامن ہوجائے، مطلب یا معزز ڈکیت قانون سے بالاتر ہو جائیں یا قانون سب کیلئے، لیکن یہ نہیں ہوسکتاکہ لوٹ مارکرو، سوال پوچھو تو جمہوریت خطرے میں، یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ اقتدار میں نیب اچھا، اپوزیشن میں نیب برا، برائے مہربانی، اب یہ ڈرامے بند کریں۔