عقل مند دیوانہ!
میں شُوہدا جٹاں دا کاما
ہر بندے نوں کراں سلاماں
تے مینوں ماڑا جاتا ہویا
میرے پنڈ دیاں خاصاں عاماں
میرے اُتے رعب جماوے
رحماں، پھتا، مُولو، گاماں
چوہدریاں دے سب کم کردا
میں ہتھے بنھ کے وانگ غلاماں
فیر وی مینوں ایہو ای کہندے
ایدھر آ نمک حراماں
یہ پنجابی نظم بشیر دیوانہؔ صاحب کی کتاب "پچھو کڑدی رات سے، ماسٹر دیوانہ صاحب، گورنمنٹ ہائی اسکول پنڈی بھٹیاں میں میرے استاد، آج بھی زمانہ طالبعلمی یاد آئے تو گورنمنٹ پرائمری اسکول مچھونکہ کے ماسٹر اسحٰق اور ہائی اسکول کے بشیر دیوانہ صاحب بے اختیار یاد آجائیں، ماسٹر اسحٰق ہمارے پرائمری اسکول کے ہیڈ ماسٹر، ان سے قرآن بھی پڑھا، لمبا قد، دبلے پتلے، پھرتیلے، لمبی داڑھی، جو ہمیشہ مہندی رنگ میں رنگی رہتی، ابھی تک یاد گاؤں کے پرائمری اسکول میں صبح صبح تلاوت، سب کا مل کر "لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، پڑھنا، حاضری لگنا اور پھر ہمارا ماسٹر اسحٰق کے ہتھے چڑھ جانا، جس روز چھٹی کے بعد ان کا کوئی گھریلو کام نہ ہوتا تو دو تین بجے جان چھوٹ جاتی ورنہ اسکول کے بعد ماسٹر صاحب کے کاموں میں ہی لگے رہتے، جیسے ان کے گھر میں بڑے بڑے بھڑولوں سے گندم نکالنا، ڈالنا، گھر کی لپائی، دھلائی، ستھرائی کرنا، سوکھی لکڑیاں کاٹ کر لانا وغیرہ وغیرہ۔
ماسٹر اسحٰق صاحب کا اسٹائل کمال کا، کلاس سے ذرا ہٹ کر کرسی پر بیٹھتے، نظر کی عینک لگائے، اک چُڑمڑا اخبار پڑھتے ہوئے، ہم زمین پر بوریاں بچھائے رٹے لگانے والوں کو اخبار پڑھتے پڑھتے عینک کے اوپر سے دیکھتے رہتے، اخبار کی بھی سن لیں، یہ ہر اتوار کو پنڈی بھٹیاں جاتے، اخبار خریدتے اور پھر اگلی اتوار تک اس اخبار کی خبریں، مضامین اور میگزین پڑھتے اور اتنی بار پڑھتے کہ ہر شے زبانی یاد ہو جاتی، ایک بار موڈ اچھا دیکھ کر ڈرتے ڈرتے کہہ دیا "ماسٹر جی پرانا اخبار، پرانی خبریں، آپ کیوں پڑھتے ہیں" اچانک حملہ آور ہوئے، دایاں کان مروڑ کر بولے "تیرا کان بھی تو بہت پرانا ہو گیا، پھر اس سے کیوں سنتے ہو" ، ساتھ ہی دو ڈنڈے ٹکا دیئے، ظاہر ہے جب کان چھوڑیں، جان شکنجے میں ہو تو پھر پرانا اخبار بھی نیا، لہٰذا پھر ہمیشہ ماسٹر صاحب کا اخبار نیا ہی لگا۔ ماسٹر صاحب کا ڈنڈا چلاؤ اسٹائل بھی کمال کا، ڈنڈے کو درمیان سے پکڑ کر یوں پھرتیلے انداز میں جسم کے ہر حصے پر مارتے جاتے کہ ایک آدھ منٹ بعد یہ معلوم کرنا مشکل ہو جاتا کہ کہاں لگ چکا، کہاں لگ رہا اور کہاں لگنے والا۔
یہ بھی سن لیں، ایک بار ہماری پوری کلاس ماسٹر صاحب کے گھر مختلف کاموں میں جُتی ہوئی، اچانک میری نظر ایک برتن پر پڑی، ڈھیر سارے بادام، سارے دن کی بھوک اوپر سے مفت کے بادام، اِدھر اُدھر دیکھا، جب ماسٹر صاحب نظر آئے اور نہ کوئی کلاس فیلو قریب پایا تو ایک لمحہ ضائع کئےبنا باداموں پر ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا، لیکن شامتِ اعمال، ابھی باداموں کا دوسرا پھکا ہی مارا کہ اچانک ماسٹر صاحب سر پر، میں نے ان کی طرف، انہوں نے میری طرف دیکھا، لمحہ بھر کیلئے ہم دونوں نے ایک دوسرے کو ناقابلِ یقین نظروں سے دیکھا، اس سے پہلے میں صفائی میں کچھ کہتا، ماسٹر صاحب آگے بڑھے، باداموں والا برتن اُٹھایا اور بڑبڑاتے ہوئے کمرے سے نکل گئے، اس دن تو انہوں نے کچھ نہ کہا مگر اگلے 3 سال وہ بادام بھولے نہ مجھے بھولنے دیئے، جب کبھی سبق بھول جاتا تو پھینٹی لگانے سے پہلے یہ ضرور کہتے "بادام کھا کر بھی تو نالائق ہی رہا" جب کبھی سوال کا جواب غلط ہو جاتا تو مار دھاڑ کی ابتدا یوں کرتے "تیرا تو بادام بھی کچھ نہ بگاڑ سکے" اور جب کبھی ہوم ورک نہ کر پاتا تو ڈنڈے سے پہلے یہ سننے کو ضرور ملتا "شاباش، اِدھر آ، تجھے بادام کھلاؤں" یقین جانئے آج بھی بادام نظر آتے ہی بے اختیار ماسٹر اسحٰق مرحوم یاد آ جائیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، ذکر ہو رہا تھا بشیر دیوانہ صاحب کا، پرائمری اسکول میں ریکارڈ ساز ماریں کھا کر ہائی اسکول پہنچا، پہلے دن ہی دیوانہ صاحب سے ٹاکرا ہو گیا، ان کے رنگ ڈھنگ دیکھے اور چند دنوں میں ہی ان کا دیوانہ ہو گیا، درمیانہ قد، سانولی رنگت، داڑھی ایسی کہ لگے ایک ماہ سے شیو نہیں کی ہوئی، دھیمہ نرم لہجہ، چلتے پھرتے، اُٹھتے بیٹھتے، بات کرتے اک عجب سی شانِ بے نیازی، 4 سالوں میں مارنا تو درکنار کبھی ان کو غصے میں بھی نہ دیکھا بلکہ ان کی نرمی کا ناجائز فائدہ یوں بھی اُٹھایا کہ اکثر ہم دو چار بھگوڑے پہلے پیریڈ میں حاضری کے بعد آنکھ بچا کر اسکول سے نکلتے، سڑک کراس کرتے، دیوار پھلانگ کر قبرستان میں اور وہاں سے کبھی گلیوں، بازاروں میں آوارہ گردی یا پھر ایک ایک روپیہ اکٹھا کر کے شہر کی ویڈیو شاپ پر، جہاں ایک تنگ و تاریک کمرے میں زمین پر بچھی دریوں پر بیٹھ کر وی سی آر پر فلم دیکھنا۔
چھٹی کے قریب، ہم اسکول کی طرف دوڑتے، آنکھ بچا کر اسکول میں داخل ہوتے اور سیدھا کلاس میں، اس وقت یا تو دیوانہ صاحب کی پیریڈ شروع ہونے والی ہوتی یا ہو چکی ہوتا، اس آخری پیریڈ میں ہماری حاضری لگ جاتی اور یوں اسکول ریکارڈ کے مطابق ہم سارا دن اسکول میں ہوتے، لیکن بتانے والی بات یہ کہ اگر ہم لیٹ ہو جاتے، مطلب دیوانہ صاحب کی کلاس شروع ہو چکی ہوتی تو جونہی ہم پہنچتے، ہمیں دیکھ کر دیوانہ صاحب پڑھاتے پڑھاتے رُکتے، چہرے پر طنز بھری مسکراہٹ سجا کر کہتے "سرکار تشریف لے آئے، بڑی مہربانی، بہت نوازش، اب براہِ کرم اپنا اپنا رول نمبر بھی بتا دیجئے تاکہ خاکسار آپ کی حاضری لگانے کی گستاخی کر سکے" ہم شرمندہ شرمندہ اپنا اپنا رول نمبر بتاتے، یہ حاضری لگا کر پھر سے پڑھانے لگ جاتے، غصہ نہ سزا حالانکہ انہیں پتا ہوتا کہ ہم سارادن اسکول سے باہر گزار کر آئے۔
لیکن مجھے آج یہ سب باتیں کیوں یاد آ رہیں، اس لئے کہ چند روز پہلے پتا چلا کہ میرے پسندیدہ استاد، نفیس انسان اور خوبصورت شاعر دیوانہ صاحب چپکے چپکے حضرت علیؓ کے اقوال کا پنجابی میں منظوم ترجمہ کر چکے، انہیں فون کیا، حضرت علیؓ کے دو قول اور ان کا منظوم پنجابی ترجمہ سنا، لطف آ گیا، پہلے آپ بھی یہ پڑھ لیں، باقی باتیں بعد میں، ترتیب یہ کہ حضرت علیؓ کے اقوال پھر اردو ترجمہ اور پھر دیوانہ صاحب کا منظوم پنجابی ترجمہ.
وما سیان ذو خبر بصیر
وآخر جاھل یسا سوآ
ترجمہ:روشن ضمیر اور جاہل، ہرگز برابر نہیں ہو سکتے۔
منظوم پنجابی ترجمہ:
کدی برابر نہ ہو سکدا جاہل تے سیانا
اک سیانا تجربیاں والا دوجا ذہن نادانا
وان غیبت عن احد قلانی
عاقبتی بما فیہ اکتفا
ترجمہ:نظر سے ہٹوں تو دوست دشمنی کرنے لگ جائیں، بہت تکلیف پہنچائیں۔
منظوم پنجابی ترجمہ:
کنڈیوں پچھے کر دے غیبت، جھٹ ویری بن جاندے
ایسے طرحاں ایہہ ظاہری سجن مینوں دکھ پہنچاندے
کیوں. کیسا، مجھے یہ تو معلوم تھا کہ دیوانہ صاحب شاعر مگر یہ نہیں پتا تھا کہ اتنے باکمال شاعر، اقوال ِحضرت علیؓ کا خوبصورت منظوم پنجابی ترجمہ پڑھ کر میرا دل تو اب یہ چاہنے لگا کہ دیوانہ صاحب سیرت نبویؐ اور قرآن پاک کا بھی منظوم پنجابی ترجمہ کریں۔
سارا نہیں تو اُتنا ہی جتنا ہو سکے، آخر میں کہنا یہ کہ سر مجھے آپ پر فخر، آپ کی محبتوں، عنایتوں کا شکریہ، آپ کا نام تو بشیر دیوانہؔ، مگر کام عقلمندوں کو دیوانہ کر دینے والا اور یقین جانیے سر! میں نے اپنی زندگی میں آپ جتنا عقل مند دیوانہ نہیں دیکھا۔