ایک سیاست کئی کہانیاں
موجودہ بے یقینی، کنفیوژن اور گومگو کے ماحول میں جب اپنے دوست اور نامور صحافی رؤف کلاسرا کی انٹرویوز پر مبنی کتاب ’’‘‘ ہتھے چڑھی تو ایک ہی نشست میں ختم کر ڈالی، چند گھنٹوں میں 390 صفحات کیسے پڑھ لئے، یہ تو پتا نہ چلا، لیکن پڑھنے کے بعد یہ ضرور معلوم ہوگیا کہ اگر چند فل اسٹاپ، کچھ کامے، دوچار نام اور تھوڑے سے عہدے اِدھر اُدھر کر لیں تو ہمارا سیاسی منظر آج بھی وہی جو 10 سال پہلے اورآج بھی وہی ہو رہا جو ایک دہائی پہلے ہوا، یعنی 2007 سے 2017 آ گیا مگر سیاست جہاں تھی وہاں ہی پھنسی ہوئی، اگر یقین نہیں آرہا تو’’ گاڈ فادر‘‘ کے مترجم ’’ایک قتل جو نہ ہوسکا، اور’’ آخر کیوں‘‘ جیسی پڑھنے لائق کتابوں کے مصنف کی چوتھی کاوش ’’‘‘ سے چند نمونے حاضرِ خدمت، مجھے یقین کہ ان نمونوں کے بعدآپ بھی کہہ اُٹھیں گے کہ چاہے زمانہ جتنا بدل جائے، ہماری سیاست بدلنے والی نہیں۔ ۔ یہاں یہ بھی بتانا ضروری کہ 10 سال ہوچکے آج تک کسی نے کسی انٹرویو کی تردید نہیں کی۔ ملاحظہ فرمائیں !
ًٰحلف اُٹھانے والے وزرا لائن بنا کر کھڑے اور ملکی وغیر ملکی مہمان کرسیوں پر بیٹھے انتظار کر رہے تھے مگر صدر غلام اسحاق خان حلف لینے نہیں آرہے تھے، ان کا اصرار تھا کہ اگر انکے داماد انور سیف اللہ کو وزیر نہ بنایا گیا تو وہ حلف نہیں لیں گے، آخرایک لمبے بحث ومباحثے کے بعد نواز شریف انور سیف اللہ کو وزیر بنانے پر راضی ہو گئے۔
ایک روز آسمان نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ جس آصف زرداری کو صدر اسحٰق خان نے کرپشن کے الزامات میںتین سال جیل میںرکھا، اسی زرداری صاحب کو وہ اپنی کابینہ کا حصہ بنا کر خود ان سے حلف لے رہے تھے۔
حالات یہ تھے کہ جنرل آصف نواز کے جنازے میں نواز شریف اور غلام اسحٰق خان کھڑے تو ساتھ ساتھ تھے مگر دونوں نے ایک دوسرے سے بات تک نہ کی۔
میاں نواز شریف جنرل رحمدل بھٹی کو آرمی چیف بنانا چاہتے تھے جبکہ غلام اسحق خان جنرل فرخ کو، لیکن آخر کار دونوں کا اتفاق جنرل وحید کاکڑ پر ہوا۔
میٹنگ شروع ہوتے ہی بے نظیر بھٹو نے صدر فاروق لغاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ وہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو برطرف کردیں، ،۔
سب کو معلوم تھا کہ عابدہ حسین بے نظیر بھٹو کو پسند نہیں کرتی تھیں، لہٰذا انہی کے گھر پرمیاں نواز شریف اور صد ر لغاری کے اختلافات ختم کرانے کیلئے خفیہ ملاقاتیں شروع ہوئیں اورپھر انہی خفیہ ملاقاتوں کی برکت سے فاروق لغاری پر کرپشن کے الزامات لگا نے والے میاں نواز شریف نے فاروق لغاری کو گلے لگا لیا۔
ڈاکٹر شیر افگن کا خیال تھا کہ ’’چونکہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف بے نظیر بھٹو پر مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں اوربی بی نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا تھا لہٰذا دونوں مالیاتی ادارے بھی فاروق لغاری سے مل گئے‘‘۔
صدر فاروق لغاری کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ مہران بینک اسکینڈل کے پیچھے آصف علی زرداری کا ہاتھ ہے۔
وقت اور لوگ کیسے بدلتے ہیں کہ شاہد حامد جن کے والد جنرل حامد، ضیاء دور میں اس وجہ سے قیدوبند کی صعوبتیں اُٹھاتے رہے کہ وہ پیپلز پارٹی سے تعلق توڑنے پر راضی نہ ہوئے، یہی شاہد حامد 5 نومبر 1996 کی رات صدر لغاری کے کہنے پر پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کی چارج شیٹ تیار کر رہے تھے، اس رات صدر فاروق لغاری ہر 5 منٹ بعدبڑی بے چینی سے انکے کمرے میں آکر کہتے ’’شاہد ہری اپ، برخاستگی آرڈر تیار کرنے میں اتنی دیر کیوں‘‘۔
70 کی دہائی میں بھٹو صاحب نے نجکاری کے نام پر جب چوہدری ظہور الہٰی اور انکے خاندان کی فیکٹریاں قبضے میں لے لیں تو بھٹو اور چوہدری خاندان میں دشمنی کی بنیاد پڑ ی، اسی دشمنی کی باز گشت اکتوبر2007 میں تب سنی گئی جب بینظیر بھٹو نے پرویز الٰہی پر الزام لگایا کہ 16 اکتوبر کی رات کراچی میں ہونے والے اس بم دھماکے میں وہ بھی ملوث، جس میں ڈیڑھ سو افراد مارے گئے، گو کہ چوہدری شجاعت نے دشمنی کی اس خلیج کو کم کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش تب کی جب بحیثیت وزیرِ داخلہ اُنہوں نے قیدی آصف زرداری کو نہ صرف جیل سے ریسٹ ہاؤس منتقل کیابلکہ بی بی کو ملاقات کرنے کی اجازت بھی دیدی، چوہدر ی شجاعت کے اسی اقدام پر صد ر غلام اسحٰق خان نے انہیں کڑوی کسیلی باتیں سناتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ ’’ یہ قید ہے یامیاں بیوی کی ملاقاتیں، ، مگر چوہدری شجاعت حسین کی بھٹو خاندان سے تعلقات بہتر کرنے کی خواہش تب دم توڑ گئی جب بی بی نے اقتدار میں آکر چوہدری صاحب کو اڈیالہ جیل کے اس سیل میں پہنچا دیا کہ جہاں بنیادی سہولتیں تک نہ تھیں، چوہدری شجاعت نے اپنے ذاتی خرچے سے اس سیل کی حالت بہتر کروائی اور بعد میں جیل کے نسبتاً اسی بہتر سیل میں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بھی رہنا پڑا۔
چوہد ری شجاعت نے بتایا کہ جیل میں ایک دن زرداری صاحب نے میرے پاس خواجہ طارق رحیم کو یہ پیغام دے کر بھیجا کہ میاں نواز شریف کا ساتھ چھوڑ دو تو قید ختم اورپورا پنجاب آپکے حوالے۔
محمد یعقوب، معین افضل اور حفیظ پاشا نے مل کر میاں نواز شریف اور سرتاج عزیز کوا س بات پر قائل کر لیا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹس فریز کر دینے چاہئیں۔
چوہدری شجاعت کا کہنا تھا کہ 1997ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پہلی میٹنگ میں نواز شریف سے کہا کہ تکبر، منافقت اور خوشامد سے بچنا مگر افسوس وہ ان تینوں سے نہ بچ پائے، انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں بنانے میں لگے میاں صاحب کو میں نے منع کرتے ہوئے یہاں تک کہا ’’ میاں صاحب خصوصی عدالتیں نہ بنائیں، کیا معلوم ایک دن ہمیں انہی عدالتوں کا سامنا کرنا پڑجائے‘‘ مگر وہ نہ مانے اور پھر مشرف کے مارشل لا کے بعد نہ صرف ان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی عدالت میں چلا بلکہ اسی خصوصی عدالت نے انہیں عمر قید کی سزابھی سنائی۔
وہ 8 وزرا جو ہر روز چوہدری نثار کے سامنے میاں نواز شریف کی پالیسیوں پر تنقید کرتے رہتے تھے جب کابینہ کے اجلاس میں بڑھ چڑھ کر میاں نواز شریف کی تعریفیں اور خوشامد کرنے لگے تو چوہدری نثار نے انتہائی غصے کے عالم میں نواز شریف سے کہا’’ اب یہ قانون بھی بننا چاہیے کہ خوشامد جرم اور اس قانون کا اطلاق سب سے پہلے وفاقی کابینہ پر ہو، ، یہ سن کر میاں نواز شریف نے ایک چٹ چوہدری نثار کو بھجوائی جس پر لکھا تھا ’’آپ نے سب کے سامنے میری insult کی ہے، ، چوہدری نثار کہتے ہیں کہ’’ میاں صاحب کے ہاتھ کی لکھی یہ چٹ آج بھی میرے پاس محفوظ‘‘۔
جب میاں نوا زشریف اور جنرل جہانگیر کرامت میں اختلافات سنگین ہوگئے تو ایک عربی شہزادے نے صلح کروائی۔
چوہدری نثار نے جنر ل علی قلی خان کے آرمی چیف بننے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ’’ اگر انہیں آرمی چیف بنایا گیا تو ان کے برادر نسبتی گوہر ایوب اور سیف اللہ خاندان سیاسی طور پرمیاں نواز شریف سے بھی مضبوط ہوجائیں گے۔
چوہدری نثار نے ہی نواز شریف اور پرویز مشرف کی خفیہ ملاقاتیں کروائیں، سب کا خیال تھا کہ جنرل مشرف جیسے بے ضرر انسان سے جو چاہیں گے کروا لیں گے۔
جنرل علی قلی بولے ’’ میں آج بھی یہ سن کر حیران ہو جاتا ہوں کہ گوہر ایوب میرے لئے لابنگ کر رہے تھے، لوگ یہ بات کیوں بھول جاتے ہیں کہ میرے والد جنرل حبیب خان کو آرمی چیف نہ بنانے والے ایوب خان اسی گوہر ایوب کے والد تھے‘‘۔ نومبر1998ء کو خزانہ کے مشیر اور وفاقی سیکرٹری خزانہ کواس لئے عہدوں سے ہٹا دیا گیا کہ اُنہوں نے اہم ملکی معلومات آئی ایم ایف کو بتادی تھیں۔
وزیراعظم ہاؤس میں سب کچھ اتنی راز داری سے ہو رہا تھا کہ چند قدموں کے فاصلے پر ایک کمرے میں سوئے شہباز شریف کے پاس بیٹھے چوہدری نثار کو بھی ٹیلی وژن کے ذریعے ہی پتا چلا کہ جنرل پرویز مشرف کو برطرف کر دیا گیا ہے، اُنہوں نے شہبازشریف کو جگا کر جب یہ بات بتا ئی تو چھوٹے میاں انتہائی غصے میں بولے ’’ میں ابھی جاکر وزراتِ اعلیٰ سے استعفیٰ دے رہا ہوں کیونکہ جب سگا بھائی ہی اعتبار نہیں کررہا تو پھر وزیراعلیٰ رہنے کا کیا فائدہ‘‘۔
چوہدری نثار نے بتایا کہ کلثوم نواز کی وجہ سے میاں نواز شریف سے ان کے اختلافات اتنے بڑھے کہ ایک موقع پر دلبرداشتہ ہو کر وہ پیپلز پارٹی جوائن کرنے والے تھے، ان کا نہ صرف بینظیر بھٹو کی قریبی ساتھی آمنہ پراچہ سے رابطہ ہو چکا تھا بلکہ تمام معاملات بھی طے ہوگئے تھے۔
ایک طرف زرداری صاحب مسلم لیگ ق کو قاتل لیگ کہہ رہے تھے جبکہ دوسری طرف وہ چوہدری شجاعت اور پرویز الہٰی سے ڈاکٹر قیوم سومرو کے گھر خفیہ ملاقاتیں بھی کررہے تھے۔ (جاری ہے )