رٹ آف سٹیٹ
موجودہ حکمرانوں پر بسا اوقات اقبالؒ کا یہ شعر صادق آتا ہے ؎
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جُنوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامن یزداں چاک
پی ڈی ایم اپنے داخلی تضادات کا شکار ہوئی۔ سیاسی اتحاد کے ناتواں جسم سے مفادات کشید کرنے کے چکر میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن نے اس کے حصے بخرے کئے، ادھ موا کر ڈالا ؎
اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے
کوئی یہاں گرا، کوئی وہاں گرا
شنید ہے کہ مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت سے رابطے میں ہیں، تلافی مافات کی کوئی صورت تلاش کرنے کے لئے کوشاں، نظر بظاہر اس دامن صد چاک کی رفوگری مشکل ہے کہ مریم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی اور مولانا فضل الرحمن نے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی قیادت کو زبان کے زخم لگائے جو تلوار کے زخم سے زیادہ گہرے، دیرپا اور تکلیف دہ ہوتے ہیں جراحات السنان لہا التیأم۔ ولا یلتئم ماجرح اللسان(تیر کا زخم بھر جاتا ہے، زبان کا گھائو کبھی نہیں بھرتا) سیاستدان اگرچہ ذاتی مفادات کے لئے زبان کے زخم بھی سہ جاتے اور جب تک سیاسی مجبوری لاحق رہے، ان زخموں کو بُھلائے رکھتے ہیں، مگر دونوں منحرف جماعتوں کا کوئی مفاد پی ڈی ایم سے وابستہ نظر آتا ہے نہ مسلم لیگ(ن) و جمعیت علماء اسلام سے ملاپ ان کو راس ہے۔
پی ڈی ایم کی شکست و ریخت حکمران اتحاد کے لئے غیبی امداد تھی۔ یہ حکمرانوں کی کسی کدوکاوش کا نتیجہ تھا نہ حکمت عملی کا ثمر، توقع یہی تھی کہ اب حکمران اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دیں گے اور مخالفین نئی صف بندی پر، مگر حکمرانوں کا جوش جنوں فارغ بیٹھنے والا کہاں تھا، فوراً دو نئے محاذ کھل گئے، پنجاب میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے قومی اور صوبائی اسمبلی کے تیس ارکان کا جہانگیر خان ترین سے اظہار یکجہتی اور تحریک لبیک کے سربراہ مولانا سعد حسین رضوی کی گرفتاری، اوّل الذکر واقعہ کے پارلیمانی اثرات کا درست اندازہ لگا کر عمران خان جہانگیر ترین سے ملنے پر آمادہ ہیں اور اپنے بارے میں پھیلائے گئے اس تاثر کی نفی کے لئے تیار کہ وہ کسی اپنے پرائے سے کبھی بلیک میل نہیں ہوتے، موخر الذکر معاملے میں مگر انہوں نے رٹ آف سٹیٹ بحال کرنے کا" دلیرانہ فیصلہ" کیا ہے اور اسی نقطہ نظر سے تحریک لبیک پر پابندی عائد کی جا رہی ہے، ناقدین اگرچہ حکومت اور علامہ خادم حسین رضوی مرحوم کے مابین طے پانے والے معاہدے کی خلاف ورزی اور عہد شکنی کا الزام عائد کر کے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ وفاقی کابینہ سڑکیں بلاک، پولیس اہلکاروں کو زدوکوب اور خلق خدا کو تکلیف سے دوچار کرنے کے جن جرائم میں تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیا جا رہا ہے ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ماضی میں باقی سیاسی اور مذہبی جماعتوں بشمول تحریک انصاف سے سرزد نہ ہوئے ہوں، الطاف حسین کی ایم کیو ایم نے تو کم و بیش تیس سال تک کراچی اور حیدر آباد کو یرغمال بنائے رکھا، ہزاروں معصوم شہریوں اور سینکڑوں پولیس اہلکاروں کو بے دردی سے قتل کیا اور خواتین کی عصمتیں لوٹیں مگر اس پر پابندی کی جرأت کسی منتخب سیاسی حکومت کو ہوئی نہ جنرل پرویز مشرف کی فوجی آمریت کو، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے ہمیشہ اس کی ناز برداری کی، در دولت پر حاضری دی اور منہ مانگی مراد پائی، الطاف حسین نے نئی دہلی جا کر 1947ء میں قیام پاکستان کی حمائت کرنے پر بھارتی حکومت سے معافی طلب کی تو پرویز مشرف نے پاکستانی ہائی کمشن کو حکم دیا کہ وہ اس بھارتی شردھالو کو سربراہ حکومت کا پروٹوکول دیں اور خوب خاطر مدارات کریں۔ حالیہ دنوں میں مریم نواز شریف نے نیب کے دفتر کے باہر تماشہ لگایا اور اس کے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں سے وہی سلوک روا رکھا جو تحریک لبیک کے کارکنوں کا جرم قرار پایا جبکہ دوسری پیشی اسی خوف سے منسوخ کرنا پڑی کہ رٹ آف سٹیٹ کو بچانے کا حکومت پنجاب کو یہی محفوظ راستہ نظر آیا، مخالفین اور ناقدین کے علاوہ تحریک لبیک کے ہمدردوں کی باتوں پر توجہ دینے کے بجائے حکومت نے مگر پابندی کا فیصلہ کیا۔
تحفظ ناموس رسالت (ﷺ)کے مقدس کاز سے کسی گناہگار سے گناہگار کلمہ گو کو اختلاف ہو سکتا ہے نہ تحریک لبیک کے کارکنوں کے اخلاص اور جذبہ ایمانی پر شک کی گنجائش، مگر عاشقان رسول (ﷺ)کی زبان اور ہاتھ سے، قول و فعل سے اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے شہریوں کو تکلیف پہنچے، اقوام عالم میں ریاست کی ساکھ مجروح ہو، رٹ برقرار نہ رہے اور بدامنی، سیاسی عدم استحکام، معاشی ابتری کا شکار ریاست پیچیدہ انتظامی و سفارتی مسائل سے دوچار ہو تو حکومت تلخ فیصلوں پر مجبور ہوتی ہے اور بسا اوقات ان تلخ فیصلوں کے شیریں ثمرات سامنے آتے ہیں، ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے لئے وجود میں آنے والی تنظیم جس پر تحریک طالبان پاکستان، الطاف حسین کی ایم کیو ایم اور بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرح ملک دشمنوں سے سازباز کا الزام ہے نہ دہشت گردی میں ملوث ہونے کا ثبوت، اگر سفارتی نزاکتوں اور رٹ آف سٹیٹ کو یقینی بنانے کے لئے پابندی کا شکار ہوتی اور حکومتی ریفرنس کے نتیجے میں سپریم کورٹ سے بھی کالعدم قرار پاتی ہے تو اس شر سے خیر کا ظہور یوں ممکن ہے کہ آج کے بعد کوئی سیاسی و مذہبی جماعت اور لسانی، نسلی و علاقائی جتھہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے سڑکیں بلاک، ٹریفک جام کر سکے نہ ایمبولینسز کو روکنے، پولیس اہلکاروں سے ہاتھا پائی اور سرکاری دفاتر پر پتھرائو کی جرات کرے اور نہ قومی ناداروں کی تضحیک و تذلیل سے ریاست کو اقوام عالم میں مذاق بنانے پائے۔ کسی طاقت ور کو سیاسی قوت ظاہر کرنے کے لئے کئی گھنٹے تک شہر بھر کی سڑکیں بند کرنے کی اجازت ہو نہ نیب، ایف آئی اے اور عدالت کو اس جتھے کے خوف سے پیشی منسوخ کرنی پڑے کہ کہیں اس کی اینٹ سے اینٹ ہی نہ بجا دی جائے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کے نام پر کبھی جی ٹی روڈ بلاک ہو نہ لاہور کے چیئرنگ کراس، اسلام آباد، ڈی چوک، فیض آباد چوک اور کراچی و کوئٹہ کے ریڈزون میں پولیس اہلکار زدووب ہوں اور نہ کبھی کسی رٹ آف سٹیٹ کو چیلنج کرنے والے مشتعل گروہ سے سرنڈر کرائے بغیر مذاکرات کئے جائیں۔ تحریک لبیک پر پابندی سے ریاست اور اس کے ستم رسیدہ عوام کو یہ فوائد حاصل ہوں تو کسی کی کیا مجال کہ وہ ناک بھوں چڑھائے۔ عمران خان ریاست مدینہ کے داعی ہیں اور قانون کی بلا تفریق بالادستی کے علمبردار، انہوں نے اور ان کے" مخلص" ساتھیوں نے اس فیصلے کے نتائج و عواقب پر غور کیا ہو گا یہ محض انتظامی فیصلہ نہیں قوم کی اکثریت کے مذہبی جذبات اور خاک نشینوں کے دل و دماغ میں برپا اضطراب سے وجود میں آنے والی تحریکوں کے دیرپا سیاسی و سماجی اثرات ہوتے ہیں جنہیں پابندیوں سے زائل کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
میں کالم ختم کرنے والا تھا کہ ایک بے تکلف دوست تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حکومت کا بظاہر نیک نیتی سے کیا گیا فیصلہ ریفرنس کی صورت میں سپریم کورٹ کے روبرو دائر ہو گا، جہاں بال کی کھال اترے گی، کالعدم تنظیم کو ڈھنگ کا وکیل مل گیا تو وہ حیدر آباد ٹربیونل میں نیپ کے مقدمے سے لے کر الیکشن کمشن میں تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس تک اور فیض آباد دھرنا میں قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے سے لے کر 2014ء میں عمران خان کے دھرنا کے دوران اسلام آباد پولیس کی طرف سے دائر مقدمات تک پنڈورا بکس کھولے گا۔ بات سوچنے کی ہے مگر فی الحال تو حکومت یا اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک" کے موڈ میں ہے، پٹاری میں دو اڑھائی درجن ارکان اسمبلی نہ ہوں تو حکومت کسی سے بلیک میل ہوتی ہے نہ کوئی رٹ آف سٹیٹ کو چیلنج کر سکتا ہے۔ صرف عمران خان نہیں، نواز شریف، بے نظیر بھٹو، پرویز مشرف اور آصف علی زرداری سب شامل ہیں۔