وفاقی بجٹ؛ مشکل حالات اور جرأت مندانہ فیصلے ( آخری حصہ)
وبا کے باعث آئی ایم ایف نے پاکستان کے آیندہ مالی سال میں مثبت شرح نمو صرف 2فی صد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ موجودہ حالات میں یہ بھی حوصلہ افزا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید کمی متوقع ہے۔ اس کے ساتھ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے افراط زر کو کم سطح پر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید کم ہونے کا امکان ہے۔ لیکن اس کا تعلق قرضوں کی ری اسٹرکچرنگ سے بھی ہے۔
وبا اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ہماری ترسیلات آدھی رہ جانے کا خدشہ ہے۔ کورونا وبا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں چین، برطانیہ، امریکا، فرانس، اٹلی، اسپین اور جرمنی جیسے ممالک شامل ہیں اور ہماری سب سے زیادہ برآمدات بھی انھی ملکوں کو ہوتی ہیں اس لیے برآمداتی شعبے کے شدید متاثر ہونے کی توقع ہے۔
معاشی سرگرمیوں اور تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث درآمد کم ہی رہیں گی۔ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کی بجا آوری بھی ایک اہم محرک رہے گی۔ حکومت اس سلسلے میں کیے گئے اقدامات سے متعلق پُر اعتماد ہے اور ستمبر 2020کے جائزہ میں کام یاب ہونے کے لیے پُر امید بھی۔
بجٹ میں کورونا وبا پرہونے والے اخراجات اور مالیاتی خسارے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے کی گئی سوچ بچار کی جھلک نظر آتی ہے۔
میزانیے کو متوازن رکھنے کے ساتھ ساتھ احساس پروگرام کے تحت پس ماندہ طبقات کی داد رسی کے اقدامات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ نئے ٹیکس لگانے کے بجائے وسائل کو بروئے کار لانے کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کا تسلسل برقرار رکھنے میں بھی کامیابی، معاشی سرگرمیوں کی بحالی کے لیے معاونتی پیکیج جاری رکھنے اور معاشی نمو کے لیے ضروری ترقیاتی بجٹ مختص کرنے جیسے مزید مثبت پہلو بھی بجٹ میں شامل ہیں۔ ملک کے دفاع اور داخلی سلامتی کو بھی مطلوبہ اہمیت دی گئی ہے۔
معاشی استحکام اور بینکوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ڈاکٹر رضا باقر کی زیرک قیادت میں اسٹیٹ بینک کی ٹیم نے ریفنانس (روزگار) اسکیم جیسے قابل تحسین اقدام کیے ہیں۔ لین دین کے لیے ڈیجٹل ذرایع پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور ایک ایسی حکمت عملی ترتیب دی گئی ہے جس کی مدد سے غریب اور بالخصوص خواتین کی مالیاتی شمولیت کا ہدف بھی حاصل ہوسکے گا۔ ہماری بالغ آبادی میں سے صرف 21فی صد اکاؤنٹ رکھتی ہے جن میں خواتین میں یہ شرح صرف 7فی صد ہے۔ نقد لین دین آج بھی پاکستانی معیشت پر حاوی ہے۔
نقدی کی صورت اجرت حاصل کرنے والا زیادہ تر طبقہ ڈیجیٹل ذرایع کواختیار کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ ہماری معیشت کو مالیاتی شمولیت اور بلوں کی ادائیگی اور قرضوں کے حصول وغیرہ کے لیے ڈیجیٹل لین دین کے مستحکم رجحان کی ضرورت ہے۔ آسان ادائیگیوں کے لیے ڈیجیٹل ایکسز پوائنٹس میں اضافے کی ضرورت ہے اور اسٹیٹ بینک اگلے تین برسوں کے دوران ان میں دس لاکھ کا اضافہ کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ نقدی کے بغیر ڈیجیٹل لین دین میں اضافے سے پاکستان میں بین الاقوامی سرمایہ کاری میں اضافے کے روشن امکانات ہیں۔
ان خدمات کا مقصد صارفین کو لین دین اور خریداری کے لیے ایسا نظام فراہم کرنا ہے جس سے تسلی بخش ذرایع فراہم ہوں اور ان ذرایع پر اس کا اعتماد بھی پختہ ہو۔ مالیاتی ترسیلات پر تین ٹیلکو بینکوں کی اجارہ داری ہے۔ آسان موبائل اکاؤنٹ کے ذریعے عالمی بینک کی معاونت سے پاکستان کی 80فیصد بینک کاری سے دور آبادی کی مالیاتی شمولیت ممکن ہوسکے گی۔ اسٹیٹ بینک اور پی ٹی اے جیسے ریگولیٹر کیا اس اسکیم کو عملی شکل دے سکیں گے یا پاکستان کے غریب یرغمال رہیں گے؟
بہتر سماجی اور معاشی نتائج حاصل کرنے کے لیے معاشی وسائل کو زیادہ موثر بنانے کی خاطر ادارہ جاتی اصلاحات کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ای کامرس کی ہر سطح پر حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اس سے آئی ٹی کی ایک بڑی افرادی قوت حاصل کی جاسکتی ہے۔ مالیاتی اور ضوابط کی سطح پر اصلاحات لا کر اسٹارٹ اپس کے لیے ساز گار ماحول فراہم کیا جاسکتا ہے۔ سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
نقد آور اجناس کے انتخاب، پیداوار میں اضافے، اشیائے ضروریہ کی منڈیوں کے قیام اور اناج کے ذخائر کی گنجائش بڑھانے سمیت زرعی شعبے میں جامع اصلاحات کی ضرورت ہے۔ چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروبار (ایس ایم ایز) کو فروغ دینے کے لیے ایک جامع حکمت عملی درکار ہے۔
پائیدار ترقی کے لیے پیداواری شعبے کو ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ شعبہ نہ صرف درآمدات کی کمی پورا کرنے اور برآمدات میں اضافہ کرنے کے لیے ناگزیر ہے بلکہ بڑے پیمانے پر اس سے روزگار کے مواقعے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ تکنیکی مہارتوں کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جس قدر جلد ممکن ہو ملکی خزانے پر بوجھ بننے والے اداروں کی نج کاری ہوجانی چاہیے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی بندش کے بعد سات برس تک کچھ کیے بغیرتنخواہ پانے والے ملازمین بھی فارغ کردیے جائیں۔ صحت عامہ، تعلیم اور ٹیکنالوجی جیسے شعبے میں سوچ بچار اور دیکھ بھال کر نجی و سرکاری شعبے کی شراکت داری کو فروغ دیا جائے۔
بجٹ اسی وقت کارآمد ہوسکتا ہے جب کہ نپے تلے خطرات مول لے کر غیر روایتی انداز میں بروقت اقدامات کیے جائیں۔ حالیہ بجٹ میں اس کی جھلک دکھائی دیتی ہے اس کے لیے وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ، وفاقی سیکریٹری نوید کامران بلوچ اور ان کی پوری ٹیم نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں۔ )