ٹیکس وصولی میں اضافہ: ایک قابلِ عمل حل
پاکستانی ریاست اور معیشت کو درپیش مسائل کی ایک بنیادی وجہ انتہائی کم ٹیکس وصولی ہے۔ دنیا میں کوئی بھی خوشی سے ٹیکس ادا نہیں کرتا تاہم مغربی ممالک میں عوام کی اکثریت اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ ریاستی امور اور ادارے چلانے کے لیے ٹیکسوں کی ادائیگی ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں ذمے داری کے ساتھ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔
تاریخ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے ریاستوں کا انحصار ٹیکس پر ہوتا ہے۔ ان ذمے داریوں میں اقتصادی انفرااسٹرکچر، سڑکیں، رسل و رسائل، نکاسی، نظامِ قانون، عوامی تحفظ، تعلیم، صحت عامہ کا نظام، معلومات جمع اور فراہم کرنا، عوامی انشورنس اور حکومت و پارلیمان جیسے امور چلانا شامل ہے۔
اپنے قیام کے بعد ہی سے ریاستِ پاکستان ٹیکسوں کا ایسا نظام بنانے میں ناکام رہی جو ملک کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی سماجی و معاشی اور ثقافتی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ خطے میں قومی سلامتی کے لیے بڑھتے ہوئے خدشات سے مقابلے کے لیے مطلوبہ اخراجات بھی مہیا کرپاتا۔ اس مالیاتی خلا کو پورا کرنے کے لیے قرضے لیے گئے جس کی وجہ سے آج یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے کہ ہماری مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا نصف قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوجاتا ہے۔
عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے یکے بعد دیگرے پروگرامز میں ہر دور کی حکومتوں سے، پاکستانی معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے، ٹیکس دائرے میں وسعت کے بنیادی اقدام کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔ لیکن ان مطالبات کو کسی نے قابل توجہ ہی نہیں سمجھا۔
موجودہ حکومت نے معیشت میں اصلاحات کرکے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے وعدے کیے۔ جس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکس وصولی میں اضافہ کیا جائے گا لیکن گزشتہ ایک برس میں ٹیکس وصولیوں میں ہماری معاشی ضروریات کے مطابق اضافہ نہیں ہوسکا۔
روایتی طور پر پاکستان میں ٹیکس وصولی کا زیادہ تر انحصار بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے اور حاصل شدہ کل ٹیکسوں میں اس کا حصہ 60فی صد ہے۔ اس کا ایک بنیادی محرک یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی حکومت انفرادی سطح کے ٹیکسوں میں اضافہ نہیں چاہتی اسی لیے نامعلوم اور سبھی کے لیے یکساں بالواسطہ ٹیکس وصولی کا ڈھانچا برقرار رکھا جاتا ہے۔ تاہم بالواسطہ ٹیکسوں سے ایک اہم فائدہ ریاست کو یہ ہوتا ہے کہ اس میں ٹیکس چوری کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
پاکستان میں حاصل ہونے والے ٹیکسوں میں مختلف شعبوں کا حصہ کچھ اس طرح بنتا ہے۔ اشیا سازی یا مینوفیکچرنگ کا شعبہ 52فیصد ٹیکس دیتا ہے اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ 20فی صد ہے۔ خدمات کا شعبہ 37فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے اور یہ جی ڈی پی کا 61فی صد ہے۔ زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے۔ جی ڈی پی میں اس کا حصہ 19فی صد ہے تاہم ٹیکس وصولی میں یہ صرف ایک فی صد ادا کرتا ہے۔ جب تک قانون ساز اداروں میں بڑے بڑے رقبے رکھنے والے زمیندار اور جاگیردار موجود ہیں، اس شعبے سے ٹیکس وصولی میں اضافے کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔
ہماری معاشی مسائل کے فوری حل کے لیے ٹیکس وصولی میں اضافے کی خاطر خدمات یا سروسز کے شعبے سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس شعبے میں ٹیکس کی بلند شرح سے نہ صرف قومی خزانے میں آنے والی رقم میں مزید اضافہ ہوگا بلکہ صارفین بھی خدمات کے صرف ضروری استعمال کی جانب راغب ہوں گے۔ گیس اور بجلی کے علاوہ اس کا اطلاق ٹیلی کمیونیکیشن پر بھی ہوتا ہے۔
صارفین کے لیے ان خدمات کے استعمال کی معینہ حد پر ٹیکس بڑھا کر ٹیکس وصولی میں غیر معمولی اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اضافہ بالائی سطح پر ہونا چاہیے اور سماجی سطح پر ترقی کے سفر میں شامل رکھنے کے لیے معاشرے کے نچلے طبقات کو اس اضافے سے مستثنیٰ رکھنا چاہیے۔ ٹیلی کمیونیکیشن اس کی بہترین مثال ہے۔ اس کا شمار بیک وقت ضرورت اور تعیش دونوں میں ہوتا ہے۔ کاروبار میں ترقی اور سماجی اسباب سے مربوط رہنے کے لیے اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن نوجوان نسل اور کم آمدن رکھنے والا ملازمت پیشہ افراد کے لیے گھنٹوں فون پر گپ شپ کرنا نشے کی لت جیسی عادت ثابت ہوتی ہے۔
دماغ کے لیے اس لت کا موازنہ افیون سے کیا جا سکتا ہے۔ آسان پیدوار اور زائد منافع کی وجہ سے جب برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی نے افیون کا کاروبار شروع کیا تو ہندوستان اور چین میں اس کی مانگ بھی بڑھ گئی۔ افیون کا کاروبار ایسٹ انڈیا کمپنی کی نفع اندوزی کا سب سے بڑا ذریعہ تھی۔ ہندوستان میں افیون پیدا کرکے اسے چینی اسمگلروں کے ذریعے چین میں فروخت کیا جاتا تھا۔ افیون کی تجارت سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی کل آمدن کا 17سے 20فی صد حاصل کیا جاتا تھا اور اسی کے بل پر ہندوستان میں برطانوی راج قائم تھا۔ اس حوالے سے یہ تحقیق بھی سامنے آچکی ہے کہ افیون کی تجارت کا خاتمہ ہونے کے بیس برس کے اندر اندر برطانیہ کو سب کچھ سمیٹ کر ہندوستان سے جانا پڑا، کیوں کہ اس کاروبار کے خاتمے کے بعد ہندوستان پر تسلط نفع بخش نہیں رہا۔
انگریزوں کے لیے تو افیون ایک بہت بڑا ذریعۂ آمدن تھا لیکن اس کے سب سے بڑے خریدار چین کے لیے صورت حال یکسر مختلف تھی۔ انیسویں صدی میں ہونے والی "اوپیئم وار"(جنگِ افیون) سے قبل چین کا شمار دنیا کی بڑی معیشتوں میں ہوتا تھا۔ مزید یہ کہ چین بنیادی طور پر ایک درآمد کنندہ ملک تھا اور اکثر مغربی ممالک کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات میں اس کا پلڑا بھاری رہتا تھا۔ ایک دہائی کے اندر، دوسری جنگِ افیون کے خاتمے کے بعد چینی معیشت اس قدر زوال پذیر ہوئی کے عالمی جی ڈی پی میں اس کا حصہ ماضی کے مقابلے میں نصف ہوگیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد چین کی قومی خود مختاری بھی اس معاشی زوال کی زد میں آگئی اور بیسویں صدی کے خاتمے تک اُسے ہانگ کانگ اور مکاؤ سے دست بردار ہونا پڑا۔
آج کے پاکستان میں اس صورت حال کا موازنہ ٹیلی کمیونیکیشن سے کیا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ جدید دنیا کی ضرورت اور کاروباری کے لیے ناگزیر ہوچکی ہے لیکن اس کا بے تحاشا استعمال نشے جیسے اثرات رکھتا ہے اور اس کے باعث لوگوں کی توجہ کام کاج سے ہٹ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موبائل فون سے نکلنے والی تاب کاری انسانی دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اس سے روزمرہ کاموں کے آداب و اخلاق بے معنی ہوگئے ہیں اور یہ غیر ضروری اخراجات کا سبب بھی ہے۔ اس شعبے سے پاکستانی معیشت کو سہارا دینے اور اس کے غیر ضروری استعمال کی لت کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے اس پر عائد ٹیکسوں کے نظام کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔
نچلی سطح پر ٹیکسوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہیے اور اس کے لیے مثال کے طور پر 300منٹ فی ماہ کی حد مقرر کردی جائے، لیکن اس سے زائد وقت استعمال کرنے والوں کے لیے سو فیصد اضافے کی بنیاد پر ٹیکس وصول کیا جائے۔ مثال کے طور پر اس کے لیے 900 منٹ فی ماہ، فی کس کی حد مقرر کی جاسکتی ہے۔ جن لوگوں کو اپنے کام کے سلسلے میں لمبی کالیں کرنا پڑتی ہیں انھیں اس کے لیے ادائیگی کرنا پڑے اور جو لوگ فون پر گھنٹوں صرف گپیں مارتے ہیں ان کا استعمال محدود کر دیا جائے۔ بہر صورت ٹیکس وصولی کے نقطہ نگاہ سے جو جتنی بات کرنا چاہتا ہے اسے اتنا ہی ٹیکس ادا کرنا پڑے۔ جب اس طرح وصول پانے والا ٹیکس اقتصادی اور معاشرتی انفرااسٹرکچر پر خرچ کیا جائے گا تو اس سے معاشرے ہی کو فائدہ حاصل ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )