ٹیکس‘حکومت اور عوام
ناکافی ٹیکس وصولی پاکستان کے بنیادی مسائل میں سرفہرست ہے۔ ہمارے ہاں جمع ہونے والا ٹیکس اسے ادا کرنے کے قابل آبادی کے اعتبار سے انتہائی کم ہوتا ہے۔ ریاستی ادارے آج تک مضبوط نہیں ہوسکے اور نہ ہی کسی مشترکہ ہدف کے لیے ان میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
اس کے برعکس وہ ایک دوسرے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتے نظر آتے ہیں۔ ان اداروں کے انتظامی امور چلانے والے جدید طرز پر کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہمیں اور ہمارے اداروں کو اس ملک کی فلاح کے لیے کیا طرز عمل اختیار کرنا ہے اس سوال کا جواب جاننے کے لیے ہمیں پہلے یہ فرق سمجھنا ہوگا کہ جدید ریاست اور پاکستانی ریاست کے کام کرنے کے طور طریقوں میں کیا بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ ہمارے اسکول اور تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم و تربیت بھی ہمیں ایک ذمے دار اور اچھا شہری بنانے کے معیار ہی پر پورا نہیں اترتی۔
کسی بھی شہری کو اپنے ملک کے لیے سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ اپنے کام یا کاروبار سے اس کی ترقی میں اپنا حصہ شامل کرتا ہے۔ اپنی آمدن کے اعتبار سے ٹیکس ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اچھے آئیڈیاز اور ملکی ماحول کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرکے بھی شہری فرائض ادا کرسکتا ہے۔
جدید ریاست میں بنیادی ترین شہری ذمے داری ٹیکس ادا کرنا تسلیم کی جاتی ہے، پاکستان میں اس کا مکمل ادراک اور نفاذ دونوں ہی نہیں ہوسکے۔ دنیا کی اکثریت خوشی سے ٹیکس نہیں دیتی، اپنی محنت کی کمائی میں کسی کا حصہ تسلیم کرنا آسان کام ہے بھی نہیں۔ اسی لیے پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٹیکس کو کم سے کم کرنے یا اس سے بچنے کے لیے قانونی اور غیر قانونی دونون طریقے اختیار کیے جاتے ہیں تاہم ہمارے ہاں تو یہ بات بھی پوری طرح سمجھائی نہیں جاسکی کہ ٹیکس ادائیگی ملکی بقا کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔
پاکستانی معیشت کی اصلاحات کے لیے کام کرنے والی عالمی بینک کی ٹیموں کی یہی شکایت سامنے آتی رہی ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کے لیے کافی ٹیکس جمع نہیں کرتا۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں کہ ملکی معیشت متاثر ہے یا جی ڈی پی کی شرح کم ہے بلکہ بنیادی سبب یہ ہے کہ جنھیں ٹیکس دینا چاہیے وہ دیتے نہیں اور ریاست اتنی منظم نہیں جو ان ٹیکس چوروں پر ہاتھ ڈال سکے۔ ٹیکس چوری کی ایک بڑی وجہ ٹیکس جمع کرنے والے اداروں میں بیٹھے افسران کی کرپشن ہے۔
ٹیکس نظام کے پیچیدہ اور عام آدمی کے لیے ناقابل فہم ہونے کی وجہ سے ان کرپٹ عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملتا ہے۔ ٹیکس جمع کرنے والے ادارے غیر منظم ہونے کے ساتھ ساتھ 20کروڑ آبادی کے ٹیکس سے متعلق امور نمٹانے کی اہلیت اور قابلیت ہی نہیں رکھتے۔ ہمیں ٹیکس دہندگان کی کمپیوٹرائزڈ رجسٹریشن اور شہریوں کی آمدن پر ٹیکس کا مؤثر نظام بنانے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو کڑی سزائیں دینا بھی نظام کی اصلاح کے لیے بے حد ضروری ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی صحت، تعلیم، صفائی ستھرائی، روزگار، سڑکوں کی تعمیر، دفاع اور کتنی ہی چیزوں کے لیے ریاست کی طرف دیکھتے ہیں۔ لیکن حکومت یا ریاست ان سب کاموں کے لیے وسائل کہاں سے لائے؟ ناکافی ٹیکس وصولیوں کی وجہ سے ہونے والا بجٹ خسارہ پوراکرنے کے لیے بیرونی قرضے لینا پڑتے ہیں۔ اسی لیے ملک پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ہر سال بڑھ جاتا ہے اور ان کی ادائیگی ہماری معاشی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
ٹیکس نظام جدید ریاست کی روح کے مانند ہے اور اس کے متحرک اور فعال ہوئے بغیر ریاست تقریباً ناکارہ ہوجاتی ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین سب سے گہرا اور دیرینہ رشتہ بھی ٹیکس ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ ریاست سے ہمارے تعلق کی نوعیت کا بھی تعین کرتا ہے۔ ٹیکسیشن فرد اور ریاست، حکومت اور شہری کے مابین عمرانی معاہدے کے تصور کو عملی شکل دیتا ہے۔
ترقی اور شہریوں کی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے حکومتوں کو پائیدار مالی وسائل درکار ہوتے ہیں۔ صحت، تعلیم، انفرااسٹرکچر اور دیگر خدمات کی فراہمی ایک مستحکم اور منظم سوسائٹی کے لیے ناگزیر ہے اور ان کے لیے سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ اس لیے ٹیکس محض شہری اور ریاست کے مابین لین دین کا تعلق نہیں بلکہ اسی سے شہری ہونے کی ثقافتی اور معاشرتی معنویت واضح ہوتی ہے۔ ٹیکس ادا کرنے والا اپنی شہری شناخت کا پورا ادراک رکھتا ہے۔
ٹیکس دینے سے اس کے اس احساس کی بھی توثیق ہوجاتی ہے کہ وہ ایک بڑے سیاسی و معاشی نظام کا حصہ ہے جہاں اس کے حقوق و فرائض بھی متعین ہیں۔ ٹیکس نظام کو اس زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ صرف معاشی اعتبار سے اہم نہیں بلکہ قوم کی تشکیل اور سماجی مساوات کے لیے بھی یہ مستحکم بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ٹیکس نظام قانون کی نظر میں بلا تفریقِ رنگ و نسل اور مذہب یکساں ہونے کی ایک بڑی واضح عملی مثال فراہم کرتا ہے۔ اگر ٹیکس قومی ذمے داری کے احساس کے ساتھ دیا جائے تو ضرورت مند طبقات کی مدد اور ان کے لیے ایثار کے احساس سے قلبی تسکین بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر پاکستانی سماج میں جو دوریاں پائی جاتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ذہن میں قوم کا تصور ہی واضح نہیں اور نہ ہی ہم ریاست وشہری کے مابین تعلق کو درست طور پر سمجھ پائے ہیں۔ مالی طور پر خوش حال شہریوں کو اجتماعی فلاح کے لیے پس ماندہ طبقات کی بہتری کا خیال رکھنا چاہیے۔ یہی اسلام کا پیغام ہے۔ ریاست کے غریب شہریوں کو بھی اپنی ذمے داری سے آگاہی ہونی چاہیے۔ اسلام میں تعلیم کی یکساں فرضیت بھی ایک باشعور سماج کی تشکیل کے لیے ہے۔
موجودہ پارلیمانی نظام کی ابتدا ہی میں یہ نعرہ لگایا گیا تھا کہ "نمایندگی کے بغیر ٹیکس بھی نہیں "۔ 1700 کے دور میں امریکا میں برطانوی کالونیوں میں جن مطالبات نے انقلاب کی راہ ہموار کی ان میں ٹیکس کو نمایندگی سے مشروط کرنا بھی شامل تھا۔ امریکا کی نوآبادیات میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ دور دراز برطانی پارلیمنٹ میں قانون سازی کرنے والے ان کی نمایندگی نہیں کرتے۔ وہاں بننے والے قوانین(شوگر ایکٹ یا اسٹیمپ ایکٹ وغیرہ) 1689کے بل آف رائٹ سے متصادم ہیں اور بطور انگریز ان کے حقوق کے منافی ہے۔ آج یہ نعرہ فراموش کردیا گیا ہے۔
نمایندگی سے مراد قانون ساز ایوان میں نمایندگی یا انتخابی عہدہ ہے۔ ایسے لوگ جو ان مناصب کی آرزو رکھتے ہیں انھیں شہری ذمے داریوں کے حوالے سے زیادہ محتاط ہونا چاہیے۔ عوامی نمایندگی کے امیدواروں کی جانچ پڑتال کے لیے بھی کڑا نظام ہونا چاہیے۔ اس میں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اثاثوں اور جائیداد کی تفصیلات دیانت داری سے بتانا بھی شامل ہے۔ پاکستان کو اس سمت میں ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے اور اگر ہم واقعی تبدیلی کے خواہاں ہیں تو "نیا پاکستان" بنانے کے لیے ٹیکس نظام کی اصلاح کے سوا کوئی راستہ نہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )