’را‘ کو بے نقاب کرنے کا موقع
بھارت کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ(را) بنیادی طور پر بیرون ملک سے خفیہ معلومات جمع کرنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن درحقیقت یہ اندرون و بیرون ملک ہر طرح کی خفیہ کارروائیوں اور شر انگیزیوں میں ملوث ہے۔ ’را، اپنے ’فالس فلیگ، آپریشنز کے ذریعے ایسی کارروائیوں کا الزام دوسروں کو دیتی ہے جن میں خاص طور پر بھارت کے اندر ہونے والے پرُتشدد حملوں میں مالی و جانی نقصان ہوا ہو۔ عام طور پر پاکستان ہی اس الزام تراشی کا نشانہ بنتا ہے۔
کشمیری مسلمانوں کو بھارت اپنا شہری تصور نہیں کرتا اس لیے ایسی کارروائیوں میں کولیٹرل ڈیمیج کے لیے ان کی زندگیوں کو ارزاں سمجھتا ہے۔ بنیادی طور پر داخلی اور بیرونی سطح پر انٹیلی جینس کی ذمے داریاں انٹیلی جینس بیورو(آئی بی) کے دائرہ اختیار میں آیا کرتی تھیں، یہ ادارہ بھی برطانوی راج سے ورثے میں ملا تھا۔
برطانیہ نے 1885 میں اس کی بنیاد رکھی تھی اور اس کے قیام کا مقصد افغانستان اور روس کی صورت حال پر نظر رکھنا تھا۔ بعدازاں اس سے ہندوستانی انقلابیوں اور استعمار مخالف تحریکوں کی نگرانی کا کام بھی لیا گیا۔ یہ ایجنسی ایم آئی فائیو اور اسکاٹ لینڈ سے قریبی روابط رکھتی تھی۔ 1947میں برطانیہ سے آزادی کے بعد اس کا نام آئی بی رکھ دیا گیا اور یہ وزارت داخلہ کے ماتحت آگئی۔ 1962کی چین بھارت اور 1965کی پاک بھارت جنگ میں انٹیلی جینس کی ناکامیوں کی وجہ سے 1968میں بھارت نے ایک قدرے آزادانہ خفیہ ایجنسی قائم کی۔
کانگریسی حکومت نے کبھی برصغیر کی تقسیم کو دل سے قبول نہیں کیا اور اسے ختم کرکے دوبارہ "اکھنڈ بھارت" بنانا اس کے اولین سیاسی اہداف میں شامل رہا۔ یہی وجہ تھی کہ 1947ہی سے دونوں ممالک کے مابین کشیدگی رہی اور آئی بی کو پاکستان توڑنے کا ہدف بھی اسی وقت دے دیا گیا تھا۔ 1962میں انٹیلی جینس کی ناکامی کا سبب بھی یہی تھا کہ بھارت نے خطے کی بدلتی صورت حال سے بے پروا ہو کر اپنی نظریں پاکستان پر گاڑی ہوئی تھیں۔ 1965میں بھارت مشرقی پاکستان پر حاوی ہونے کا موقع گنوا چکا تھا اس لیے اس نے پاکستان کے ’مسئلے، کا ’حتمی توڑ، نکالنے کی ٹھان لی تھی۔ یہ تھے وہ حالات جن کے پیش نظر 1968میں ’را، قائم کی گئی۔ اس کے بعد بیرون ملک کارروائیوں کی ذمے داری اس ادارے کے سپرد کردی گئی۔
ابتدا ہی سے بھارت نے خود کو نمایاں کرنے کے لیے بڑی مہارت کے ساتھ پراپیگنڈا کا استعمال کیا۔ پاکستان ایک نئی قومی ریاست کے طور پر اپنی نظریاتی، معاشی اور سیاسی اہمیت کو اجاگر نہیں کرسکا جب کہ بھارت اس میدان میں کئی قدم آگے رہا۔ شروع سے اس کی کوشش رہی کہ دنیا کو پاکستان کے بارے میں گمراہ کیا جاسکے کہ دراصل یہ ایک فتنہ پرور ریاست ہے۔ آئی بی اور بعد میں ’را، دنیا بھر کے دارالحکومتوں میں اپنے سفارت خانوں کو یہ پراپیگنڈہ پھیلانے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ’را، بھارت میں غیر تصور ہونے والے سکھوں اور کشمیریوں کی جاسوسی بھی کرنے لگی۔ بھارتی انٹیلی جینس کو کامیابیاں بھی ملیں لیکن ان کی ناکامیاں ان گنت ہیں۔
1968میں جب ’را، نے ’آئی بی، کی جگہ لی تو اس کا پہلا ہدف پاکستان کو دوٹکڑے کرنا تھا۔ اس کے لیے برسوں کوششیں کی گئیں۔ 1966ہی سے بھارتی انٹیلی جینس مشرقی پاکستان میں صوبائی سطح پر زیادہ اختیارات کے لیے آواز اٹھانے والی عوامی لیگ کے رہنماؤں کو مشتعل کرکے علیحدگی پر اکساتی رہی۔ اس مقصد میں کام یابی کے لیے ان سے سیاسی، مادی اور عسکری مدد کے وعدے بھی کیے۔ اس سلسلے میں بھارتی ریاست کے شہر اگرتلہ میں بھارتی خفیہ اداروں اور عوامی لیگ کے لیڈروں کی ایک ملاقات بھی ہوئی، پاکستانی انٹیلی جینس نے اس رابطے کا سراغ لگا لیا۔ تاریخ کی کتابوں میں اسے اگرتلہ سازش کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کے بعد مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے لیے گنگا طیارے کے اغوا کا واقعہ دراصل بھارت کی ایک اور کامیابی تھی۔
اس طیارے کا اغوا ’را، کے دو ایجنٹوں نے کیا تھا لیکن خود کو کشمیری علیحدگی پسند ظاہرکیا اور طیارے کو لاہور لے آئے۔ بھارت نے طیارے کے اغوا کا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا اور اسی بنیاد پر پاکستان کے لیے اپنی فضائی حدود بند کردیں۔ اس پابندی کی وجہ سے پاکستان کی فوج کو مشرقی پاکستان میں جاری کشیدگی روکنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور بالآخر مارچ 1971 میں صورت حال بغاوت میں تبدیل ہوگئی۔ ’را، برسوں سے سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے تاہم حال ہی میں کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پاکستان کی ایک بڑی کام یابی ہے۔
’را، دنیا کے کئی اور ممالک میں بھی متحرک ہے۔ یہ اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب کسی جگہ ان کے ایجنٹ پکڑے جاتے ہیں اور ان کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔ جرمنی اور کینیڈا میں ایسے واقعات ہوچکے ہیں۔ 2019 میں پر فرینکفرٹ جرمنی میں بھارت کی مخالفت اور کشمیر کے بارے میں مؤقف کی وجہ سے سکھ برادری کی جاسوسی کرنے والے ایک بھارتی جوڑے پرفرد جرم عائد ہوئی۔ گرفتار ہونے والے منموہن سنگھ اور اس کی بیوی پر 2015سے جاسوسی میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ اس کے بدلے میں ان دونوں کو ’را، کی جانب سے مبینہ طور پر 7200یورو (7974ڈالر) کی رقم دی گئی۔ ایک ماہ کے اندر انھیں سزا ہوگئی اور مقدمے کے دوران ہی انھوں نے ’را، کے افسران سے ملنے اور انھیں معلومات فراہم کرنے کا اعتراف بھی کرلیا۔ اتفاق یہ ہے کہ اس سال اگست میں جاسوسی کے ایسے ہی الزامات پر ایک اور مقدمہ فرینکفرٹ کی اُسی عدالت میں چلایا جائے گا۔
دسمبر 2019میں بھارت کے لیے نرم گوشہ اور پاکستان کے خلاف منافرت پیدا کرنے کے لیے پورے یورپ میں ’را، کی بنائی گئی جعلی ویب سائٹس اور تھنک ٹینکس کے بارے میں بھی انکشاف ہوا۔ برسلز میں قائم این جی او ’ای یو ڈس انفولیب، نے دنیا کے 65ممالک میں ایسی 265ویب سائٹس کی نشان دہی کی۔ ای یو ڈس انفو لیب کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر الیگزینڈر ایلافلیپ کے مطابق یہ نیٹ ورک پورا گروہ چلاتا تھا جو نہ صرف پاکستان کے خلاف منافرت پھیلانے کے لیے ویب سائٹس چلا رہا ہے بلکہ فکر مندی کی بات یہ ہے کہ اس نے این جی اوز بھی بنائیں جو مل کر گمراہ کُن معلومات پھیلاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک اور معاملہ اٹاوہ کینیڈا میں بھی سامنے آیا۔ بھارتی نژاد اشوک کول کی کمپنی لائف پریڈیکشن ٹیکنالوجیز 2018تک کینیڈین فوج کے ٹھیکیداروں میں شامل تھی لیکن بھارتی انٹیلی جینس سے رابطوں کا علم ہونے کے بعد اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ کینیڈا کی حکومت نے کمپنی کے صدر اشوک کول اور اس کی بیوی کی سیکیورٹی کلیئرنس بھی منسوخ کردی۔ کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جینس کی سرگرمیوں اور ان پر حکومتی اقدامات کی مکمل دستاویزات اٹاوا کی فیڈرل کورٹ میں جمع کروائے گئے۔ کینیڈا کے گلوبل ٹیلی وژن نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت اپنے مفاد کی خاطر کینیڈین سیاست دانوں پر اثر انداز ہونے کے لیے سرمائے اور غلط معلومات کا استعمال کرتا ہے۔
کینیڈا کی وفاقی عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں بھارتی انٹیلی جینس کی سرگرمیوں اور 2009سے سیاست دانوں پر اثرانداز ہونے کے لیے جاری خفیہ آپریشن سے متعلق کینیڈین حکام کو ملنے والے شواہد بھی موجود ہیں۔ ’را، کو اس مسئلے کا سامنا بھی کرنا پڑا کہ یہ کالے کرتوت کرنے والے اس کے کارندوں کی ایک بڑی تعداد غائب ہوکر امریکا اور برطانیہ میں جابسی۔
ان تفصیلات سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ’را، کس طرح پوری دنیا میں ہائیبرڈ وار میں مصروف ہے اور گمراہ کن معلومات پھیلانے، جاسوسی، جھوٹ گڑھنے اور دوسروں تک پہنچانے کے لیے سرگرم ہے۔ اس مہم کا بنیادی محور میڈیا ہے۔ پاکستان کو پراپیگنڈا کے محاذ پر خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔
جن معلومات کا تذکرہ اس کالم میں کیا گیا ہے وہ ڈوچے ولا اور اس جیسے دیگر معتبر اداروں کی جانب سے شایع ہوچکی ہے اور ان تک ہر کسی کی رسائی ہے۔ دوسرے ملکوں میں دہشت گرد برآمد کرنے کے بھارتی کرتوت دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ لیکن بھارت کی ان سرگرمیوں سے متعلق معلومات ہمارے ہاں بے تحاشا چلائی جانے والی خبروں میں کہیں نظر نہیں آتی۔ پاکستان کی وزارت اطلاعات کو پاکستان اور اپنے شہریوں کے خلاف بھارت کی ایسی نفرت انگیز مہمات کا بڑے پیمانے پر زیر بحث لانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔
دنیا بھر اور بالخصوص امریکا، برطانیہ اور یورپ میں ایسی معلومات کی تشہیر کرکے بھارت کو بے نقاب کرنا چاہیے۔ جس طرح جرمنی اور کینیڈا کی مثالوں سے ثابت ہوگیا کہ کئی ممالک میں شہریوں کی جاسوسی کرنا قابل سزا جرم ہے۔
اس حوالے سے معلومات کو پھیلانے سے را اور بھارتی سفارت کاروں کی پاکستان کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی کوششوں کا ازالہ بھی ممکن ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ کئی یورپیوں اور امریکیوں کے دماغ میں ان کی بنائی گئی بھارت کی مثبت تصویر کی حقیقت بھی عیاں کرنے میں مدد ملے گی۔ 1971میں ہمیں صرف جنگ ہی میں شکست نہیں ہوئی بلکہ اس وقت اور بعد میں بھی ہمیں پراپیگنڈے کے میدان میں کئی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج دنیا کے کئی ممالک میں بھارت رنگے ہاتھوں جاسوسی کرتے ہوئے پکڑا گیا ہے ہمیں اس کا اصل چہرہ سامنے لانے کا یہ موقع ضایع نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں بھارت کی ہائیبرڈ وار کا مؤثر جواب دینا ہوگا۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )