پاکستان اور بنگلادیش
1971 میں حالات کے جبر اور ہماری سنگین غلطیوں سے لگنے والے تاریخ کے زخم بھرنے اور جذبہ انتقام کے سرد ہونے کے لیے پچاس سال کا عرصہ کافی ہے۔
اس عہد کی تاریخ لکھنے کے حوالے سے پاکستان اور بنگلادیش کے اپنے اپنے مسائل ضرور ہیں لیکن یہ تسلیم کرنے کا وقت آ چکا ہے کہ ہمیں اب آگے بڑھنا ہو گا۔ 80ء کی دہائی اور بعد ازاں 21 ویں صدی کے آغاز پر ہمارے تعلقات بہتری کی راہ پر تھے۔ اس حوالے سے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کی اشاعت ان قربتوں کو بڑھانے کے لیے ایک اہم پیشرفت ہو سکتی تھی۔
بنگلادیش میں 71ء کے "جنگی جرائم" کے مقدمات میں پاکستان کا ساتھ دینے والے متعدد افراد کو تختہ دار پر کھینچنے سے ہمارے بہتر ہوتے تعلقات میں زہر گھولا گیا۔ عوامی لیگ اور اس دور کے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو اپنے طرز عمل کا بھی ناقدانہ جائزہ لینا چاہیے۔
ڈاکٹر بٹینا روبوٹکا کے اشتراک سے لکھی گئی میری کتاب، Blood over different shades of green" نے پاکستان اور بنگلادیش میں بعض لوگوں کو ناراض کیا، لیکن اس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔ تاہم فراموش کیے گئے حقائق کو بے رحمانہ غیر جانب داری سے بیان کرنے پر ہماری بہت زیادہ پذیرائی ہوئی۔ ایک پنجابی باپ اور بنگالی ماں کا بیٹا ہونے کے ناتے مجھ سے زیادہ کون غیر جانب دار ہو سکتا ہے؟
بنگلادیش میں محصور پاکستانیوں کی واپسی یا انھیں وہیں مستقل شہریت دینے سمیت کئی دیرینہ مسائل حل کرنے سے نہ صرف سیاسی مفاہمت میں مدد ملے گی بلکہ نصف صدی سے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹنے والے انسانوں کے زخموں پر مرہم بھی رکھا جا سکتا ہے۔ 2009 میں منتخب ہونے کے بعد شیخ حسینہ واجد نے اپنے پہلے دورِ اقتدار کے بالکل برعکس ایسا رویہ اختیار کیا جس سے دونوں ممالک کے تعلقات کی خلیج وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ بھارت کے اُکسانے پر جنگی جرائم کے مقدمات کھولنے سے پاکستان اور بنگلادیش کے مابین تلخیاں پیدا ہوئیں۔
جرمنی اور فرانس کے مابین مفاہمت ایک بڑی مثال ہے۔ آج یہ دونوں ممالک یورپ کی سرکردہ معاشی قوت کیوں ہیں؟ دونوں قومیں سو سال تک ایک دوسرے کی جانی دشمن رہیں۔ ا ن کی دشمنی سیاسی و سرحدی تنازعات کی بنیاد پر تھی اور ان کے مابین ہونے والی ہر جنگ یا تو زمین کے لیے ہوئی یا "قومی وقار، کی خاطر۔ ان جنگوں کے باعث دونوں ممالک کو بھاری معاشی اور جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ سب سے بڑھ کر اس دشمنی نے دونوں ممالک کو معاشی سمت میں بھٹکائے رکھا۔
19 ویں صدی میں شروع ہونے والی یہ کشیدگی 1945 میں جرمنی کی شکست تک جاری رہی۔ جرمنی کی عسکری قوت کو قابو میں رکھنے کے لیے فرانس قابض طاقتوں میں شامل ہو گیا۔ لیکن حالات کی تبدیلی کے لیے انھوں نے پہلی عالمی جنگ کے بعد ہونے والے معاہدۂ ورسائلز سے جڑے بیانیے سے دوری اختیار کی، بعد ازاں یہی معاہدہ دوسری عالمی جنگ کا باعث بنا۔ یہی وجہ تھی کہ 22 جنوری 1963 کو فرانس اور جرمنی کے مابین الیزے معاہدہ ہوا۔
دہائیوں کی دشمنی اور تنازعات کے بعد جرمنی اور فرانس نے مفاہمت کی جانب قدم بڑھائے اور یورپی سالمیت کے لیے باہمی تعاون کی بنیاد ڈالی۔ دونوں ممالک نے اس معاہدے کو حکومتی سطح تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ذریعے اپنے شہریوں کو بھی قریب لائے۔ ہمارے خطے کے لیے کوئی ایسا معاہدہ کیوں ممکن نہیں؟
جنرل پرویز مشرف 2002 میں بنگلادیش کے قیام کے بعد وہاں دورہ کرنے والے پاکستان کے پہلے فوجی حکمران تھے۔ اس دورے میں انھوں نے ڈھاکا کی یادگار شہدا پر حاضری دی اور 1971 میں ہونے والی زیادتیوں " کو بدقسمتی اور قابل افسوس قرار دیا۔ بنگلادیش کی جانب سے صدر مشرف کے بیان کا خیر مقدم کیا گیا۔
اس سے کچھ برس قبل جب میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کے ساتھ ڈھاکا گیا اور ہم سوار کی اسی یادگار پر حاضری دے رہے تھے تو سوار کے انفٹری ڈویژن کے جی او سی ہمارے نزدیک آئے اور مجھے سلیوٹ کرتے ہوئے کہا "میں آپ کے یونٹ سے ہوں سر!" یہ ایک سلیوٹ بہت کچھ بتاتا ہے اور علامتی معنویت رکھتا ہے۔ 1971 میں اس وقت کے مشرقی پاکستان میں پاک فوج کے ساڑھے تین ڈویژن موجود تھے جن کے پاس پورا ساز و سامان بھی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ رنگ پور میں ایک خستہ حال آرمر رجمنٹ تھی۔ آج وہاں بنگلادیشی انفنٹری کے نو ڈویژن (اور دسواں باری سال) میں ہیں۔
ان میں اکثر کے ساتھ درمیانے ٹینک رجمنٹ اور میری والدہ کے آبائی علاقے بوگرہ میں ایک آرمرڈ بریگیڈ ہے۔ اگر 1971 میں بھارتی کمیونیکیشنز لائنز اور سرحد کے نزدیکی بڑے شہروں کے ساتھ پاکستان کے پاس یہ عسکری قوت ہوتی تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ جنگ کا نتیجہ کیا ہوتا؟ اب تو اس کا خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے لیکن بہر حال بنگلادیش ORBAT آج 2020 میں ایک حقیقت ہے۔
بنگلادیش کی معاشی کامیابیوں پر پاکستانیوں کو فخر ہونا چاہیے۔ فوجی حکمرانوں ضیا الرحمٰن اور جنرل ارشاد کے دور میں دن دگنی اور رات چوگنی ترقی ہوئی اور شیخ حسینہ نے گزشتہ ایک دہائی کے اندر معاشی ترقیوں کو غیرمعمولی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ مارچ 1988 میں اپنے ایک کالم میں یہ لکھا تھا " ترقی پذیر معیشت کو ہمہ وقت تبدیلیاں قبول کرنے کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے اور خاص طور پر جب دنیا کے معاشی حالات مشکل فیصلوں کا تقاضا کرتے ہوں۔ اس لیے دو طرفہ تعلقات کی بنیاد تجارت پر ہونی چاہیے کہ یہی دیرینہ اور قابل عمل انتخاب ہے۔
اس کے مقابلے میں نظریاتی صف بندیاں دیرپا نہیں ہوتیں۔ مشترکہ مفادات ہی قوموں کو ایک جگہ جمع کرتے ہیں، اس میں مذہب، زبان و ثقافت کی اپنی اہمیت ہے لیکن رشتوں کی مضبوطی کا انحصار معیشت ہی پر ہے۔ ہر قوم اپنے مفاد کو ترجیح دیتی ہے لیکن یہ تجارت ہی کا میدان ہے جہاں "کچھ دو اور کچھ لو" پر مراسم استوار کرنے کے مواقے آتے ہیں۔ حقیقت پسندی پر مبنی بین الاقوامی تعلقات میں ہمیں اپنی "طلب" کو دوسروں کی "رسد" اور "استعداد" کے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے۔"
اپنے 2002 کے کالم " دو ملک ایک قوم" میں لکھا تھا "پاکستان اور بنگلادیش کے مابین ٹیرف کے بغیر آزادانہ تجارت ہونی چاہیے۔ پاکستان سے بنگلادیش کو کپاس، کاٹن ٹیکسٹائل، کھاد، باسمتی چاول، اریگیشن پمپ، ریلوے ویگنز، سمندری کشتیاں، شوگر ملز، سیمنٹ پلانٹس اور پھل وغیرہ اور کنزیومر آئٹمز کی پوری رینج درآمد کیے جا سکتے ہیں۔ بنگلادیش ہمیں پٹ سن، پٹ سن سے تیار کردہ مصنوعات، چائے، جوٹ مشینری کے پُرزے، جوٹ بلیچنگ آئل اور پھل وغیرہ برآمد کر سکتا ہے۔
دوطرفہ تجارت بڑھنے سے دونوں ممالک کے عوام کا فائدہ ہو گا۔ براہ راست تجارت ان دونوں ممالک کا مستقبل ہے۔" میرے قریبی دوست میجر عبدالمنان ایک باصلاحیت اننٹریپرینیور ہیں۔ انھوں نے نہ صرف بنگلادیش میں ٹیکسٹائل کے کارخانے بنائے بلکہ اپنے ملک سے باہر کمبوڈیا اور مڈاگاسکر وغیرہ میں بھی کارخانے لگائے (ان میں سے نوم پنہ کی فیکٹری دیکھنے کا مجھے بھی موقعہ ملا)۔ وہ ہمیشہ پاکستان سے ٹیکسٹائل کی خریداری کو ترجیح دیتے ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )