کیا پاکستان غیر جانب دار رہے؟
عالمگیریت میں تیزی آرہی ہے اور چین کے بی آر آئی منصوبے کے بعد عالمی معیشت اور سیاست کا رُخ یوریشیا کی جانب ہوچکا ہے، ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا از سر نو تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض مواقعے پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے "غیر جانب داری" کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ہے۔
غیر جانب داری بین الاقوامی تعلقات میں ایک باقاعدہ اصطلاح کا درجہ رکھتی ہے جس سے مراد " ایسی ریاست کسی تنازعے میں کسی فریق کی حمایت یا مدد نہیں کرتی"۔ بین الاقوامی قانون اور ریاستوں کے باہمی تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے غیر جانب داری قانونی فرائض و ذمے داریوں کے ساتھ جنگ کے دور میں اپنایا گیا سیاسی مؤقف ہوتا ہے۔
اس پس منظر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر غیر جانب داری کا اطلاق نہیں ہوسکتا اور عسکری سطح پر امریکا سمیت مختلف ریاستوں سے ہمارے معاہدات سے بھی یہی بات ظاہر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے بامعنی تصور کے لیے پاکستان کو خارجہ پالیسی اور سلامتی کے دوٹوک مؤقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی اس سے کئی گنا بڑا پڑوسی بھارت اس کا حریف تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے متوازن خارجہ پالیسی کے تصور پر عمل پیرا ہونے کے بجائے دنیا کے طاقتور اتحادیوں سے روابط بڑھانے کا راستہ اختیار کیا۔
طاقت ور اتحادی کی حمایت کے لیے پاکستان سرد جنگ کے دور میں امریکی کیمپ میں چلا گیا اور 1950کی دہائی میں امریکی رسوخ سے بنائے گئے اتحاد سینٹو اور سیٹو میں شامل ہوا کیوں کہ ان اتحادوں کے رکن ممالک کو امریکا سے عسکری اور اقتصادی امداد بھی حاصل ہوتی تھی۔ کمیونزم کے لیے اس اتحاد کی شدید مخالفت بھی اس میں شمولیت کا ایک سبب تھی اس کے علاوہ سعودی عرب کی قربت نے بھی اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا۔
امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں ابتداء ہی سے اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ پشاور کے نزدیک بڈابیر میں امریکا کو جاسوسی کی اجازت دینے کی وجہ سے پاکستان کو سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ 1965اور 1971کی جنگوں میں مدد کرنے کے بجائے ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی عائد کرکے امریکا نے ہمیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اس دور میں بھارت کو ہتھیاروں کی سب سے زیادہ فراہمی سوویت یونین کی جانب سے ہوتی تھی اس لیے امریکی پابندیوں سے صرف پاکستان متاثر ہوا۔
1979میں سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں جنگ کے لیے امریکا کو جب ہماری ضرورت پڑی۔ اس جنگ کا لاؤنچنگ پیڈ بننے کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی عسکریت اور جہادی کلچر کو فروغ ملا۔ طالبان کے لیے پاکستان کی حمایت بھی انھی تباہ کُن نتائج میں شامل ہے۔ امریکا کے انخلا اور پاکستان پر پابندیاں عائد کرنے کے بعد ایک بار پھر افغانستان میں جنگ کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی۔
2011 میں امریکا کی زیر قیادت نیٹو افواج نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے سلالہ کے مقام پر حملہ کیا جس میں 28 پاکستانی فوجی شہید اور 12زخمی ہوئے۔ اس واقعے نے ان تعلقات میں ایک بار پھر گہری خلیج پیدا کردی۔ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ پرامریکا کی کارروائی نے اس خلیج کو مزید گہرا کیا۔
اپنی ستّر سالہ تاریخ سے پاکستان نے کچھ سبق بھی حاصل کیے۔ چین کے ساتھ تاریخی تعلقات کو مستحکم کرنے کی پالیسی اس کی غماز ہے۔ اس کے علاوہ روس اور ترکی سے معاشی، سیاسی اور عسکری شراکت داری میں اضافہ بھی درست سمت میں اٹھائے گئے قدم ہیں۔ تاہم امریکا کے ساتھ تعلقات کا سوال ابھی تک جواب طلب ہے۔ اس سلسلے میں کیا پیش رفت ہوسکتی ہے؟
اس حوالے سے سب سے زیادہ غور طلب پہلو یہ ہے کہ یوریشیا تیزی سے عالمی معیشت، سیاست اور سلامتی کا محور بن رہا ہے۔ چین کا بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیوو(بی آر آئی) منصوبہ، سی پیک کے ذریعے، پاکستان جس کا شراکت دار ہے، عملی طور پر یوریشین اقتصادی یونین ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم جیسی تنظیمیں بغداد پیکٹ اور اس کے بعد آنے والے سینٹو کی جگہ لے چکی ہیں۔ دولت اسلامیہ کے خلاف لڑائی اور عراق، یمن اور شام کی حکومتیں تبدیل کرنے کے لیے مغرب کی کوششوں نے مشرق وسطی کے حالات کو تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان کا اس خطے سے بھی براہ راست تعلق ہے۔
بدقسمتی سے اس خطے اور توانائی کے ذخیروں پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی دوڑ میں امریکا کے قدم اکھڑ رہے ہیں، اور ترکی اور ایران کے ساتھ مل کر روس خطے میں اپنا اثر و رسوخ کئی گنا بڑھا چکا ہے۔ امریکا نے ایرانی جنرل سلیمانی کو نشانہ بنا کر حالیہ بحران پیدا کیا۔ شام اور عراق وغیرہ میں سلیمانی کی سرگرمیاں امریکا اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کے لیے گہری تشویش کا باعث تھیں۔ اس کارروائی کے نتیجے میں آنے والا ردعمل خطے میں امریکا کے روایتی تعلقات کے کمزور ہونے کی واضح جھلک دکھاتا ہے۔
امریکا کی تمام ترمخالفت کے باوجود نیٹو کے رُکن ترکی نے حال ہی میں روس کے ساتھ گیس پائپ لائن کا افتتاح کردیا ہے، اس منصوبے کے ذریعے روس جنوبی یورپ کو گیس فراہم کرسکے گا۔ سعودی عرب کا روس کی جانب بڑھتا ہوا جھکاؤ اور امریکی دباؤ کے خلاف ایران کی مزاحمت، روس اور چین کے ساتھ مل کر ایران کی حالیہ بحری مشقیں ان عوامل سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ نئی صف بندیاں شروع ہوچکی ہیں۔ جنرل سلیمانی کی موت کے بعد پیدا ہونے والے بحران سے ایک بات تو واضح ہوگئی کہ امریکا اگر خطے سے پوری طرح نہیں بھی نکلا تو یہاں اس کے اثر و رسوخ میں دراڑیں ضرور پڑنا شروع ہوچکی ہیں۔
اس ابھرتے ہوئے منظر نامے میں پاکستان کو دنیا اور خطے میں اپنی پوزیشن اور بالخصوص امریکا سے اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔ افغانستان سے انخلا تک امریکا کو پاکستان کی ضرورت ہے۔ امریکا کو طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے پاکستان کا غیر معمولی تعاون درکار ہے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں طالبان (جن کے ایران کے ساتھ بھی دوستانہ روابط ہیں ) کو خوش کرنے اور اسے "مزاحمت کے محور" سے دور رکھنے کے لیے افغانستان میں امریکی افواج کی کمی کی راہ ہموار ہوگی۔
پاکستان کی فوج اور دفتر خارجہ کے لیے دانش مندی یہی ہوگی کہ قومی سلامتی کے تصور کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔ آج ہماری سلامتی خطے اور علاقائی سطح پر بننے والے اتحادوں پر منحصر ہے۔ اس کے لیے ہمیں اپنے پڑوسیوں سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے اور کسی کیمپ کی چھاپ سے بچنے کے لیے روس اور چین کے ساتھ تعلقات میں بھی توازن پیدا کرنا ہوگا۔ اگرچہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ تعلقات میں کسی پیش رفت کی راہ میں نئی رکاوٹیں کھڑی ہوچکی ہیں لیکن ایران کی جانب بڑھنے کا راستہ کھلا ہے۔ یہاں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہوگا۔
ہمارے پاس سینٹو کی ’تجدید، کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ شام بکھر چکا اور مصری فوج کی قوت کمزور پڑ چکی اس کے بعد پاکستان، ایران اور ترکی ہی مسلم دنیا میں آزمائی ہوئی عسکری قوت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ہمیں اپنے سبھی پڑوسیوں سے حالات میں بہتری لانا ہوگی لیکن بالخصوص ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہماری ترجیحات میں شامل ہونے چاہییں۔ ہماری خارجہ پالیسی پاکستان کے داخلی مفاد، اس کی داخلی و خارجی سلامتی اور خطے کے حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب ہونی چاہیے۔ عالمی سطح پر بڑھتی تقسیم کے تناظر میں ہمارے بین الاقوامی تعلقات میں توازن اور اپنے پڑوسیوں اور خطے کے لیے غیرجانب داری کے اصول پر استوار ہونے چاہئیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )