کنواں اور کھائی
کیا مولانا فضل الرحمن کا آزادی مارچ اپنے انجام تک پہنچنے والا ہے، وزیر اعظم کو استعفے کے لیے دی گئی مہلت ختم ہوچکی لیکن اس مطالبے کو قابل توجہ نہیں سمجھا گیا۔ مزید یہ کہ اس مارچ کے "شراکت دار"پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے قدم پیچھے ہٹا کر پہلے ہی یہ واضح کردیا کہ وہ معاہدے کے برخلاف مولانا کی اپنے ہجوم کے ہمراہ ریڈ زون کی جانب پیش قدمی میں ان کا ساتھ نہیں دیں گے۔
ان پارٹیوں کا مولانا کو صاف انکار کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیوں کہ موجودہ حکومت کو گرا کر اقتدار ہتھیانے کی خواہش کے سوا ان تینوں جماعتوں میں کوئی شے مشترک نہیں۔ ورنہ کئی بنیادی باتوں پر ان کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ مثلاً مولانا اسلامی ریاست چاہتے ہیں جب کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ موجودہ سیاسی نظام کا حصہ ہیں اور اس میں کسی تبدیلی کے خواہاں بھی نہیں۔ اسی طرح ان کے مابین مدرسے اور مذہب کے کردار سے متعلق بھی عدم اتفاق پایا جاتا ہے۔
مولانا چاہتے ہیں کہ مدارس کا نظام جوں کا توں چلتا رہے اور ان کی دینی تعبیرات کی ترویج کا سلسلہ بھی جاری رہے۔ اس کے برخلاف یہ دونوں جماعتیں مولانا کی اس معاملے میں حامی نہیں بلکہ ممکنہ طور پر مدارس کے اس نظام میں نئے پہلوؤں کی شمولیت ضروری سمجھتی ہیں۔ جس کے بارے میں ایک طبقہ کی رائے ہے کہ یہاں پاکستانی نوجوانوں کو معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لیے درکار علم فراہم کرنے کے بجائے عسکریت کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کو حزب مخالف کی جماعتوں کی محدود حمایت ہی حاصل ہوسکی اور وہ تنہا کوئی بڑی لہر پیدا نہیں کرسکے۔
سوال یہ ہے کہ اب صورت حال کیا رُخ اختیار کرے گی؟ ڈی چوک کی جانب قدم اٹھانا پہلے ہی خارج از امکان ہے اور اب مولانا کو اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے کچھ تو کرنا ہوگا جس کے لیے شاید حکومت بھی ان کی مدد کرے گی۔ ایسی ملاقاتیں مسلسل جاری ہیں جن میں اسی بات پر غورو فکر کیا جا رہا ہے کہ ایسا کیا کیاجائے کہ مولانا کا بھرم بھی قائم رہ جائے اور ایسے کسی اقدام کا کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ حکومت، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن تینوں کو سوچنا پڑے گا کہ وہ کہاں تک اپنے کارکنان اور حامیوں سے بے گانگی برداشت کر پائیں گی۔ آنے والا وقت ہی امکانات سے پردہ اٹھائے گا۔
فضل الرحمن اپنی تقریر میں اپنی تحریک کو وسعت دے کر ملک گیر بنانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ لیکن وہ ایک تجربہ کار اور گھاگ سیاست دان ہیں اور ان کے دھمکانے کا حربہ کسی حد تک نتیجہ خیز بھی ثابت ہوا ہے۔ مولانا اور ان کی جماعت کو گزشتہ انتخابات میں شکست ہوئی اور وہ یہ توقع رکھتے تھے کہ وہ اس خلا کو پورا کرکے ایک بار پھر خود کو پاکستانی سیاست کے لیے اہم ثابت کر دیں گے۔ ویسے بھی مولانا خود پس پردہ معاملات طے کرنے کے ماہر ہیں اور انھیں اس بات کا یقین بھی رہتا ہے کہ ان کی کاری گری کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوپاتا۔ یہ بات تو واضح ہوگئی کہ وہ اپنے بل پر کچھ نہیں کرسکتے اور ایک بار پھر انھیں شدت کے ساتھ اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ ان دو بڑی جماعتوں کا تعاون ان کے لیے بہرحال ضروری ہے۔ دوسری جانب دونوں بڑی جماعتیں کسی مہم جوئی کا حصہ نہیں بننا چاہتیں۔
اس بات سے قطع نظر کہ مولانا فضل الرحمن کچھ حاصل کرپاتے ہیں یا نہیں، موجودہ حالات سے کچھ اہم سبق بھی سیکھنے چاہییں۔ سب سے پہلے مولانا اپنی تحریک کو مہنگائی میں اضافے جیسے معاشی مسائل سے جوڑنا چاہتے ہیں لیکن جن معاشی مسائل کا وہ ذکر کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ان کے آزادی مارچ سے حل نہیں ہوسکتا۔ اس مارچ کی قیادت کرتے ہوئے کراچی سے اسلام آباد کے راستے میں کسی مقام پر انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا:"معیشت ڈوب رہی ہے، فیکٹریاں بند ہورہی ہیں اور تاجر شدید دباؤ کا شکار ہیں، ہمیں اپنے ملک کو بچانا ہوگا، اس کی معیشت کو بچانا ہوگا۔ "
شاید انھیں اندازہ نہیں کہ ان کی حکومت مخالف مہم سے ملک میں پرچم سازی کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا ہے، کاروباری سرگرمیاں اور لوگ اسی طرح سست رو معیشت کے اثرات بھگت رہے ہیں۔ مزدور پیشہ افراد کو کوئی راحت پہنچانے کے بجائے مولاناکے مارچ نے دارالحکومت میں معمولات اور کاروبار زندگی کو تتر بتر کردیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان دہاڑی دار مزدور طبقے کو ہورہا ہے اور ان کا کام اور خاندان دونوں ہی متاثر ہورہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مولانا کو اس کی کوئی فکر ہی نہ ہو۔
دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں مولانا کے چاہنے والے مذہبی افراد کے ہجوم کے مناظر سے عالمی سطح پر ہمارا کیا تاثر قائم ہورہا ہے؟پاکستان کو اس وقت غیر ملکی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے لیکن سیکڑوں لوگوں کے اسلام آباد کے راستے بند کرنے کے مناظر دیکھ کر ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتمادکو شدید ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی دھرنا ہفتوں جاری رہے یا اس میں تشدد کا عنصر شامل ہوجائے۔ ایسی صورت میں کاروباری افراد کا اعتماد تو پختہ ہونے سے رہا الٹا ان کی بے چینی میں اضافہ ہوگا۔ ایک ایسے وقت میں جب کاروبار کو استحکام کی فضا درکار ہے، حزب مخالف کی جماعتوں کے مارچ سے شاید ہی ان حالات میں کوئی تبدیلی آئے، جن کی بدتری کے لیے یہ خود واویلا مچا رہی ہیں۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ اسلام آباد میں جاری اس سیاسی کھیل نے ملک اور خطے کے لیے اس وقت کے اہم ترین معاملے یعنی مقبوضہ کشمیر سے سب کی توجہ ہٹا رکھی ہے۔ ان حالات میں عالمی برادری، شش و پنج اور سست روی کے ساتھ ہی سہی، کشمیر کی جانب متوجہ ہورہی تھی لیکن جب انھیں کشمیر اور پاکستان دونوں ہی جگہ انتشار نظر آئے گا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ ہمیں اس بات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ مولویوں کے مارچ اور اشتعال انگیز تقاریر سے پاکستان پر عسکریت اور شدت پسندی پھیلانے کے غیر ملکی الزامات کو تقویت ملے گی۔
ایک اور اہم بات یہ کہ اسلام آباد کی صورت حال سے واضح ہے کہ احتجاج کے لیے دھرنے دینا کوئی قابل قبول جواز نہیں رکھتا۔ دھرنے کی سیاست کا آغاز 2013 میں طاہر القادری کے دھرنے سے ہوا جس کے بعد تحریک انصاف نے ڈی چوک پر احتجاج کیا اور بعدازاں تحریک لبیک نے بھی پاکستان بند کروا دیا، ان واقعات سے محسوس ہوتا ہے کہ اس سیاست کو بنانے اور استعمال کرنے والے بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں رہے۔ ایسا وزیر اعظم جو دو برس قبل خود بھی احتجاج کر چکا ہو اور اس کے دوران وہ ڈی چوک کی حد بھی عبور کرگیا ہو وہ کسی کو کیسے دھرنے سے روک سکتا ہے؟
ملک کے سیاسی ماحول میں یہ ہلچل کب تک جاری رہے گی اور اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ اس کے بارے میں تو فوری طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان کو کئی اعتبار سے اس کا نقصان ہوگا، اس سے ملک کے مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ان میں کوئی بہتری آئے گی۔ مارچ میں شامل سیاست دانوں کے عزائم کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو سوائے خود غرضی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ یہ ایک ایسے الیکشن کے نتائج کو رد کرنے کی کوشش ہے جو کم و بیش پاکستان میں ہونے والے دیگر انتخابات جتنا ہی "صاف اور شفاف" تھا اور جسے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی تسلیم کیا۔ "آزادی" مارچ کا اصل ہدف اقتدار ہتھیانے کے سوا کچھ نہیں۔ جمہوریت کی صورت کتنی قابل رحم ہوچکی ہے!
(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )