حزب اختلاف کے چھپے وار
اپنے قیام کے وقت سے پاکستان میں بظاہر تو پارلیمانی جمہوریت اور وفاقی نظام ہے لیکن حکمرانوں نے اس طرزِ حکومت و سیاست کے بنیادی اصولوں کو سمجھا ہی نہیں۔ سول حکمرانوں نے ابتدا ہی سے ذاتی، خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیں اور اپنے خاندانی اور گروہی مفادات کے لیے سیاسی جماعتوں کو آلے کے طور پر استعمال کیا۔
جاگیردار صنعت کار بن گئے اور بہت سے بارسوخ لوگوں جاگیردار، ان دونوں ہی نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے اسٹیٹس کو برقرار رکھا اور عوام نے اس کی قیمت ادا کی۔ انھی حالات کے پیش نظر غیر سول قوتوں کا ملک کی سالمیت کو بچانے کے لیے بار بار زمام اقتدار سنبھالنا ضروری جانا اور ہماری نصف قومی تاریخ غیرسول اقتدار میں گزری لیکن ان ادوار میں بھی جمہوری طرز عمل اور نظام حکومت کے اصلاح کو فروغ نہیں مل سکا۔
ستّر سال گزرنے کے باوجود آج بھی حالات میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔ آج بھی چند خاندانوں اور گروہوں کے مفادات کا بوجھ اٹھانے والی سواریوں کے سوا سیاسی جماعتوں کی حیثیت کچھ نہیں اور قوم کے مفاد پر افراد کے مفاد اور ترجیحات کو فوقیت حاصل ہے۔ یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں ہوگا کہ اکثر حکمران آج بھی قوم کے تصور ہی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ اس سے قوم افراد کے یکساں حقوق اور احترام کو ماننا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔
بد قسمتی سے یہ تجزیہ سبھی سیاسی جماعتوں پر یکساں صادق آتا ہے۔ گندم اور چینی کے بحران نے آج کی حکمران جماعت کو بھی اسی صف میں لاکھڑا کیا ہے کیوں کہ اس کی ناک کے نیچے چند مفاداتی گروپوں نے ایک طے شدہ پالیسی پر عمل نہیں ہونے دیا۔
دنیا میں جاری وبا نے پاکستان کو بھی متاثر کیا لیکن اس سے پیدا ہونے والے ہمہ جہت بحران غیرمتوقع طور پر مذکورہ بالا افراد کی وجہ سے سنگین ترین شکل اختیار کرگئے۔ ایسے حالات میں وحدت اور یک جہتی کی ضرورت تھی لیکن سیاسی کھلاڑیوں نے حکومت کو کمزور کرنے کے لیے اسے ایک موقعے کے طور پر دیکھا اور اس کے لیے ان پالیسیوں میں بھی رکاوٹیں ڈالیں جو معیشت کے استحکام اور عوام کی بہتری کا سبب بن سکتی تھیں۔ ان کا اصل ہدف کسی بھی طرح اپنی قیادت کو احتساب کے شکنجے سے چھڑانا ہے۔
ہمارے ہاں جمہوریت کی درست تفہیم نہ ہونے اور اسے اختیار نہ کرنے کی ایک اور بڑی علامت یہ ہے کہ قومی مفاد اور سلامتی کا مکمل ادراک مقتدر قوتوں کو بھی نہ ہوسکا۔ انھیں یقینی طور پر خرابیوں کا اندازہ ہے۔ کورونا وائرس سے جنم لینے والے معاشی بحران کا مطلب صنعتوں اور زرعی پیداوار کی تباہی ہے اور اس کے ساتھ ہی وبا کے باعث لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوئے ہیں جو بذات خود قوم اور ملک کے لیے پیدا ہونے والا بہت بڑا خطرہ ہے۔ ذرایع رسد میں پیدا ہونے والے خلل سے صنعت و زراعت کے شعبے میں آنے والی رکاوٹیں مزید صنعتوں کی تباہی کا باعث بنیں گے جس کے نتیجے میں مزید لوگ روزگار سے محروم ہوں گے اور اس سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
پاکستان کی نصف آبادی خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے اس لیے ہمارے لیے خوراک کی فراہمی اور بقا سے متعلق پہلے ہی ہولناک خطرات موجود ہیں۔ اس میں ناکامی کی صورت میں بھوک سے ستائے لوگ فسادات، خوراک کی دکانوں اور گوداموں پر حملے کے لیے آمادہ ہوسکتے ہیں جس سے امن و امان اس قدر بگڑ سکتا ہے کہ ہنگامی حالات بلکہ مارشل لا کا نفاذ بھی ناگزیر ہوسکتا ہے۔ حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے روکنا ہر شہری کا فرض ہے۔ اس کے علاوہ جو بھی خوراک کی دستیابی میں رکاوٹ ڈالے اسے سزا ملنی چاہیے۔
واضح احکامات کے باوجود سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے خوراک کی رسد میں خلل ڈالنے کے لیے لاک ڈاؤن میں باربردار گاڑیوں کو استثنی حاصل ہونے کے باجود سامان لانے والی گاڑیوں کو روکنے کا اقدام کیا۔ اس کی وجہ سے کئی اشیا بازار سے ناپید ہوگئیں کیوں کہ ان میں سے اکثر پنجاب سے آتی ہیں۔
سندھ حکومت نے لاک ڈاؤن کو عمران خان کی بدنامی کے لیے ہتھکنڈا بنا لیا۔ میڈیا میں بھی بعض عناصر نے ان کوششوں کی تائید کی۔ پیپلز پارٹی نے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا کہ اس نے تمام غیر ضروری سیاسی سرگرمیاں معطل کردی ہیں لیکن ضروری سرگرمیوں کا کیا ہوا؟ ایسے حالات میں ایک ایسی جماعت جو پورے ملک پر بہتر حکمرانی کرنے کا دعویٰ رکھتی ہے اس کا بے عمل ہونا مناسب تھا۔ یہی حال پنجاب کا ہے جہاں شہباز شریف اور ان کے ساتھی عوام کی مدد کے بجائے اپنی توانائیاں صوبائی حکومت کو ناکام ثابت کرنے پر صرف کررہے ہیں۔ تحریک انصاف بھی یہی غلطی کرکے سیاسی دوڑ میں شریک ہے۔
ان حالات میں حکومتی اتحاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کو منصوبہ بندی اور پالیسی سازی میں شریک کریں اور اس کے لیے خود ان کے پاس چل کر جائیں۔ ملکی مفادات کے تحفظ کے لیے یہ بہت ضروری ہے اور یہ مفاد کسی بھی گروہ یا فرد سے بالا تر ہونا چاہیے۔ ایسے ہنگامی حالات میں ملک کو لالچ اور خاص عزائم کا اسیر بنانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
یہ مذاق بھی کیا کم ہے کہ بلاول چیئرمین نیب سے استعفی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ محترمہ بے نظیر کی وجہ سے میرے دل میں بلاول کے لیے نرم گوشہ ہے تاہم شاید اس جوان کو اپنے والد پر بدعنوانیوں کے لگنے والے الزامات کی سنگینی کا اندازہ ہی نہیں۔ نیب اور اس کے قوانین پر واویلے کا واحد مقصد شاید اپنی گردن چھڑانا ہو سکتا ہے۔ عمران کو یہ نہیں ہونے دینا چاہیے۔
المیہ دیکھیے کہ حزب مخالف نے نیب کی 38میں سے 34قوانین کے خاتمے کو ایف اے ٹی ایف سے متعلقہ قانون سازی سے جوڑ دیا۔ ان میں وہ قوانین بھی شامل تھے جن سے منی لانڈرنگ کی روک تھام ہوتی ہے۔ امید ہی کی جاسکتی ہے کہ جن مغربی ممالک میں پاکستان سے لوٹا گیا مال محفوظ کیا گیا ہے وہ منافقانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔ اس ملک کو اس کے رہنماؤں نے لوٹا ہے اور انھیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے۔
جرمنی کی ایک عدالت نے حال ہی میں ایک شہری کی ملکیتی حقوق سے متعلق درخواست کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ غیر معمولی ہنگامی حالات میں مفادِ عامہ کو فرد کے مفادات پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر پورے یورپ میں اجتماع کرنے جیسے کئی بنیادی شہری حقوق کو معطل کیا گیا اور ان ضوابط کی خلاف ورزی کو قابلِ سزا جرم قرار دیا گیا۔ بظاہر یہ بات تلخ محسوس ہوتی ہے لیکن حالات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اگر دنیا کے دیگر ممالک میں یہ ممکن ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔ حالات کو قابو میں رکھنا مشترکہ ذمے داری ہے۔ بحران میں صرف بربادی ہی نہیں ہوتی بلکہ ایسے چیلنج بھی پیدا ہوتے ہیں جو نئے اتحادوں کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہمیں یہ موقعہ ضایع نہیں ہونے دینا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )