غیر معمولی سیکیورٹی تدابیر
ہو سکتا ہے کہ ہماری شمال مغربی سرحدوں پر بگاڑ عارضی طور پررک جائے، لیکن لگتا ہے کہ پاکستان کے لیے نقصان دہ مختلف گروہوں کی ابلتی عداوتیں جاری رہیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے اندر غیر فعال ایکٹوسٹس کے ابھرنے کے خطرے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے ہمیں مشرقی اور مغربی دونوں محاذوں کے لیے ان کو روکنے کی اپنی قابل اعتماد صلاحیت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ ان دونوں محاذوں کے درمیان فرق ان کے خطرات کی نوعیت میں ہے۔ اس کے باوجود کہ بھارت نے ایک پلیٹ فارم کے طور پر افغانستان میں مختلف گروہوں کو چار دہائیوں پر مشتمل طویل پراکسی وار کے لیے استعمال کیا۔ ہمارا مشرقی محاذ روایتی خطرے کے وسیع اور بھرپور میدان سے نمٹنے کی صلاحیت کا تقاضا کرتا ہے۔
اپنی سیکیورٹی کی صلاحیت بڑھانے کے لیے صرف خطرناک اثرات کے سد باب ہی تک محدود نہیں رہنا چاہیے، بلکہ مسلح افواج کی سرعت رفتار اور مستعدی کی از سر نو تنظیم/ اپ گریڈنگ کے ساتھ ساتھ افغانستان میں امریکی تجربے کی روشنی میں کم از کم سپلائی اور لڑائی کے تناسب کو یقینی بنایا جائے، جو ہماری ایف سی اور رینجرز دونوں کی، ہمارے وجود کے لیے چیلنج بننے والے ممکنہ خطرات کو ختم کرنے کی صلاحیت کو کئی گنا بڑھائیں گے۔
ہمیں قانون نافذکرنے والے سویلین اداروں (ایل ای ایز) کی صلاحیت کو بھی لازمی طور پر مضبوط بنانا ہوگا، بشمول پولیس کے لیے کیریئر پلاننگ، پوسٹنگز اور پروموشنز وغیرہ۔ اگرچہ یہ بین طور پر بے معنی لگ رہا ہے، اس سے سیاست دانوں کو جوڑ توڑ کا موقع ملتا ہے اور مجرمانہ جاگیر داری نظام اس کی بدولت قائم رہتا ہے۔
علاقے کے جغرافیے کو دیکھیں تو سرحد کے آر پار ایک دوسرے سے بالکل مختلف آبادی کا مرکب بنا ہوا ہے، ایک دوسرے سے مختلف نوعیت کی مذہبی شدت پسندی پھیلی ہوئی ہے، وہ ایک دوسرے کے مخالف قوتوں والی صلاحیت کے حامل ہیں، اور اب افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا بھی اس میں شامل ہو گیا ہے، لیکن اس کے باوجود کہ یہ جذباتی طور پر پرکشش ہے لیکن احتیاط بڑھانے کی ضرورت کو ہمیں اور تقویت دینی چاہیے۔
ایف سی کے نئے ونگز کی تشکیل نہ صرف بارڈر سیکیورٹی کو بڑھائے گی بلکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ملحقہ قبائلی علاقوں میں امن و امان کو بھی قائم رکھے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ انٹیلی جنس کی صلاحیت کو مزید تقویت دینے کی بھی ضرورت ہے، تاکہ پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں ممکنہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کو روکا اور ختم کیا جا سکے۔
مغربی محاذ پر کمانڈ اسٹرکچر پہلے سے موجود ہے، اس لیے موجودہ قوت کو دگنا کرنے کے لیے چند اضافی ایف سی ونگز کی تشکیل سے اہم خلا پر ہوجائے گا۔ جس طرح جنوب میں بلوچستان میں کیا گیا، ویسے ہی سندھ اور فاٹا کے لیے شمال میں ایک اور ایف سی ہیڈکوارٹر بنانا چاہیے۔ اندرونی سیکیورٹی کے لیے لا انفورسمنٹ ایجنسیز کے لیے ضروری تعمیرات ہونی چاہئیں، بلکہ پولیس اور نچلی عدلیہ کے لیے بھی (مثلاً تمام پولیس تھانوں میں چوبیس گھنٹے دستیاب مجسٹریٹس کے لیے)۔
عسکری اداروں سے جلد ریٹائر ہونے والوں کو آپشن دیا جا سکتا ہے کہ وہ ایف سی یا ایل ای ایز کے لیے 55 سال کی عمر تک (یا حتیٰ کہ 58 سال) اپنی ملازمت جاری رکھ سکتے ہیں۔ انسداد بغاوت اور انسداد دہشت گردی کے تجربے کی وجہ سے مطلوبہ تجربے سے لیس پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت کی مرکب صلاحیت بلاشبہ انمول ہے۔
مقامی عدالت یا تفتیشی پولیس کی پوسٹوں کے لیے دو سے تین ماہ کے شارٹ کورسز کی ضرورت ہوگی، جو اس تربیت کے حصول کے لیے کافی ہوں گے۔ اس کے لیے کم سے کم اخراجات درکار ہوں گے، اور نئی بھرتیوں اور ان کی ٹریننگ کے لیے درکار وسیع اخراجات کی بچت ہوگی۔
اس سیٹ اپ کی آپریشنل صلاحیت کو بڑھانے کے لیے، ہمارے پاس کراسنگ پوائنٹس اور خاردار سرحد (ایک اچھی طرح تیار شدہ آئیڈیا) کی الیکٹرانک کوریج کے ذریعے معلومات فوری جمع کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔
الیکٹرانکس کے ذریعے خفیہ معلومات اکٹھا کرنا کم خرچ ہو چکا ہے، جس کے لیے مقامی انڈسٹری کام آ سکتی ہے۔ اس کے ساتھ انسانی انٹیلی جنس بھی جوڑی جا سکتی ہے، جس کے عملے کی اچھی خاصی تعداد دستیاب ہے، جو سرحدوں اور شہروں دونوں کو گہرائی میں کور کر سکتے ہیں۔ ہیومن انٹیلی جنس کے لیے جدید مہارتوں اور اچھی عمارتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ایک الگ فورس ہیڈکوارٹر کو ہوم لینڈ سیکیورٹی کے طور پر کھڑا کیا جا سکتا ہے، جو ایف سی اور رینجرز کے نئے ہیڈ کوارٹرز کی کمانڈ کرے گا۔ یہ فورس وزارت داخلہ کے تحت ہو سکتی ہے لیکن آپریشنل اور انتظامی امور جی ایچ کیو کے پاس ہوں گے۔ اس تجویز پر عمل کرنے سے کئی فوائد حاصل ہوں گے (1) پنشن پر خرچ ہونے والی رقم پندرہ سال کے لیے ملتوی ہوجائے گی، اور اس دوران پنشن سسٹم کو خود انحصار بنانے کے لیے اسے بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
(2) مکمل تربیت یافتہ عملے کی مکمل پیداواری صلاحیت کو استعمال کیا جا سکے گا۔ (3) مغربی محاذ پر کسی بھی خطرے سے فوری نمٹنے کی ہماری فوجی صلاحیت میں اضافہ ہوگا (امن و امان کی خراب صورت حال کی صورت میں ایسا ہو سکتا ہے)۔ (4) موجودہ سینٹرز اور اسکول استعمال ہوں گے تو تربیتی مراکز کی تشکیل کے اخراجات کی بچت ہوگی۔
(5) ایف سی اور دیگر ایل ای ایز کے لیے تربیت یافتہ افرادی قوت کی فراہمی مستقل جاری رہے گی۔ (6) مسلح افواج میں افراد کی آمد ترغیبی ہوگی (7) اس کا اطلاق کم سے کم وقت اور کم سے کم اخراجات میں ممکن ہے۔ اس دوران اس وقت (1) ہمیں اکیسویں صدی کے جنگی تجربے سے سیکھنا ہوگا (2) اپنی نظریاتی اور علاقائی سالمیت کے دفاع کی صلاحیت بہم پہنچانی ہوگی اور اس کے لیے ہم کسی اور پر انحصار نہیں کر سکتے۔ ہماری کوششوں میں تعاون کرنا تمام عالمی قوتوں کے حق میں ہوگا۔
مجوزہ اقدامات اگر بروقت اٹھائے جاتے ہیں تو اس سے سرحدوں کی حفاظت کا ہمارا عزم منعکس ہوگا۔ اس سے پاکستان مخالف قوتوں کی کارروائیاں رک جائیں گی، جو مغربی سرحدوں کے پار سے تاحال اپنے نیٹ ورکس چلا رہی ہیں۔ پہلے ہی سے تربیت یافتہ افرادی قوت نئی قوت کھڑی کرنے کے مقابلے میں باکفایت اور سستی ہوگی، جو کہ وقت اور لاگت دونوں کے حساب سے استطاعت سے باہر کا آپشن ہے۔
(فاضل کالم نگار، سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اور کراچی کونسل فار فارن ریلیشنز (KCFR)کے چیئرمین ہیں)