Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Ikram Sehgal
  3. Ghair Mamooli Halaat Aur Ghair Riwayti Hal

Ghair Mamooli Halaat Aur Ghair Riwayti Hal

غیر معمولی حالات اور غیرروایتی حل

کروڑوں بے روزگار ہوچکے ہیں اور ابھی اس تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ کورونا وائرس وبا سے صرف اموات نہیں ہوئیں بلکہ اس نے انتہائی سنگین معاشی بحران پیدا کیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ صنعتی اور کاروباری ادارے زوال کا شکار ہوں گے، بعض تو مستقل طور پر تباہ ہوجائیں گے، اس لیے معیشت کی بحالی آسان کام نہیں ہوگا لیکن ہمیں کم از کم اس کی کوشش تو کرنا ہوگی۔ لیکن ہم کس طرح معیشت یا اس کے کچھ حصے کو دوبارہ مستحکم کر پائیں گے؟ یہ اہم سوال ہے۔

مغربی دنیا نے اس کے لیے خطرہ مول لے کر بتدریج لاک ڈاؤن میں نرمی پیدا کرنا شروع کردی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی معیشت کو سنبھلنے میں 12سے 18ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے اور وہ بھی اس صورت میں اگر وبا کی اگلی لہر اس شدت سے واپس نہ آئی تو یہ ممکن ہوسکے گا۔ آثار بتاتے ہیں کہ امریکا میں یہ بحران مزید شدید ہوگا۔ بحران میں سارے وسائل بروئے کار لانا پڑتے ہیں اور غیر معمولی حالات میں غیر روایتی راستے تلاش کیے جاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ان لوگوں کی صلاحیتوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے جو متنازعہ ہی کیوں نہ ہوں اور نظام قانون و انصاف سے الجھتے کیوں نہ رہے ہوں۔

اطالوی نژاد امریکی گینگسٹر اور مافیا سے تعلق رکھنے والے "لکی" لوچانو اور امریکی حکومت کے مابین دوسری عالمی جنگ کے دوران ہونے والی ڈیل ایسی ہی ایک مثال ہے۔ 1942میں امریکی بحریہ کی انٹیلی جینس نیویارک کے راستے امریکا میں داخل ہونے والے جرمن اور اطالوی ایجنٹوں کے بارے میں فکر مند تھی۔ یہ ایجنٹ نیوی اور بندرگاہ کی تنصیبات میں داخل ہورہے تھے اور پانی کے راستوں پر مافیا کا کنٹرول تھا۔ اسی لیے نیوی، نیویارک ریاست اور لوچانو کے درمیان جیل کی سزا میں تبدیلی کے عوض ایک معاہدہ طے پایا جس میں لوچانو کے ماتحت مافیا گروپ نے امریکی نیوی کو خفیہ معلومات فراہم کرنے کی ذمے داری لے لی۔

اس کے علاوہ لوچانو نے یہ بھی یقین دلایا کہ جنگ کے دنوں میں ڈاکیارڈ کا کوئی مزدور ہڑتال نہیں کرے گا۔ اس سے بھی بڑھ کر لوچانو نے سسلی میں اپنی مافیا کے روابط کے ذریعے حاصل کردہ خفیہ معلومات کے ذریعے 1943میں اتحادیوں کے سسلی پر حملے میں بھی مدد فراہم کی۔ امریکی حکومت نے لوچانو کی ذہانت، معلومات اور روابط کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ جنگ کے دنوں میں تعاون کے عوض لوچانو کی قید کی سزا اس شرط پر ختم کردی گئی کہ وہ اٹلی ڈی پورٹ ہونے پر مزاحمت نہیں کرے گا۔ لوچانو نے یہ سودا حب الوطنی کے لیے نہیں کیا تھا اس کے اپنے مقاصد تھے۔ وہ اپنے سر پر لٹکتی بڑی سزا کی تلوار سے چھٹکارا پا کر اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لیے آزادی کی زندگی حاصل کرنا چاہتا تھا۔

اس سے بالکل الگ نوعیت کی ایک اور مثال بھی ہے۔ بحران میں ان کی مہارت سے فائدہ اٹھانے کے لیے حضرت خالد بن ولیدؓ کو یرموک کی جنگ سے پہلے بحال کردیا جاتا ہے۔ اس موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کو اسی عنوان سے لکھی گئی میجر جنرل آغا ابراہیم اکرم کی کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ آغا صاحب 1942 میں او ٹی سی ماؤ میں بطور کیڈٹ میرے والد کے روم میٹ رہے اور وہ میجر جنرل(ر) آغا مسعود کے والد تھے۔ حضرت خالد ؓ جنگی حکمت عملی میں خداداد صلاحیتوں کے حامل تھے۔ حضرت عمر ؓ نے بوجوہ حضرت خالدؓ کی تنزلی کرکے انھیں کمانڈر سے ایک عام سپاہی بنا دیا تھا۔

حضرت خالدؓ اپنی جگہ کمانڈر بننے والے ابو عبیدہ الجراح ؓ کے ساتھ خدمات انجام دینے لگے۔ بازنطینی سلطنت کی افواج کا سامنا یرموک کے مقام پر مسلمانوں سے ہوا۔ بازنطینی فوج مکمل طور پر مسلح 2لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھی اور مسلمانوں کی تعداد ان سے 8کے مقابلے میں ایک بنتی تھی۔ حضرت ابو عبیدہؓ کو اندازہ ہوگیا کہ ان حالات کا وہ مقابلہ نہیں کر سکتے۔ انھوں نے بلا جھجک سپہ سالار کی ذمے داریاں حضرت خالد کے سپرد کردیں۔ حضرت خالدؓ نے مسلمان فوج کی از سر نو صف بندی کی اور گھڑ سواروں کو ایک طرف رکھا۔

دریائے یرموک کے نزدیک یہ لڑائی اگست 636ء میں چھ دنوں تک جاری رہی۔ یہ مقام اب شام و اردن اور شام و اسرائیل کی سرحد کے پاس بحر جلیلی کے مشرق میں واقع ہے۔ چھٹے دن حضرت خالد نے حضرت ضرار کی قیادت میں گھڑ سواروں کا حملہ شروع کروایا۔ یہ ایک فیصلہ کُن فتح ثابت ہوئی جس نے شام سے بازنطینی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مسلمانوں کی اس عظیم کامیابی کا سہرا حضرت خالد ؓ کے سر ہے۔ میجر جنرل جے ایف سی فلر نے اپنی کتاب میں اسے جنگی حکمت عملی کی اعلیٰ مثال قرار دیا ہے۔

حضرت خالد ؓ نے ان حالات میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا ایک بار پھر منوایا اس کے ساتھ ساتھ حضرت ابو عبیدہؓ کی بصیرت کا اعتراف کرنا بھی لازم ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھی کی جنگی صلاحیتوں کا درست وقت پر ادراک کرکے صرف مسلمانوں کی بھلائی کے لیے ان کے حق میں ذمے داری سے دست بردار ہوگئے۔ کیا ہمارے سیاست دان کبھی اس تاریخ سے سبق حاصل کریں گے؟ حضرت عمرؓ نے بھی کمان کی اس تبدیلی پر حضرت ابو عبیدہؓ کی کوئی سرزنش نہیں کی۔ بلکہ اس کے بعد کسی شہر کے فتح ہونے تک حضرت خالد کو فوج کی کمان دی جاتی اور کام یابی کے بعد حضرت ابو عبیدہ قیدیوں اور مال غنیمت کی نگرانی کرتے تھے۔

معیشت کی بحالی کے لیے عمران خان کو عام آدمی کے لیے وعدہ کردہ 50لاکھ گھر تعمیر کرنا ہوں گے۔ اس سے نہ صرف بڑے پیمانے پر وسائل اور افرادی قوت فعال ہوں گے بلکہ منصوبوں پر عمل میں بھی مدد ملے گی۔ گھروں کی تعمیر کے ایسے ہی منصوبے امریکی معیشت کو رواں دواں رکھتے ہیں کیوں کہ اس کے ذریعے سے وسیع پیمانے پر دیگر صنعتوں میں بھی روزگار پیدا ہوتا ہے۔

لکی لوچانو مکمل طور پر ایک جرائم پیشہ شخص تھا مگر اس کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے بڑے سرمایہ داروں اور بلڈرز کو آگے آنے اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے چاہے ان پر کتنے ہی الزامات کیوں نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ ان پر لگائے گئے الزامات صرف الزامات ہی ہوں اور حقیقتاً ایسا نہ ہو جیسا نظر آ رہا ہے۔ اگرچہ یہ انتہائی غیر روایتی تجویز معلوم ہوتی ہے لیکن ہمیں غیر معمولی مسائل کا سامنا بھی توہے۔ ہمیں اپنے لوگوں کو بھوک و افلاس سے بچانے کے لیے معاشی بحالی کی ہرممکن کوشش کرنا ہوگی۔ ہمیں بڑے سرمایہ داروں اور بلڈرز کو تعطل سے نکال کر تعمیراتی صنعت کوفعال بنانے کے لیے متحرک کرنا ہوگا اور موجودہ بحرانی حالات میں ملکی مفاد کے لیے یہ ناگزیرہوچکا ہے۔

(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )

About Ikram Sehgal

Major (R) Ikram Sehgal is a leading Pakistani defence analyst and security expert. He is a retired Pakistan Army officer.

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq