کورونا وائرس کی تیسری لہر
کورونا کی تیسری لہر پاکستان پہنچ چکی ہے۔ اِس لہر نے یورپ اورہمارے پڑوسی بھارت کو کچھ عرصے قبل اپنی لپیٹ میں لیا تھا۔ اس وبا کے خلاف پاکستان کی اب تک کی کارکردگی تواطمینان بخش تھی، لیکن اب کیسز کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ یہ تعداد روایتی طور طریقوں اور "ایس اوپیز" پر عمل درآمد کی اپیلوں سے نہیں رُکے گی۔
ایک نیا لاک ڈاؤن امکانی ہے، جو غریب عوام اور معیشت کے لیے مزید مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کر لی گئی ہے۔ وزیر اعظم نے واضح کیا ہے کہ ہم معیشت بچانے کے لیے انسانی جانوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔
صورت حال کے بگاڑ کی ایک وجہ گزشتہ ایک برس سے نافذ لاک ڈاؤن سے متعلق عوام کو لاحق پریشانی بھی ہے۔ یہ لگاتاردوسرارمضان ہے، جب نہ تو ہم اپنے دوستوں، عزیزوں کو افطار پر مدعو کر سکتے ہیں، نہ ہی عبادات کے لیے اعتماد سے گھروں سے باہر جاسکتے ہیں۔ افطاری کے بعد مارکیٹوں کا رخ کرنا، وہاں تحائف اور کپڑوں کا انتخاب، یہ ایک عام چلن تھا۔ اب یہ چلن ایک خطرناک عمل بن چکا ہے، کیوں کہ مارکیٹوں میں احتیاطی فاصلہ برقرار رکھنا ممکن نہیں۔ موجودہ حالات میں درزیوں کے پاس جانا، بالخصوص رش والی چھوٹی دکانوں پر، قطعی مناسب نہیں۔
ایک جانب پابندیوں کی تھکن ہے، دوسری طرف ویکسی نیشن کی رفتار بھی کچھ سست ہے۔ پاکستان میں 113.4ملین بالغان کو ویکسین کی ضرورت ہے۔ چین نے پہلے مرحلے میں پاکستان کو ویکسین کی نصف ملین ڈوز ارسال کی تھیں۔ مزید 5 لاکھ سینوفرم خوراکیں اور 60 ہزار کین سینو خوراکیں تین ہفتوں قبل موصول ہوئیں، مزید 5 لاکھ خوراکیں جلد متوقع ہیں، مگر پاکستان کی آبادی کو دیکھتے ہوئے انھیں فقط سمندر میں قطرہ ٹھہرایا جاسکتا ہے۔
فی الحال تو یہی لگتا ہے کہ پاکستانی حکومت مارکیٹ سے زیادہ ویکسین نہیں خرید رہی۔ ساتھ ہی مزید ایک لاکھ ویکسین کی آمد کی بھی تصدیق نہیں ہوئی۔ اور پھر ہماری ضروریات کے پیش نظر یہ تعداد بھی کم ہے۔ Pfizer-BioNTechاس وقت سب سے مطلوب ویکسین ہے، مگریہ مارکیٹوں میں موجود نہیں، کیوں کہ اس کی سپلائی امریکا کنٹرول کر رہا ہے۔ خیر، افواہ ہے کہ کئی ملین خوراکوں کا معاہدہ کیا گیا ہے، مگر اس کی سرکاری تصدیق ہونا باقی ہے۔
دوسرا مسئلہ سرمائے کا ہے۔ فی الحال پاکستان مفت فراہم کی جانے والی ویکسین وصول کر رہا ہے۔ جب آپ کے ہاں ویکسین لگوانے کی آمادگی کم ہو اور غربت بہت زیادہ ہو، ایسے میں پیسے دے کر ویکسین خریدنا مقبول چلن نہیں۔ اس مرض کے ابتدائی مرحلے ہی میں یہ واضح ہوگیا کہ اس عالمی بحران سے نمنٹے کے لیے ہمیں فقط COVID-19 ویکسین درکار نہیں، بلکہ ہمیں اس کی ہرفرد تک رسائی بھی ممکن بنانی ہوگی۔ اگر صرف دولت مند اقوام کی اُن تک رسائی ہو، اور غریب اقوام اُن سے محروم رہیں، پھر تو یہ وباشاید ہی ختم ہو۔
کیوں کہ عوام کی نقل و حرکت کے ساتھ یہ مرض پھیلتا جائے گا اور وائرس میں میوٹیشن ہوتی رہے گی۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لیے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)، یورپی یونین اور فرانس کی جانب سے COVID-19 Vaccines Global Access (COVAX) کا تصور پیش کیا گیا۔
یہ پروگرام حکومتوں، عالمی صحت کی تنظیموں، صنعت کاروں، سائنس دانوں، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور مخیر حضرات کو اکٹھا کرتا ہے اور اس کا مقصد مفت یا کم لاگت میں COVID کی تشخیص، علاج اور ویکسین تک مساویانہ رسائی کا اہتمام ہے۔ یہ اس وبائی بیماری کا واحد حقیقی حل ہے، کیوں کہ یہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں لوگوں کو ان کی مالی حیثیت سے قطع نظر ویکسین فراہم کی جائے۔
توقع ہے کہ پندرہ ملین خوراکوں کے ساتھ پاکستان یہ ویکسین وصول کرنے والے پانچ بڑے ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ البتہ مسئلہ یہ ہے کہ ُان کی ڈلیوری کے بارے میں تاحال کچھ حتمی نہیں۔ پھریہ ویکسین "پہلے آئیں، پہلے پائیں "کی بنیاد پر فراہم کی جاتی ہیں، ایسے میں مغربی ممالک کی معاہدوں اور رقم کی ادائیگی میں پہل کے باعث ہمارے ہاں اُن کی ترسیل میں تاخیر متوقع ہے۔ جی او پی کا نجی کمپنیوں کے ذریعے پاکستان میں ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دینا ایک انتہائی معقول اقدام تھا۔
اس اسکیم کے تحت روسی ساختہ اسپوتنک ویکسین کی 50 ہزار خوراکیں اور تھوڑی تعداد میں چینی ویکسین درآمد کی گئیں۔ البتہ ان ویکسینز کی فروخت میں تاخیر کا سبب ان کی قیمت کے تعین کے لیے جاری بے انت مذاکرات رہے۔ ادھراسپوتنک ویکسین کراچی کے نجی اسپتالوں میں 15000 روپے کے عوض مع تمام اخراجات، دو مراحل میں لگائی گئی۔ اگر اسپوتنک کی دنیا میں رائج قیمت دیکھی جائے، تو یہ کوئی معمولی رقم نہیں، لیکن اگر کورونا میں مبتلا ہو کر آپ اسپتال میں داخل ہوتے ہیں، تو اس لاگت کے مقابلے میں تویہ قلیل رقم ہی ہے۔
تو اگر آپ پندرہ ہزار ادا کرکے اس مرض سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، تو یہ اچھا سودا ہے۔ شاید اسی سوچ کے تحت کراچی اور دیگر جگہوں پر موجود یہ ویکسین تیزی سے فروخت ہوئیں۔ مگر چند روز بعد یہ اقدام ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (DRAP)کی جانب سے روک دیا گیا۔
پاکستان میں کورونا کی تیسری لہر کے پیش نظر عدالت کی رولنگ کے باوجود کہ عوام کو بڑے نقصان سے بچانے کے لیے تمام تر اقدامات کیے جائیں، نجی سطح پر ویکسین کی فروخت(سرکاری سرپرستی میں) بحال نہیں ہوسکی۔ درآمد کی جانے والی ویکسین کا مخصوص وقت میں استعمال ضروری ہے۔ یا تو اب تک وہ ایکسپائر ہوچکی ہوں گی، فروخت کر دی گئی ہوں گی یااُن افراد میں تقسیم ہو گئی ہو ں گی، جن کی اُن تک رسائی تھی۔
اگر ہم ویکسین کی پرائیویٹ درآمدات پر پابندی لگا دیں، تو عوام کی اضافی ویکسی نیشن کا امکان گھٹ جائے گا۔ اوریہ عمل باقی دنیا کے لیے خطرے کو بڑھا دے گا۔ ساتھ ہی پاکستانیوں کو بیرون ملک کے لیے میسر سفری اجازت کوبھی خدشات لاحق ہوجائیں گے۔ پاکستان میں ویکسی نیشن مہم کو پیش نظر رکھتے ہوئے مرتب کردہ بلومبرگ رپورٹ کے مطابق ملک کی 70فی صد آبادی کو، موجودہ رفتار سے ویکسین لگنے میں ایک دہائی لگ سکتی ہے۔
کورونا کی تیسری لہر پاکستان پہنچ چکی ہے اور بہ ظاہر لوگ اس ضمن میں لاعلم ہیں۔ 25 اپریل تک ایکٹو کیسوں کی تعداد 795627تھی، یعنی گزشتہ سات دن میں 11.5 فی صد اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اگر اگلے ہفتے تک انفیکشن کی تعداد کم نہیں ہوئی، تو مکمل لاک ڈاؤن نافذ ہوسکتا ہے۔
بہ ظاہر کیسوں کی تعداد میں کمی کا امکان نہیں۔ یعنی رمضان کے دوسرے حصے، بالخصوص عید پر ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائی جائے، COVAX کے طریقہ کار کے مطابق جب تک ویکسین کی ترسیل میں تاخیرہوتی ہے، ایسے افراد کے لیے جو نجی ویکسین افورڈ کرسکتے ہیں، اُن کے لیے یہ اہتمام کیا جانا چاہیے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)