چین اور بھارت کی ممکنہ جنگ
اگرچہ موجودہ وبا نے چین سے زیادہ شدت کے ساتھ بھارت کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے لیکن بھارت مسلمان مخالف پالیسیوں اور مقبوضہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو روندتے ہوئے ڈومیسائل قانون میں تبدیلیوں جیسے اقدامات سے باز نہیں آرہا۔ بی جے پی کی حکومت لداخ کے اُس علاقے میں سڑک کی تعمیر کرکے بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ کررہی ہے جس پر چین دعویٰ رکھتا ہے۔
برصغیر میں بننے والی سرحدیں نوآبادیاتی دور کا ورثہ ہیں اور آج تک اس خطے کے لیے تنازعات کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ برطانوی نوآبادیات ختم ہونے کے بعد اس خطے میں آزاد قومی ریاستیں وجود میں آئیں جن کے لیے ان کی سرحدیں ان کی شناخت کا درجہ رکھتی ہیں۔ جب برطانوی یہاں سے گئے تو یہاں بننے والی ریاستوں کے لیے یہ تنازعات چھوڑ گئے۔ پاکستان کو ڈیورنڈ لائن کی صورت میں اس نوآبادیاتی ورثے سے اپنا حصہ ملا اور جب کہ چین اور بھارت کی سرحد پر مک ماہن لائن اس دور کی یادگار ہے۔
تبتی خطے میں چین اور بھارت کی شمال مشرقی سرحدی علاقے کی ریاستوں اروناچل پردیش اور آسام سے ملحق خطے میں یہ لائن وجہ نزاع ہے۔ اس کا نام برطانوی منتظم سر ہینری مک ماہن سے منسوب ہے۔ یہ حد بندی تبت کی رضا مندی سے ہوئی تھی لیکن چین اسے تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ اس وقت تبت آزاد ریاست نہیں تھی اور اس کے نزدیک تبت ایسی کسی حد بندی کو منظور کرنے کا استحقاق ہی نہیں رکھتا تھا۔
50اور 60کی دہائیوں میں بھارت پر وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں کانگریس کی حکومت رہی۔ کانگریس کا اصرار تھا کہ وہ برطانوی سلطنت ختم ہونے کے بعد اس کے تمام اختیارات اسے منتقل ہوگئے ہیں اور برطانوی سلطنت میں شامل سبھی علاقے اس ملک کا حصہ ہیں۔ اس لیے 1954میں نہرو نے بھارت کے ایسے نقشے شایع کرنے کے احکامات دیے جن میں برطانوی دور میں پھیلی ہوئی سرحدوں کو بھی بھارت میں شامل دکھایا گیا۔ خاص طور پر اس میں اکسائی چن کو بھی شامل کرلیا اور اس اقدام کی وجہ سے برسوں سے قائم جنگ بندی کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ اس کے بعد سے بھارت مسلسل اس علاقے میں سردوگرم جنگ لڑتا آرہا ہے۔
اپنے اس دعوے کو تقویت پہنچانے کے لیے بھارتی پریس نے کھلے عام تبت کی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کیا۔ اس کے بعد سے چینی قیادت کی نظر میں خطے سے متعلق نہرو کے عزائم مشکوک ہوگئے۔ اگست 1959میں چینی فوج نے مک ماہن لائن کے شمال میں لونگجو کے مقام پر بھارتی چوکی اپنے قبضے میں لے لی۔ اس علاقے کے بارے میں بھارتی کوہ پیما حارث کپاڈیا کا خیال بھی یہی ہے کہ یہ چینی حدود میں شامل ہے۔ 24اکتوبر 1959 کو چو این لائی نے نہرو کے نام ایک خط میں دونوں ممالک کی افواج کو لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی)سے بیس کلومیٹر پیچھے ہٹنے کی تجویزپیش کی۔
اس تجویزکو قبول کرنے کے بجائے نہرو نے جارحانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے اس علاقے پر اپنا حق جتانے کی خاطر نومبر 1961میں ایل اے سی کے شمال میں چینی حدودکے اندر 43 مزید چوکیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ غیراعلانیہ پالیسی تھی اور نہرو کا اپنا عملہ اس اقدام سے متفق نہیں تھا۔ اسی بنا پر 1962میں بھارت اور چین کے مابین جنگ ہوئی جس میں بھارت کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
1970میں نیوائل میکسول نے "انڈیاز چائنا وار" کے عنوان سے اس موضوع پر ایک تفصیلی اور جامع کتاب لکھی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت نے کسی طرح چین کو اس جنگ کے لیے اُکسایا اور ساتھ ہی اس کتاب میں بھارت کے اس موقف کی بھی تردید کی گئی ہے جس میں چین کو 1962کی جنگ میں پہل کرنے کا ذمے دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ 2014میں آسٹریلوی صحافی نے ایک خصوصی بلاگ بنایا جس میں بھارت کی خفیہ جنگی رپورٹسں کا ایک بڑا حصہ شایع کیا گیا۔
ان رپورٹس میں 1962میں بھارت کے مقتدر حلقوں کی جانب سے ممکنہ ردعمل کا مقابلہ کرنے کی تیاری نہ ہونے کے باوجود چین کو جنگ پر اُکسانے کی ناقص حکمت عملی کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ ہمالیہ کی بلندیوں پر لڑی گئی اس مختصر جنگ میں بھارت کو دھول چٹانے کے بعد چین نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا اور اپنی فوج کو پچھلی پوزیشن پر واپس آنے کے احکامات دے کر جنگ ختم کردی۔ پاکستان نے 1962میں امریکی یقین دہانیوں (اور نہرو کے وعدوں ) میں آکر اپنی افواج کشمیر میں نہ اتارنے کی بہت بڑی غلطی کی، جس کا خمیازہ بعد میں بھگتنا پڑا۔
مئی کے آغاز میں سکم کے نزدیک چین بھارت سرحد پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے آمنے سامنے آنے کے بعد کشیدگی کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ 1962سے جاری یہ کشیدگی صرف ایل اے سی کے قریب مشرقی لداخ تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ نتھا پاس اور بھوٹان سے ملحقہ ڈوکلام کے علاقوں تک پھیل گئی ہے۔ اس میں تازہ ترین تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا جب وادیٔ لداخ میں دریائے گلوان کے نزدیک چینی فوج نے اپنی حدود میں بھارت کے سڑک تعمیر کرنے پر اعتراض کیا۔ اس موقعے پر ہونے والی ہاتھا پائی میں سات چینی اور چار بھارتی فوجی مبینہ طور پر زخمی ہوئے جب کہ ایک گولی بھی نہیں چلی۔ چین ایل اے سی کے علاقے میں بھارت کی جانب سے سڑک کی تعمیر کو اس دور دراز سرحدی علاقے میں اپنے لیے خطرہ تصور کرتا ہے۔
2017میں بھی دونوں ممالک کے مابین ڈوکلام کے علاقے میں ایسی ہی کشیدگی73دن جاری رہ چکی ہے۔ اس وقت بھوٹان کی سرحد کے ساتھ بڑی چینی فوج کی تعداد میں بڑا اضافہ کیا گیا تھا۔ بعد میں سفارتی ذرایع سے جاری بات چیت میں بھارت نے پسپا ہونے کی حامی بھر لی جب کہ چین نے اس یک طرفہ پسپائی کو میڈیا اور عوام کے سامنے نہ لانے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔
اتفاق دیکھیے کہ چین بھارت کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتا رہا کہ یہ سرحدی تنازعہ چین اور بھوٹان کے مابین ہے اس لیے بھوٹان کی درخواست پر بھارت نے اس خطے میں کمک اور رسد فراہم نہ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں چینی حکام نے بھارت کو بتا دیا ہے کہ اگر وہ بھوٹان اپنے فوجی بھیجنے سے باز نہ آیا تو چین بھی پاکستان کی درخواست پر مقبوضہ کشمیر میں فوجیں اتارنے کے لیے تیارہوگا۔
ہینڈرسن بروکس بھگت رپورٹ بھارتی فوج کے دو سینیر افسران لیفٹننٹ جنرل ہینڈریسن اور بریگیڈیئر پریمندر سنگھ بھگت نے قلم بند کی تھی اور اس میں ان واقعات کا جائزہ لیا گیا تھا جو 1962کی چین بھارت جنگ کا باعث بنے۔ یہ رپورٹ ہمیشہ خفیہ رکھی گئی تاہم 17مارچ 2014کو اس موضوع پر تحقیق کرنے والے نیوائل میکسول نے اس رپورٹ کی دو میں سے ایک جلد اپنی ویب سائٹ پر شایع کردی۔ میکسول کو یہ رپورٹ تحقیق کے دوران ہاتھ آئی اور اسی کی بنیاد پر "انڈیاز چائینا وار" نامی کتاب لکھی۔ نصف صدی بعد یہ رپورٹ عام ہوئی اگرچہ اس کے کچھ صفحات غائب ہیں۔
فی الحال اس سرحدی تنازعے کا کوئی فوری عسکری یا سیاسی حل نظر نہیں آتا۔ بھارت فوجی اور معاشی قوت میں چین کامقابلہ نہیں کرسکتا۔ مودی کے ایک جانب کھائی اور ایک جانب کنواں ہے اور دونوں ہی محاذوں پر شکست دکھائی دے رہی ہے۔ چین ایک کثیر القطبی دنیا کی تشکیل کے لیے کام کررہا ہے لیکن بڑی قومی انائیں اپنے سرحدی دعوؤں کو درست ثابت کرنے تک محدود ہیں۔ چین جس تصور کو حقیقت کا روپ دینا چاہتا ہے اس میں وقت ضرور لگے گا لیکن اس کی کامیابی کے آثار افق پر نمایاں ہیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )