چاند کی رویت اور سائنس
پاکستان میں رویتِ ہلال کا ہمیشہ سے ایک انتہائی سنجیدہ اور حساس مسئلہ رہا ہے۔ تاہم چاند دیکھنے پر اختلاف یا تنازعات صرف پاکستان تک محدود نہیں، آٹھویں اور نویں صدی میں بھی اس پر مختلف آراء رہی ہیں جب امام شافعی ؒ نے سائنس پر اعتماد کو ترجیح دی اور امام احمد بن حنبلؒ آنکھ سے چاند دیکھنے کی رائے پر اصرار کرتے رہے۔
اسلامک سوسائٹی آف نارتھ امریکا (اسنا) کے قومی کوآرڈی نیٹر برائے رویت ہلال سید خالد شوکت کا کہنا ہے:"سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی، جب انسان کو چاند پر قدم رکھے تین دہائیاں گزر چکی ہیں، بعض مسلمان اب بھی اسلامی تقویم کے لیے سائنسی علم کے استعمال سے گریز کرتے ہیں اور اپنی رائے پر جمے ہیں۔
رویت ہلال کی تصدیق کے لیے وہ نصف شب تک انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔" سائنسی طریقہ کار کے مخالفین کا مؤقف یہ ہے کہ دور پیغمبرﷺ میں عام افراد اس علم سے واقف نہیں تھے اس لیے انھیں براہ راست اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کا طریقہ تعلیم کیا گیا اور اس میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔ اگر ہم اس طرز استدلال کو تسلیم کر لیں تو ہمیں کاروں کے بجائے اونٹوں پر سواری کرنا چاہیے کیوں کہ اسلام کی اولین سرکردہ شخصیات کا یہی طریقہ تھا اور اسے بھی "ناقابلِ تبدیل" تصور کرنا چاہیے۔
1974 میں مرکزی رویت ہلال کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ بہت بعد میں جا کر شعبہ سائنس سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے جوائنٹ سیکریٹری ڈاکٹر طارق محمود کو بھی اس کا رکن بنایا گیا۔ علوم کو دینی اور غیر دینی کے زمروں میں تقسیم کرنے ہی کی وجہ سے آج مسلمان مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔
دہائیوں سے چاند کے تنازعے کو حل کرنے کے بجائے اسے طول دیا گیا ہے، دہائیوں سے پاکستان میں دو عیدیں ہوتی رہی ہیں اور ہر بار یہ تنازعہ گزشتہ برس کی طرح درپیش ہوتا ہے۔ لیکن اسے حل کرنے کی کوشش نہیں کیا جاتی۔ اس سال فواد چوہدری نے بطور وزیر سائنس و ٹیکنالوجی یہ سمجھانے کے لیے کہ سائنسی بنیادوں پر چاند کی درست پیش گوئی کی جاسکتی ہے، پہلے ہی 23 مئی کو چاند نظر آنے کا اعلان کر دیا تھا۔ ان کی یہ مداخلت بالکل جائز تھی کیوں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ قوانین قدرت اور انھیں تخلیق کرنے والے خدائے بزرگ و برتر کے کلام کے مطابق ہے۔
’اتحاد، اسلامی تعلیمات کا مرکزی نقطہ ہے لیکن ہم رفتہ رفتہ اس سے محروم ہو چکے ہیں اور ہمارے مذہبی پیشوا اسے سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔ خدا کی وحدانیت میں اسے دنیا کا واحد خالق تسلیم کرنے کے ساتھ یہ بات بھی شامل ہے کہ اس کی تخلیقات اس کے جاری کردہ ان قوانین کے تحت یکساں ہیں جن پر اس کائنات کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
ہمیں اگر یہ تصور سمجھ میں آ جائے تو اس بات کا بھی بہ آسانی ادراک ہو سکتا ہے کہ قوانین فطرت اور اسلامی تعلیمات میں کوئی ایسی خلیج ہو ہی نہیں سکتی جسے دور نہ کیا جا سکتا ہو۔ وہ قوانین جو چاند اور ستاروں کا محور متعین کرتے ہیں اس کی مدد سے چاند کی پیش گوئی بھی کی جا سکتی ہے۔
مسلم دنیا کے نمایاں فلاسفہ میں شامل علامہ اقبال نے اپنے خطبات "تشکیلِ جدید الہیاتِ اسلامیہ" میں مسلمانوں کو گہری نیند سے جگانے اور یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اسلام دوسروں جیسا مذہب نہیں جنھیں ان مذاہب کے رہنماؤں نے صرف اس لیے زندگی سے نکال باہر کیا تھا کہ وہ اپنے اعتقادات اور سائنسی احکام میں مطابقت پیدا نہیں کر پائے تھے۔ اسلام ایک جدید مذہب ہے اور ایک خاص حد تک اس میں اتنی لچک پائی جاتی ہے کہ مذہبی تعلیمات اور سائنس میں پائی جانے والی خیالی دوریوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس کی تعلیمات میں یہ فہم پہلے سے موجود ہیں کہ دینی احکامات اور فطرت کے قوانین دونوں ہی ذات باری تعالی کی تخلیق ہیں اس لیے علمی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے احکامات کی تعبیر و تشریح بھی کی جا سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ تاویل و تشریح کی حدود بھی دین میں متعین ہیں۔ چوں کہ اس تحریر کے بہت سے قارئین اقبال کے اس بنیادی طرز فکر سے پوری طرح واقف نہیں ہوں گے اس لیے ان کے لیے یہاں ان کے خطبات میں سے ایک اقتباس پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے: "آپ کو یہ سن کا اطمینان ہو گا کہ اسلام کی ابتدا، عقلِ استقرائی کی ابتدا ہے۔ اسلام میں نبوت اپنی تکمیل کو پہنچی ہے۔
اس میں یہ ادراک گہرے طور پر موجود ہے کہ زندگی کو ہمیشہ بیساکھیوں کے سہارے نہیں رکھا جا سکتا اور یہ کہ ایک مکمل خود شعوری حاصل کرنے کے لیے انسان کو بالآخر اسے اپنے وسائل کی طور موڑ دینا چاہیے۔ اسلام میں پاپائیت اور موروثیت کا خاتمہ، قرآن میں استدلال اور عقل پر مسلسل اصرار اور اس کا بار بار فطرت اور تاریخ کے مطالعے کو انسانی علم کا ذریعہ قرار دینا، ان سب کا تصور ختم نبوت کے مختلف پہلوؤں سے گہرا تعلق ہے۔"
اقبال مزید فرماتے ہیں : "قرآن حکیم کے مطابق علم کے (روحانی کے علاوہ) دو دیگر ذرائع بھی موجود ہیں ؛ فطرت اور تاریخ۔ ان دو ذرائعِ علم سے استفادہ کی بنا پر ہی اسلام کی روح اپنے اعلیٰ مقام پر دکھائی دیتی رہی ہے۔ قرآن حقیقت اعلیٰ کی نشانیاں سورج میں دیکھتا ہے، چاند میں دیکھتا ہے، سایوں کے گھٹنے اور بڑھنے اور دن اور رات کے آنے جانے میں دیکھتا ہے۔
انسانوں کے مختلف رنگ و نسل اور زبانوں کے تنوع میں اور مختلف اقوام کے عروج و زوال اور دنوں کے الٹ پھیر میں دیکھتا ہے۔ درحقیقت فطرت کے تمام مظاہر میں دیکھتا ہے جو انسان کے حسی ادراک پر منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان نشانیوں پر غور و فکر کرے اور ان سے ایک اندھے اور بہرے انسان کی طرح اعراض نہ کرے۔ کیوں کہ وہ انسان جو ان آیات الہی کو اپنی اس زندگی میں نہیں دیکھتا وہ آنے والی زندگی کے حقائق کو بھی نہیں دیکھ سکے گا۔"
اقبال نے فکریات اسلامی کی تشکیل تجدید کے عنوان سے ان خطبوں میں مذہبی فکر پر دوبارہ غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ وہ لکھتے ہیں "جدید دور کے مسلمان کے سامنے بڑے اہداف ہیں۔ اسے اپنے ماضی سے کٹے بغیر اسلام کے پورے نظام پر دوبارہ سوچنا ہے۔"
رمضان اور رویت ہلال سے متعلق فیصلوں میں غیر جانب داری برقرار رہنی چاہیے۔ تقریباً تمام ہی امت مسلمہ مکۃ المکرمہ اور مدینۃ المنورہ کے مطابق روزہ اور عیدکرتے ہیں، پاکستان میں قومی اتحاد کے لیے یہ فیصلہ بھی مناسب ہی رہے گا۔ ہم ہر سال چانددیکھ سکتے ہیں لیکن جھگڑے نہیں!
( فاضل کالم نگار اکرام سہگل سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )