آٹے اور چینی کا بحران
چند روز قبل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے آٹا اور چینی بحران سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ جمع کروادی جس کا حکم وزیر اعظم نے رواں سال فروری میں دیا تھا۔ جب انھیں رپورٹ پیش کی گئی تو وزیراعظم نے اسے منظرعام پر لانے کا حکم دیا۔ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں اچانک اضافے سے متعلق رپورٹ ’بغیر کسی رد و بدل، کے، فوری طور پر شایع کردی گئی۔ تفصیلی رپورٹ آج 25 اپریل کو دستیاب ہوجائے گی۔
نہ صرف بحران کی وجوہات بلکہ بحران کے مجرموں کو سامنے لانے کے شفافیت پر مبنی اس خوش آیند اقدام کی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ گزشتہ حکومتوں نے مجرموں کو چھپانے کے لیے تحقیقاتی رپورٹس دبا جانے کو عادت بنا لیا تھا۔ وزیراعظم نے سخت ذاتی دبائو کا سامنا کیا، انھیں اور تحقیقاتی ٹیم کو’ سخت نتائج، کی دھمکیاں دی گئیں۔ ملک میں کس کی اتنی جرات ہے کہ وہ حکومتی طاقت کے ڈھانچے کو دھمکائے؟ ایسے نام بھی منظر عام پر آنے چاہئیں۔
پاکستان میں آٹے کا بحران 2019 کے آخری نصف سے شدید ہوا، کراچی، لاہور اور حیدرآباد جیسے بڑے شہر اس سے متاثر ہوئے اور بعض علاقوں میں آٹے کی قیمت 70 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ جولائی 2019 میں گندم کی برآمد پرلگی پابندی کے باوجود حکومت نے48، 000 ٹن گندم کی برآمد کی اجازت دی جس سے ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ چند ماہمیں گندم کے ذخائر 42لاکھ ٹن تک رہ گئے جو دو ماہ کی ضروریات کے لیے بمشکل کافی تھے۔ اس کے ساتھ چینی مارکیٹ سے غائب ہوگئی جس کے نتیجے میں قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
چینی کی قیمت دسمبر 2018میں 55 روپے کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، باوجود اس کے کہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافہ یکم جولائی 2019 سے لاگو ہوا۔ مقامی منڈی میں چینی کی قیمتیں جنوری 2019 میں اس کی برآمد کی اجازت ملنے کے فوراً بعدبڑھنا شروع ہوگئیں۔
رپورٹ میں یہ بھی سامنے آیا کہ گزشتہ کچھ سالوں میں چینی کی پیداوار مقامی ضروریات سے زیادہ تھی، لہذا ضروری تھا کہ تحقیقات میں چینی کی برآمد، سبسڈی، مقامی قیمتوں پر اس کے اثرات اور اس سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والوں کو شامل کیا جاتا۔ ایف آئی اے کمیشن کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ چینی کی برآمد جائز نہیں تھی، اور حکمران جماعت پاکستا ن تحریک انصاف کے نمایاں ارکان سمیت برآمد کنندگان نے دو طریقوں سے فائدہ اٹھایا، یعنی برآمد پر سبسڈی بھی حاصل اور مقامی منڈی میں چینی کی قیمتوں میں اضافے سے منافع بھی کمایا۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جو آبادی میں تیزی سے اضافے اور نصف سے زیادہ آبادی کے غریب ہونے کے باوجود تاریخی طور پر اپنی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہاہے۔ مسئلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ہم غربت میں اضافے کی طرف دیکھتے ہیں، اس کے سبب اشیاء خورونوش کی قیمتیں آبادی کے ایک بڑے حصے کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں۔ اسی وجہ سے نہ صرف خوراک کی پیداوار بلکہ خوراک کی قیمتیں بھی قومی سلامتی کا مسئلہ ہیں۔
جب خوراک غریبوں کی پہنچ سے دور ہوجائے گی تو نتیجہ ملک میں امن و امان کی خرابی کی صورت نکلے گا۔ رمضان ملک میں کھانے پینے کی اشیاء پر ہنگامے ہوں گے، یہ ایک پیش گوئی نہیں ہے بلکہ ایسا ہی ہونے والا ہے۔ خوراک پر ہنگاموں کے علاوہ غذائی قلت بھی قیمتوں میں اضافے کا ممکنہ نتیجہ ہے۔ دیگرترقی پذیر ممالک کی نسبت پاکستان میں بچوں میں غذائی کمی بہت زیادہ ہے۔
قومی غذائی سروے کی رپورٹ کے مطابق تمام بچوں میں 33فیصد وزن کی کمی کا شکار ہیں، 44 فیصد کی نشوونما رک چکی ہے، 15فیصد زندگی کی جنگ ہی ہار جاتے ہیں۔ 50 فیصد خون اور 33 فیصد آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔ نشوونما رکنے کا تعلق صرف خوراک کی دستیابی سے نہیں بلکہ دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ دستیاب خوراک کے معیار اور مقدار سے بھی ہے۔ اس حقیقت کو جانتے بوجھتے ہوئے ایک کے بعد ایک آنے والی حکومتوں نے اس پر توجہ نہیں دی۔ اگلی نسل، نوجوان لوگ جنھیں ہم ملک کا مستقبل تصور کرتے ہیں، غذائی قلت کے سبب اپنی جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں کو نمو نہیں دے پا رہے۔
یہ بڑی حد تک قومی سلامتی کا مسئلہ ہے کیونکہ ہمارے بچے جو گلوبلائزڈ دنیا میں دوسروں کے ساتھ مقابلہ کریں گے، بچپن سے اس طرح معذورہورہے ہیں۔ لہذا عوام کی حالت سے فائدہ اٹھا کر پیسہ بنانے کی بری نیت کے ساتھ خوراک کا مصنوعی بحران پیدا کرنا مجرمانہ فعل ہے۔ بحران غلط انتظامی فیصلوں کے سبب پیدا ہوا جن کامحرک زیادہ تر پیسہ بنانے کا لالچ تھا۔ پی ٹی آئی سے متعلقہ بڑی مچھلیاں اپنی ہی حکومت کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں، ایساتو ہونا ہی تھا۔ پاکستان کا ترقی یافتہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کا نظام معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھنے اور اس حوالے سے معلومات فراہم کرنے کا ذمے دارہے کہ کیا ہورہا ہے اور کون اس کے پیچھے ہے۔
یہ کافی ناقابل یقین ہے کہ اس انتہائی اہم معاملے کے بارے میں حالات کی سنگینی کا پہلے سے پتا نہیں چلایا جاسکا۔ اس سے متعلق معلومات ابتدائی مراحل ہی میں حکومت کے متعلقہ دفاتر میں پیش کردی جانی چاہییں تھیں تاکہ بحران سے بچنے کے لیے بروقت اقدامات کرلیے جاتے۔ اس بات سے کافی صدمہ پہنچتا ہے کہ رپورٹس نظر انداز کردی گئیں، اور کن محرکات پر؟ ایک اور کمیشن کی ضرورت ہے جو معاملے کے اس پہلو کو دیکھے اور ذمے دارلوگوں کے نام سامنے لائے۔
وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ 25 اپریل کو فورینسک رپورٹ آنے کے بعد رپورٹ میں نامزد ملزمان کا احتساب کیا جائے گا۔ سب سے پہلے انھیں غلط بنیادوں پر حاصل کی گئی سبسڈیز واپس کرنی چاہئیں اورمعقول جرمانہ ادا کرنا چاہیے جو کوروناوائرس سے لڑنے یا راشن کے پیکیج فراہم کرنے کے کام آسکے۔ عمران خان پر لازم ہے کہ وہ اس اسکیم میں ملوث افراد کا بلاامتیازاحتساب کریں، ورنہ یک طرفہ احتساب اور سیاسی انتقام کے الزامات فوراً سامنے آجائیں گے۔
ملزمان نے جو تحریک انصاف یا اتحادی جماعتوں کا حصہ ہیں، مالی فوائد حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت اور جماعت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے ساتھ جماعتوں کے اندر فیصلہ کن انداز میں نمٹا جانا چاہیے۔ گندم اور چینی کے بحران سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاسی منظرنامے میں ہر طرف ایسے لوگ موجود ہیں جو پاکستان کے قومی مفاد کی پروا نہیں کرتے اور جن کی اس ملک سے محبت پر بھی شبہ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف، تمام تر دبائو کے باوجود اس اسکینڈل کے اسباب کی تحقیقات کرنے اور انھیں شایع کرنے کے حوالے سے عمران خان کی بہادری کی داد دینا واجب ہے۔ انھوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنی کوششوں میں ایماندار اور مخلص ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان سے غلطی نہیں ہوتیں لیکن یہ ایماندارنہ غلطی ہوتی ہیں، نیت اور ذاتی فائدے کے بغیر۔ اسی کی پاکستان کو ضرورت ہے۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں )