ایف اے ٹی ایف کی لافیئر: پاکستان سے یہ سبق سیکھے جا سکتے ہیں (2)
ترکی اور پاکستان میں کئی مماثلتیں ہیں۔ ترکی اپنے تزویری مقاصد کے تحت ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل کر رہا ہے۔ چنانچہ یہ امر حیرت کا باعث نہیں ہونا چاہیے کہ ترکی کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حال ہی میں امریکا کے ساتھ ترکی کے تعلقات خراب ہو گئے ہیں۔ ترکی یورپی یونین کے نشانے پر بھی رہا ہے جو انقرہ کے بقول اس کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر رہی ہے۔ صدر رجب طیب اردگان نے ترکی کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی پر حال ہی میں دس ملکوں کے سفیروں کو"نا پسندیدہ افراد" قرار دینے کا بیان جاری کیا تو امریکا اور ای یو مشتعل ہو گئے۔
ترکی کو ایف اے ٹی ایف کی"گرے لسٹ"میں شامل کرنے کا حتمی مقصد اسے پاکستان کی طرح مجبور کرنا ہے کہ وہ مغرب کی ہدایات پر عمل کرے۔ اگر ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستان کے تجربے سے ترکی کے ساتھ کیے جانے والے سلوک کا اندازہ ہو سکتا ہے تو ترکی کو چاہیے کہ وہ غلطیاں نہ کرے جو پاکستان سے اْس وقت سرزد ہوئی تھیں جب اسے پہلی مرتبہ گرے لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ جب پاکستان کو 2018ء میں پہلی مرتبہ گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ لگاتار کئی حکومتوں کی برسوں پر محیط بدانتظامی اور لاپروائی کا نتیجہ۔ تو ایف اے ٹی ایف نے اسے بے خبری کے عالم میں دبوچ لیا تھا۔ اْس وقت پاکستان نے کالا دھن سفید کیے جانے اور دہشت گردی کے لیے رقوم فراہم کرنا روکنے کے لیے کافی قانون سازی نہیں کی تھی اور پالیسی ساز ایف اے ٹی ایف کے بارے میں بہت تھوڑا علم رکھتے تھے۔ نتیجتاً ایف اے ٹی ایف ساری بندوقیں پاکستان پر تانے آ گئی اور حکومت کو شکنجے سے نکلنے کے لیے آخری کوشش کرنا پڑی۔ پاکستان ایک اور شعبے میں بھی مار کھا گیا تھا۔ وہ یہ کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے تقاضے پورے کیے جانے کی نگرانی کے لیے مرکزی اتھارٹی کے قیام میں ناکام ہو گیا تھا۔
ترکی کو چاہیے کہ ایف اے ٹی ایف کے تقاضے مؤثر طور سے پورے کرنے کی غرض سے سرکاری اور نجی شعبوں کے اداروں میں ارتباط پیدا کرنے کے لیے ماساک جیسے موجودہ اداروں کو استعمال کرے۔ ترکی ایف اے ٹی ایف کے امور و معاملات سے خاص طور سے نمٹنے کے لیے متعین کردہ غیر ملکی ممتاز مالیاتی، تیکنیکی اور قانونی ماہرین کے ایک منتخبہ گروپ کے ساتھ مل کر کام کرے تو اس کا آغاز اچھا ہو گا اور اس کے پالیسی ساز ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کی باریکیاں اور تکنیکی امور سمجھ سکیں گے۔ چوں کہ ایف اے ٹی ایف کی رکن ریاستیں اس کے تمام ارکان پر مشتمل اجلاسوں میں ووٹنگ کے ذریعے ملکوں کو گرے لسٹ میں شامل کرنے اور اس سے نکالنے کا فیصلہ کرتی ہیں اس لیے ترکی کی وزارتِ خارجہ کو چاہیے کہ ایف اے ٹی ایف میں ملکوں کے ترکی کے بارے میں مؤقفوں کا جائزہ لے۔
ترکی کو چاہیے کہ ہر رکن ملک سے فرداً فرداً رابطہ کر کے اپنا مؤقف اس پر واضح کرے اور اگر انھیں کوئی تشویش ہو تو اسے دور کرے۔ اس ساری کاوش کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ گرے لسٹ سے نکلنے کی انقرہ کی کوششوں کے لیے ان سے تعاون حاصل کیا جائے۔ چوں کہ رکن ملکوں کے ساتھ گفت و شنید پیچیدہ بھی ہو گی اور اس پر خاصا وقت بھی صَرف ہو گا اس لیے ترکی کو بِلا تاخیر آغاز کر دینا چاہیے۔ ترکی سے ایف اے ٹی ایف کی لافیئر کا مقصد ترکی کی قوتِ ارادی ختم کرنا ہے۔
پاکستان نے بین الاقوامی طریقِ کار اپنا کر قانون کی زبان استعمال کرتے ہوئے لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بلاشبہ جہاں ایف اے ٹی ایف قانون کے شکنجوں کے ساتھ جبر کا آلہ ہے وہاں بالآخر ترکی کے سامنے بھی پاکستان کی طرح اس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہو گا کہ وہ کھیل کے قوانین کے مطابق کھیلے۔ ترکی کے لیے دفاع کا بہترین طریقہ مستقل مزاجی، لچک داری اور بھرپور منصوبہ سازی کے ساتھ جوابی لافیئر ہے۔
چوں کہ اب ایف اے ٹی ایف ایک ایسا سیاسی ہتھیار بن چکا ہے، جسے پاکستان اور ترکی جیسے مسلمان ملکوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، تو یہی وقت ہے کہ پاکستان اور ترکی چین اور روس جیسی عالمی طاقتوں کے تعاون سے ایک ایسا اقتصادی بلاک تشکیل دیں، جو مسلمان ملکوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیے جانے والے آئی ایم ایف اور دوسرے مغربی مالیاتی اداروں کے ہتھکنڈوں کا توڑ کر سکیں۔ یہ متبادل اقتصادی بلاک پاکستان اور ترکی کو مطلوب "اقتصادی آکسیجن" فراہم کرنے کے علاوہ ایسے دیگر مسلمان ملکوں کے لیے محور کا کردار ادا کر سکتا ہے، جنھیں مستقبل میں ایف اے ٹی ایف نشانہ بنائے گی۔ چناں چہ ضروری ہے کہ "متبادل" اقتصادی بلاک میں او آئی سی کے رکن ملک بھی شامل ہوں تاکہ سعودی عرب جیسے پاکستان کے اتحادی اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ملک یہ محسوس نہ کریں کہ انھیں چھوڑ دیا گیا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ مجوزہ اقتصادی بلاک کو وسعت دے کر اس میں مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کے علاوہ وسطی ایشیا کے ملکوں، افغانستان، ایران اور دیگر ممالک کو بھی شامل کیا جائے تاکہ یہ دائرہ وسیع ہو اور مغربی اداروں کے آئندہ متبادل کا اطلاق پوری طرح سے کیا جا سکے۔ چوں کہ مذکورہ بالا بلاک کی تشکیل کے لیے کئی ملکون کا سیاسی ارادہ اور باہمی اتفاقِ رائے درکار ہو گا اور اس میں خاصا وقت لگے گا، اس لیے ترکی اور پاکستان کو بیش قدروقت ضائع نہیں کرنا چاہیے اور ایف اے ٹی ایف کے تقاضے جنگی بنیادوں پر پورے کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں کو چاہیے کہ ایف اے ٹی ایف "سیکھے ہوئے اسباق" کے تبادلے اور گرے لسٹ سے دونوں ملکوں کے اخراج میں انھیں استعمال کرنے کی غرض سے ایک مشترکہ ٹاسک فورس تشکیل دیں۔
پاکستان اور ترکی کا قریبی تعاون ایسے دیگر مسلمان ملکوں کے لیے، جنھیں ایف اے ٹی ایف مستقبل میں نشانہ بنائے گی، انھی کی طرح کے اقدامات کرنے کا خاکہ ترتیب دے گا۔ ایسا تعاون ایک تزویری اقدام بھی ہو گا، جو مغربی ملکوں کو پیغام بھیجے گا کہ مسلمان ملکوں کو نشانہ بنانے والے ایف اے ٹی ایف جیسے ادارے انھیں ایک دوسرے کے قریب لے آئیں گے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمان ملکوں کی قوتِ ارادی توڑنے کے ایف اے ٹی ایف کے حربے ان کے متحد ہو کر مقابلہ کرنے پر منتج ہوں گے۔