وہ لمحۂ عرفانِ غمِ حسنِ ازل
پروردگار کو ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ اس ایک بندے کا، جو واقعی اس کا بندہ ہو۔ جو اپنی ساری زندگی، اپنی سب امنگیں اور آرزوئیں اس کی بارگاہ میں تج دے۔ اقبالؔ نے کہاتھا: عبد دیگر عبدہ، چیزے دگر۔ بندہ اور ہوتا ہے اور اللہ کا بندہ کچھ اور۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں
"A Star is born"نصف صدی بیت چکی، ایک گم گشتہ اور معتبر اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے اداریے میں لکھا تھا۔ یہ جواں سال محمد رفیق اختر کے بارے میں تھا جو ابھی ایک طالب علم تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم۔ بعد میں وہ احمد رفیق اختر ہوگئے۔ اس زمانے میں بھی طلباء سے زیادہ ان کی رفاقت نامور اساتذہ کے ساتھ رہتی، خاص طور پر گورنمنٹ کالج کے کبھی نہ بھلائے جانے والے درویش منش پرنسپل ڈاکٹر نذیر۔ گورنر امیر محمد خان کو ان کی بے ساختگی بے زار کرتی۔ خاص طور پر ان کا دیسی کھسہ، جسے دیکھ کر وہ برا سا منہ بنایا کرتے۔ نفسیات کے بے بدل استاد ڈاکٹر محمد اجمل۔ ایک بار اپنے شاگرد سے انہوں نے کہا: میں تمہیں نفسیات پڑھائوں گا، تم مجھے تصوف کا درس دیا کرو۔
پرور دگار کی کائنات میں نئے ستارے اسی طرح طلوع ہوتے ہیں۔ لاہور میں چرچے کا آغاز ہوا تھا کہ جواں سال نے شاعری سے توبہ کرلی۔ تصوف کی تاریخ عجیب و غریب واقعات سے بھری پڑی ہے اور یہ ان میں سے ایک ہے۔ صوفی اپنی ترجیحات مرتب کر لے تو کبھی ان سے فرار نہیں کرتا۔ دوسروں کو تو ہر رعایت وہ دے سکتا ہے اپنے آپ کو کبھی نہیں۔ ساری عمر وہ اپنے خلاف برسر جنگ رہتا ہے، وہ اپنے ثمر نہیں گنتا، اپنی شاخیں تراشنے میں لگا رہتا ہے۔ انہوں نے ایسا کیوں کیا، انہی کی زبانی سنیے۔"
س:آپ نے شاعری بھی کی؟
ج: میں اچھا بھلا شاعر تھا، بس میرے اللہ کو منظور ہی نہ تھا۔ فرمایا کہ شعراء تو جھوٹ کی وادیوں میں سفر کرنے والے ہیں۔ میرے پاس چارہ ہی کیا تھا۔ میں اپنے مالک کی سنتا یا اپنے دل کی بات مانتا۔ تھوڑی بہت شاعری اس زمانے میں چھپی ہے۔ کچھ شعر گورنمنٹ کالج لاہور کے میگزین میں شائع ہوئے، ایک رسالہ چکوال میں چھپاتھا، سارا میرے ہی کلام پہ مبنی تھا۔ ایک دوسرے شخص کا نام بھی تھا، مگر وہ بھی میری ہی شاعری تھی۔ اب میں نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان دنوں کے آخری دو شعر یاد ہیں:
کتنے امڈے ہوئے دریاؤں کی شورش کا امیں
کتنا خاموش ہوں پْر ہول سمندر کی طرح
ہائے وہ لمحۂ عرفانِ غمِ حسنِ ازل
ڈوبتا جائے ہے دل پانی میں پتھر کی طرح
یہ محض شاعری نہ تھی، مجھ پہ بیت رہا تھا۔ اب مجھے لگا کہ میری شاعری بھی فضول سی ہے۔ اس میں انانیت جھلکتی تھی، ایک وقت تھا، انائے ذات کا۔ اس دور میں ایک شعر لکھا جو بہت مشہور ہوا، ہر لڑکا گاتا پھرتا تھا۔
میں خود پرست کسی پر نثار ہو نہ سکا
مری نظر، مرے دل ہی میں آ کے ڈوب گئی
اس طرح کی بے جہت شاعری کچھ دن کرتا رہا تھا۔ پھرParadise lostکا منظوم ترجمہ شروع کیا۔ اس کی شہرت ہوئی مگرI Lost both the books۔ اپنے شیخ سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کی طرح میری کتابِ شعر بھی گم ہو گئی۔ Paradise lost کا ترجمہ "فردوسِ گم گشتہ" کے نام سے کیا۔ شاید طلباء کے لیے دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے۔ تھوڑا سا مجھے یاد ہے:
اوّل اوّل وہ خطائے انساں
شجرِ ممنوعہ کی فانی لذت
وجہِ آغازِ فنا کاریٔ مرگ
باعثِ ایں ہمہ رنج و کلفت
درِ فردوس پہ آدم کے لیے مہرِ خروج
بعد مدت کے ہمی، حتیٰ کہ پھر لوٹ آیا
وہ حسیں کنجِ قدیم ایک عظیم انساں نے
پھر کوئی نغمہ جگا
اے کہ تو نے کوہ اوریب پہ صنعا کی تنہائیوں پر
اک گلہ بان کو وہ عظمتِ عرفانی دی
جن سے اس نے تیرے محبوب علم داروں کو
رازِ پیدائشِ عالم کا بنایا محرم
کہ یہ فردوس یہ دنیائے فنا
ایک ہنگامہ ٔکبریٰ سے ابھر آئی ہے
اساطیری شاعر فیض احمد فیض نے ایک ادبی نشست میں کہا کہ انہوں نے بھی اس نظم کا ترجمہ کرنے کی کوشش کی مگر اس نوجوان نے Diction to diction ترجمانی کر دی۔ اس وقت میں نوجوان تھا۔ میرے دو شعر تب بہت مشہور ہوئے۔ وہ آپ کو سناتا ہوں۔ ملٹن نے لکھا تھا Better to Reign in Hell Than to Serve in heaven۔ وہ اپنے چھوٹے سے فرشتے کو اٹھاتا ہے، جو "دوسرا شیطان"ہے۔ اس سے وہ کہتا ہے اور یورپ میں وہ بہت مشہور تھا، نوجوان نسلوں میں بہت مقبول:
اْٹھ اے گرے ہوئے کروبی اْٹھ
درِ جنت پہ جبیں سائی سے
کہیں بہتر ہے کہ ہم
تختِ دوزخ پہ شہنشاہی کریں
تو جیسے یہ بھی مقبول ہوئے، لاہورکے لڑکے گاتے پھرتے
اْٹھ اے گرے ہوئے کروبی اْٹھ
اسی کو Diction to diction ترجمانی کہا جاتا ہے۔ I wasn`t romantic in those days بلکہ اس وقت میری تلمیح کرخت ہو چکی تھی، over thinking کی وجہ سے۔ زمان و مکاں پہ میری بے شمار میٹافیزیکل نظمیں ہیں۔"
یہ کسر نفی ہے۔ صوفی یہی ہوتا ہے۔ ایک شعر کا عارف نے ذکر نہیں کیا، ایک دن اس طالب علم نے انہیں یاد دلایا۔
جلتے ہر شب ہیں آسماں پہ چراغ
جانے یزداں ہے منتظر کس کا؟
پروردگار کو ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ اس ایک بندے کا، جو واقعی اس کا بندہ ہو۔ جو اپنی ساری زندگی، اپنی سب امنگیں اور آرزوئیں اس کی بارگاہ میں تج دے۔ اقبالؔ نے کہاتھا: عبد دیگر عبدہ، چیزے دگر۔ بندہ اور ہوتا ہے اور اللہ کا بندہ کچھ اور۔
وہ جن کے ہوتے ہیں خورشید آستینوں میں