صحرا میں اذان دے رہا ہوں
ساری بات ترجیحات کی ہوتی ہے۔ ترجیحات ہی اگر درست نہ ہوں تو نتیجہ معلوم۔ سعدی کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے: اے حجازِ مقدس کے عازم جس راہ پہ تو گامزن ہے، حرمِ پاک نہیں، وہ ترکستان جاتاہے۔
میاں محمد نواز شریف، جنابِ شہباز شریف اور زرداری صاحب جب یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ کرپشن کے مرتکب نہیں تو پنجابی، اردو اور فارسی کے تین محاورے یاد آتے ہیں۔"چور نالے چتّر" چور اور دعویٰ فروش، چوری اور سینہ زوری اورفارسی کی مشہور کہاوت: چہ دلاور است دزدِ کہ بکف چراغ دارد۔ نقب زن کیسا دلیر ہے کہ ہتھیلی پہ چراغ رکھا ہے۔ مثنوی میں ایک دیوانے کا ذکر بھی ہے جو دن کی روشنی میں ہاتھ میں چراغ لیے پھر رہا تھا۔ حیرت سے لوگوں نے سوال کیا۔ اس نے کہا:ڈھونڈ رہا ہوں، کہیں کوئی آدمی نہیں ملتا۔ آدمی نہیں ملتا۔ ہم سب، حتیٰ کہ صاف ستھرے لوگ بھی اپنی اپنی ذات میں گم ہیں۔ جلتے اور کڑھتے ہیں، بولتے رہتے ہیں مگر ایثار نہیں کرتے، غور نہیں کرتے۔
سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، سب کے اپنے اپنے دکھ ہیں
اے دلِ ناداں تیری کہانی کون سنے گا، کس کو سنائیں
1970ء میں، یہی صورتِ حال تھی۔ اقتدار کے لیے مختلف گروہ ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے تھے، 30اکتوبر 1970ء کو سید ابو الاعلیٰ مودودی نے موچی گیٹ کے جلسہء عام میں یہ کہا تھا: پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ اگر جیت گئیں تو فوج بھی ملک کو متحد نہ رکھ سکے گی۔ مشرقی پاکستانی کی خوں ریز علیحدگی سے کئی ماہ قبل ڈاکٹر سید عبد اللہ نے ایک مضمون لکھا تھا "پاکستان کا مقدمہ کون لڑے گا" مرکزی نکتہ یہ تھا کہ ہر لیڈر، ہر پارٹی اور ہر گروہ اپنے مفاد کے درپے ہے۔ ملک کی فکر کسی کو نہیں۔ ڈاکٹر سید عبد اللہ ان میں سے تھے، جن کی مٹی درد سے گندھی ہوتی ہے۔ کوئی سننے والا نہیں تھا۔ سلیم احمد نے کہا تھا:
شاید کوئی بندہء خدا ادھر آئے
صحرا میں اذان دے رہا ہوں
آج پھر وہی عالم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، حکمران پی ٹی آئی اور اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں۔ قائدِ اعظم کے پاکستان کی پرواہ کسی کو نہیں۔ ملک ایثار سے بنتے اور ایک کم از کم اتفاق رائے میں زندہ رہتے ہیں۔ کوئی طریق، کوئی لائحہ عمل، کوئی آئین۔ ساری بات تجزیے کی ہوتی ہے۔ ٹھنڈے دل و دما غ سے اگر تجزیہ ہی نہ کیا جائے تو طریقِ کار کیسے طے ہو۔
"نواز صاحب کو کیوں نکالا۔ گوگل، لائیکوز، یاہو، وکی لیکس اور وسل بلوئر کی مدد سے یہ چارج شیٹ فرانسیسی نژاد پاکستانی جناب مشتاق احمد نے مرتب کی ہے۔
"شریف خاندان لاہور کے جس گھر میں رہائش پذیر ہے، رائیونڈ محل کہلاتا ہے۔ 25000 ہزار کنال پر محیط۔ مری میں ایک عالی شان محل نما گھر۔ چھانگا گلی ایبٹ آباد میں زمین اور ایک مکان۔ مال روڈ مری پر ایک شاندار قیمتی بنگلہ۔ شیخوپورہ میں 88 کنال کی ایک زمین۔ لاہور اپر مال میں ایک مکان۔ 1700 کنال کی مختلف جائدادیں۔ ان تمام گھروں کا سالانہ بجٹ 27 کروڑ روپے ہے۔ ان گھروں میں کام کرنے والے ملازمین اور آفیسرز کی کل تعداد 1766 ہے جن کا ماہانہ خرچ 6 کروڑ روپے ہے۔ سی این بی سی کے مطابق نواز شریف کے ہاتھ پر بندھی ہوئی گھڑی کی قیمت 4.6 ملین ڈالر ہے۔ سعودی عرب، دبئی، سپین اور استنبول میں بھی رہائش گاہیں موجود ہیں۔ پاکستان سمیت کاروبار ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔
پاکستان میں نواز شریف اور ان کاخاندان اتفاق گروپ اور شریف گروپ نامی دو دیو ہیکل گروپ آف کمپنیز کے مالک ہیں۔ جن کی ذیلی کمپنیوں میں کم از کم 11 شوگر ملز اور 15 انڈسٹریل اسٹیٹس شامل ہیں۔ سی این بی سی کے مطابق ان کاروباری اداروں کے ماتحت کام کرنے والی کچھ کمپنیوں کے نام یہ ہیں۔
رمضان شوگر ملز غالباً پاکستان کی سب سے بڑی شوگر مل ہے۔ رمضان انرجی لمیٹڈ۔ شریف ایگری فارمز۔ شریف پولٹری فارمز۔ شریف ڈیری فارمز۔ شریف فیڈ ملز۔ رمضان شوگر کین ڈیویلپمنٹ فارم۔ مہران رمضان ٹیکسٹائلز۔ رمضان ٹرانسپورٹ۔ رمضان بخش ٹیکسٹائل ملز۔ محمد بخش ٹیکسٹائل ملز۔ حمزہ سپننگ ملز۔ چودھری شوگر ملز۔ اتفاق فاونڈری پرائیویٹ لمیٹڈ۔ حدیبیہ انجینئرنگ۔ خالد سراج انڈسٹریز۔ علی ہارون ٹیکسٹائل ملز۔ حنیف سراج ٹیکسٹائل ملز۔ فاروق برکت پرائیویٹ لمیٹد۔ عبدالعزیز ٹیکسٹائل ملز۔ برکت ٹیکسٹائل ملز۔ صاندل بار ٹیکسٹائل ملز۔ حسیب وقاص رائس ملز۔ سردار بورڈ اینڈ پیپر ملز۔ ماڈل ٹریڈنگ ھاوس پرائیویٹ لمیٹڈ۔ حسیب وقاص گروپ۔ حسیب وقاص شوگر ملز۔ حسیب وقاص انجنئیرنگ۔ حسیب وقاص فارمز لمیٹڈ۔ حسیب وقاص رائس ملز۔ حمزہ بورڈملز۔ اتفاق برادرز پرائیویٹ لمیٹڈ۔ الیاس انٹرپرائزز۔ حدیبیہ پیپر ملز۔ اتفاق شوگر ملز۔ برادرز سٹیل ملز۔ برادر ٹیکسٹائل ملز۔ اتفاق ٹیکسٹائل یونٹس۔ خالد سراج ٹیکسٹائل ملز۔ یو اے ای میں ایک سٹیل مل۔ سعودی عرب اور جدہ کی سٹیل ملز سے آپ واقف ہیں۔ دبئی میں وہ اپنے ہی بیٹے کی کمپنی میں ملازم ہیں۔ انکی ایک شوگر مل کینیا میں ہے۔ نیوزی لینڈ کی سرکاری سٹیل کمپنی کے 49 فیصد شیئرز نواز شریف کے نام ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے مبشر لقمان نے انکشاف کیا کہ محمد منشاء کی ملیکت کئی کمپنیاں دراصل نواز شریف کی ہیں اور محمد منشاء انکے فرنٹ مین ہیں۔ یہ کمپنیاں نجکاری کے ذریعے خریدی گئیں۔ ان میں پاکستان میں تیل سے بجلی بنانے والی آئی پی پیز جن کو نواز شریف نے آتے ہی 400 ارب روپے یا 4000 ملین ڈالر ادا کیے تھے۔
ایم سی بی بینک۔ ملت ٹریکٹرز۔ ڈی جی خان سیمنٹ نمایاں ہیں۔ لندن پارک لین کے 4 فلیٹس جن کی ملکیت سے 25 سال تک انکار کرتے رہے اور آج اقرار کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ لندن میں الفورڈ میں واقع 33 اور 25 منزلہ پوائنیر پوائنٹ کے نام سے دو ٹاورز جنکی مالیت کئی سو ملین پاؤنڈ بتائی جاتی ہے۔ ہائیڈ پارک لندن میں دنیا کے مہنگے ترین فلیٹس میں سے دو فلیٹ جنکی مجموعی مالیت 150 ملین پاؤنڈ کے قریب ہے۔ لندن کے مشرقی علاقے میں 340 مختلف پراپرٹیز۔ تین فلیٹس 17 ایون فیلڈ ہاؤس۔ پارک لین جسکی مالیت 12 ملین پاؤنڈ ہے۔ فلیٹ نمبر 8 بور ووڈ پیلس لندن ڈبلیو 2 مالیت 7 لاکھ پاؤنڈ۔ فلیٹ نمبر 9 بور ووڈ پیلس لندن ڈبلیو 2 مالیت 9 لاکھ پاؤنڈ۔ 10 ڈیوک مینش، ڈیوک سٹریٹ لندن ڈبلیو 1، مالیت 1.5 ملین پاؤنڈ۔ فلیٹ نمبر 12 اے، 118 پارک لین میفئیر، لندن ایس ڈبلیو 1 مالیت 5 لاکھ پاؤنڈ۔ فلیٹ نمبر 2، 36 گرین سٹریٹ، لندن ڈبلیو 1 مالیت 8 لاکھ پاؤنڈ۔ 11 گلوسٹر پیلس، لندن ڈبلیو ون، مالیت انمول۔ ان کے علاوہ عین بکنگھم پیلس کے قریب جائداد جسکی مالیت 4.5 ملین پاؤنڈ ہے۔ 148 نیل گوین ہاؤس سلون ایونیو میں فلیگ شپ کمپنی کے سیکرٹری مسٹر وقار احمد رہائش پذیر ہیں وہ بھی انہی کی ملکیت ہے۔ سنٹرل لندن کے آس پاس 80 ملین پاؤنڈ کی جائدادیں۔ کچھ عرصہ پہلے حسین نواز نے لندن رئیل اسٹیٹ میں ایک ہی وقت میں 1.2 ارب ڈالر یا 1200 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔ اس کا چرچا پاکستانی میڈیا پر بھی ہوا تھا، گوگل میں جس کا حوالہ موجود ہے۔ جس نون لیگی کو نوٹس بھیجنا ہو، اس پتے پر بھیج دے۔
Dr Mushtaq Ahmad Residence
Maria-17 Ruedes rivieres- St Didier ahu Mt d'or Rhone, France
ساری بات ترجیحات کی ہوتی ہے۔ ترجیحات ہی اگر درست نہ ہوں تو نتیجہ معلوم۔ سعدی کے ایک شعر کا ترجمہ یہ ہے: اے حجازِ مقدس کے عازم جس راہ پہ تو گامزن ہے، حرمِ پاک نہیں، وہ ترکستان جاتاہے۔