سوال کرنا پڑتا ہے، جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے
اطلاعات کا بے ہنگم طوفان نہیں، آدمی کو حکمت درکار ہے اور حکمت بازار میں نہیں بکتی۔ علم سے پھوٹتی ہے، تربیت سے صیقل ہوتی ہے۔ سوال کرنا پڑتا ہے، جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے۔
گاڑیوں کی قطار رینگتی رہی، حتیٰ کہ پاکستانی کرنل ایک ذرا سا مضطرب ہوا۔ ایک مطالعاتی دورے پر وہ جرمنی آیا تھا۔ دروازہ کھول کر اس نے نظر دوڑائی۔ بائیں ہاتھ اتنی بہت سی جگہ خالی تھی۔ میزبان سے اس نے پوچھا: موقع سے فائدہ اٹھانے میں حرج کیا ہے؟ ایسا نہیں کہ حد سے زیادہ وہ بے چین تھا اور ایسا نہیں کہ مہمان کی حیثیت سے آداب کا اسے خیال نہ تھا۔ ہاں مگر اس میں تجسس تھا۔ وہ ہمیشہ سوال کرتا اور ہمیشہ سیکھنے کی کوشش میں لگا رہتا۔
1989ء میں، جب وہ محض ایک لیفٹیننٹ تھا، اپنے ایک سوال سے اس نے ایسا ہنگامہ اٹھایا کہ افواج پاکستان میں مدتوں اس کے چرچے رہے۔ 17 اگست1988ء کا سانحہ رونما ہونے کے بعد جنرل مرزا اسلم بیگ پاک فوج کے سپہ سالار تھے۔ پیشہ ورانہ اعتبار سے معمولی مگر غیر معمولی فصاحت و بلاغت کے اس آدمی کو اب ملک بھر کے فوجی افسروں پر اپنی ذہانت کا سکّہ جمانا تھا؛ چنانچہ دور دراز کے اس شہر میں بھی وہ آن وارد ہوا۔ اہلِ اختیار کے سامنے ایسے کسی بھی سوال سے گریز کیا جاتا ہے، جو انہیں خوش نہ آئے۔ پاکستانی فوج بھی کوئی استثنیٰ نہیں ؛ اگرچہ ملک کا وہ جدید ترین ادارہ ہے؛ اگرچہ اس میں مشاورت کا عمل سول اداروں سے بہتر ہے؛ اگرچہ اس کے افسروں میں قیادت کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے کچھ آزادی عمل اور آزادی فکر انہیں دی بھی جاتی ہے۔ وہ مگر اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ اپنے کمانڈروں ؛ حتیٰ کہ چیف آف آرمی سٹاف سے وہ سوال کر سکتے ہیں۔ ہاں مگر "گستاخی" کا کوئی پہلو نہ نکلے۔ ہاں مگر ماحول تلخ نہ ہونے پائے۔ بے شک اس قدر "پولی پولی" گیندیں تو نہ ہونی چاہئیں، جیسی باغِ جناح میں وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے ہوا کرتیں مگر باؤنسر بھی نہیں۔
نئے نویلے دیہاتی لیفٹیننٹ نے، جس کی تراش خراش ابھی ہونا تھی، اپنا ہاتھ بلند کیا۔ چیف آف آرمی سٹاف سے پوچھا کہ 17 اگست 1988ء کے سانحے کی تحقیقات کیوں نہ ہو سکیں؟ جس میں پاک فوج کا سربراہ ہی نہیں، آرمی کے بہترین افسر بھی مارے گئے۔ اس حادثے کو ہم نے ہضم کر لیا تو آئندہ بھی بہت کچھ ہضم کرنا پڑے گا۔ اس سوال کا جواب جنرل کیا دیتا مگر کہانی اس نے کہی۔ جواز اس نے تراشے اور چلتا بنا۔
سوال کا دامن جواں سال افسر نے تھامے رکھا اور نئے آفاق اس پہ روشن ہوتے چلے گئے۔ اس نے جان لیا کہ زندگی کا سب سے اہم وظیفہ دیانت دارانہ غوروفکر ہے۔ سچائی کی تلاش۔ کبھی کبھی اس کے پاس میں جاتا ہوں، ادراک کا آئینہ جب دھندلا ہونے لگے۔ ابتدا میں انحراف ہمیشہ علمی ہوتا ہے۔ تجزیہ غلط ہو جائے تو اعمال کیسے خالص رہ سکتے ہیں؟ اکثر اسی نکتے کو ہم نظر انداز کرتے ہیں، پھر بھٹکتے اور خود رحمی کا شکار ہوتے ہیں۔ اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب خود میں نے کیا ہے کہ عمر بھر اس کا ملال رہے گا۔ اللہ کو منظور ہوا اور زندگی نے مہلت دی تو انشاء اللہ اس حماقت کی روداد میں لکھ ڈالوں گا۔
جرمن میزبان کا جواب حیران کن تھا۔ ڈرائیور سے اگر کہا بھی جائے تو وہ ایسا نہ کرے گا۔ تفصیل اور بھی ششدر کر دینے والی تھی۔ جرمن فوج ہی نہیں، کسی نجی ادارے میں کام کرنے والے ڈرائیور، حتیٰ کہ ذاتی گاڑی چلانے والے کو بھی تین سال کا ڈپلومہ کرنا پڑتا ہے۔ ڈرائیور اگر خلاف ورزی کا مرتکب ہو تو سال بھر کے لیے، ممکن ہے دو برس کے لیے لائسنس منسوخ ہو جائے۔ صرف ڈرائیور ہی نہیں، باورچی اور پلمبر کو بھی۔ چھوٹی سے چھوٹی کوئی ملازمت بھی اس کے بغیر مل نہیں سکتی۔
کرنل نے ایک اور سوال پوچھا: اس میں کیا بھید ہے کہ دنیا کی دس بہترین گاڑیوں میں سے سات جرمن ہیں۔ جواب یہ تھا:We do it right first time.۔ ہم بنیاد ٹھیک رکھتے ہیں۔ پہلے ہی مشاورت، پہلے ہی موزوں افراد کا انتخاب۔ پہلے ہی مکمل منصوبہ بندی۔ پاکستانی معاشرہ سائنسی اندازِ فکر سے محروم ہے۔ تعصبات اور جذبات کا غلبہ اس قدر ہے کہ کبھی نفرت چھا جاتی ہے اور کبھی محبت۔ فخرِ ایشیا، قائدِ عوام، ذوالفقار علی بھٹو عظیم ترین رہنما تھے، گویا انسانی تاریخ کا آغاز ہی انہی سے ہوتا ہے۔ ان کے مدّاح سے عرض کیجیے کہ بے شک مقبول وہ بہت تھے۔ بجا کہ ملک کو انہوں نے دستور عطا کیا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی۔ جذباتی توازن سے مگر وہ محروم تھے اور پرلے درجے کے منتقم مزاج۔
اپنی پارٹی کے سیکرٹری جنرل جے اے رحیم کو پٹوایا۔ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے رکنِ اسمبلی ملک سلیمان اور ان کے خاندان کی تذلیل کی۔ اپنے وزیرِ اعلیٰ حنیف رامے کو شاہی قلعے میں قید رکھا۔ پارٹی کے ایک دوسرے لیڈر احمد رضا قصوری پر ایک سے زیادہ قاتلانہ حملے کرائے... اور آخری حملے میں ان کے والد مارے گئے۔ کوئی نہیں سنتا، کوئی نہیں مانتا۔ رہے مخالفین تو ان کا حال یہ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی والدہ مرحومہ کی کردار کشی کی؛ حالانکہ وہ ایک نیک طینت خاتون تھیں۔ ایک نو مسلم، جس کا دل دوسروں کے لیے دھڑکتا تھا۔ بھٹو خاندان نے کبھی اسے قبول نہ کیا کہ جاگیردارانہ اطوار سے وہ ناآشنا تھیں۔
ہم ایک شخصیت پرست قوم ہیں۔ پندرہ برس تک ایک سیاستدان کی حمایت کر کے زخم کھایا۔ سیکھا یہ ہے کہ ابدیت سفر کو ہوتی ہے، مسافر کو نہیں۔ اہمیت افراد نہیں، اصولوں کی ہوا کرتی ہے۔ اپنی غلطی کا ادراک کرنے کے بعد، توازن اختیار کرنے کی کوشش کی۔ دل کا بوجھ اتر گیا؛ اگرچہ طعنوں کی زد میں رہتا ہوں۔ اگر میں خوئے انتقام کا شکار ہو رہوں تو یہ سکون کبھی نصیب نہ ہو۔ غلطی کا ہمیشہ احتمال رہتا ہے۔ حل آسان ہے، خطا سرزد ہو جائے تو آدمی تسلیم کر لے۔ علی الاعلان تسلیم کرے اور اعادہ کرنے سے گریز کرے۔ درویش نے یہ کہا تھا: فطرت سے آدمی جتنا دور ہو گا، اتنا ہی مضطرب اور جتنا قریب، اس کی شخصیت میں اتنا ہی آہنگ جنم لے گا۔ یہ آہنگ بڑھتا جائے گا؛ حتیٰ کہ وہ مرحلہ آ سکتا ہے، جس کے بارے میں قرآنِ کریم یہ کہتا ہے "لا خوف علیھم و لا ھم یحزنون" غم اور خوف سے آدمی آزاد کر دیا جائے گا۔ مسلم برصغیر کی تاریخ میں محمد علی جناح اس کی بہترین مثال تھے۔ جذباتی توازن کا ایک نادر نمونہ۔
جرمنی کی مثال، ایک ترقی یافتہ ملک کی مرعوب کر دینے والی مثال ہے۔ فوجی افسر نے مجھے ایک چھوٹے سے افریقی ملک کے بارے میں بھی بتایا... کانگو، کہا: خواہ جنگل میں ادھورے لباس کا کوئی نیم خواندہ سا آدمی اتفاقاً آپ کو مل جائے، پوری توجہ سے آپ کی بات وہ سنے گا۔ اس دوران ہرگز وہ مداخلت نہ کرے گا۔ جب آپ مکمل کر چکیں تو وہ آپ کا شکریہ ادا کرے گا کہ اسے توجہ اور مکالمے کا مستحق آپ نے سمجھا۔ پھر اپنی رائے سے آپ کو آگاہ کرے گا اور پورا امکان یہ ہو گا کہ قطعاً وہ آپ سے اتفاق نہ کرے۔
نکتہ کیا ہے؟ میں نے سوال کیا۔ کہا: ہماری توجہ اگر کچھ ہے بھی تو تعلیم پر۔ تربیت کو لوگ بھول ہی گئے۔ معلومات نہیں، علم۔ وہ انہماک اور غوروفکر، رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے جو دانش و دانائی تک لے جاتا ہے۔ اطلاعات کا بے ہنگم طوفان نہیں، آدمی کو حکمت درکار ہے اور حکمت بازار میں نہیں بکتی۔ علم سے پھوٹتی ہے، تربیت سے صیقل ہوتی ہے۔ سوال کرنا پڑتا ہے، جواب ڈھونڈنا پڑتا ہے۔