پوری کہانی پھر کبھی
با ت ادھوری رہ جاتی ہے۔ پوری کہانی پھر کبھی
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون
معلومات اب کہاں سے ملیں، وہ تفصیلات، جن کے بنا تحریر تشنہ رہے۔ وہ دونوں آدمی اب اس دنیا میں نہیں۔ کب ان سے ملاقات ہوگی؟ پہاڑ جب ریت بن کر بکھر جائیں گے۔ آفتاب بجھا دیا جائے گا اور چاند بھی۔
ناصر درانی سے تو ملاقات رہی؛اگرچہ اڑھائی برس سے اپنا موبائل انہوں نے بند کئے رکھا لیکن دستگیر صاحب؟ اچانک پروفیسر احمد رفیق اختر بولے: دو دن پہلے میرے بھائی کا انتقال ہو گیا۔ پرسوں فون پر ان سے بات ہوئی۔ اشارہ تک نہ کیا۔ وہ متین اور باوقار چہرہ، ذہن کی لوح پر ابھرا، اداس چہرہ!
"دو برس وہ مجھ سے بڑے تھے، میرے ہم جولی" انہوں نے کہا: ایک ساتھ کھیلے کودے، ایک ساتھ سکول میں پڑھے اور ایک ساتھ لاہور گئے۔ میں گورنمنٹ کالج میں اور وہ قانون کا امتحان پاس کرنے میں جت گئے۔
مہینے میں دو ایک بار ان سے ملاقات ہوتی۔ اسی کمرے میں، جس پہ کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ ایسی کتاب کہ ایک لمحے کو بھی قاری بوریت کی شکایت نہ کرے۔"لکھنے اور بولنے والے کو کوئی حق نہیں کہ کسی کو اکتاہٹ کا شکار کرے" تین برس ہوتے ہیں، انہوں نے کہا تھا۔"جس دن میں لکنت کا شکار ہوا، لیکچر دینا چھوڑ دوں گا۔" اسّی برس کے ہو گئے۔ سیکڑوں نہیں تو درجنوں کی کتھا روز سنتے اور وہ گرہیں کھولتے ہیں، کوئی دوسرا جو نہیں کھول سکتا۔ اب تک دریا کی سی روانی ہے۔ پھر وہ مسکرائے او رکہا: میں نے پڑھا ہے کہ اسّی برس کے بعد آزمائش اٹھا لی جاتی ہے" ایک لمحے کو رکے اور اضافہ کیا "سکرات تک، نہیں سکرات تک"پھر اپنے عم زاد کے رخصت ہونے کا منظر بیان کیا۔ ہمیشہ سچ بولنے والے آدمی کے لہجے میں یوں بھی ایک عجب تاثیر ہوتی ہے۔ بہار کی تازہ ہوا کی طرح۔
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے
ایسا قراراس کمرے میں تھا کہ رات یہیں بتانے کو جی چاہا۔ ایسا سکون جو ہمیشہ سے تھا اور شاید ہمیشہ رہے گا۔ بلال الرشید نے کہا: جانا چاہئیے۔ بے قراری اس کی قابلِ فہم تھی۔ اسے ایک فرض ادا کرنا تھا۔ طبیعت مگر کسی طرح آمادہ نہ ہوئی۔ مشہور ڈاکٹر ز ہسپتال والے ڈاکٹر محمد سرور کے صاحبزادے استاد سے اپنی کتھا کہتے رہے۔ میں اپنے خیال میں گم کہ جانا چاہئیے مگر جا نہیں سکتا۔ یہ جنت نظیر لمحات قربان کیسے کیے جائیں؟ آخر کار اس سے کہا: تم چلے جاؤ۔ حیرت سے اس نے کہا: پھر آپ کیا کریں گے؟ "کوئی نہ کوئی مجھے گھر پہنچا دے گا"
"جب وفات کا وقت آیا تو انہوں نے کہا "راہ چھوڑ دو، انہیں آنے دو۔ کس کو؟ " کسی نے سوال نہ کیا۔ ظاہر ہے کہ اجل کے فرشتوں کو۔ جانے والے کا لہجہ آسودہ تھا، جیسا کہ ہمیشہ ہوا کرتا۔"وہ ایک اچھے آدمی تھے" میں نے کہا۔"ہاں " استاد نے کہا "بحیثیتِ مجموعی" فقیر کی عجیب تر عادات میں سے ایک یہ ہے کہ ہاتھ میں پکڑا ترازو کبھی وہ زمین پر نہیں رکھتے۔ ساٹھ برس سے یہ ترازو ان کے ہاتھ میں ہے اور یہ ہاتھ کبھی تھکتا نہیں۔
خاموش آدمی، دستگیر مرحوم ایک خاموش آدمی تھے۔ تین ساڑھے تین گھنٹے کی محفل میں ایک آدھ جملہ ہی ارزاں کرتے وہ بھی خودکلامی کے انداز میں، بے ضرر سا، گرد و پیش سے بے نیاز مرد بزرگ کے چہرے پہ لکھا رہتا: اپنی تگ و تاز میں کر چکا، اب محض تماشائی ہوں۔ سفر تمام ہوا، انتظار باقی ہے۔ ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد انہوں نے وکالت کی اور پھر امریکہ چلے گئے۔ اسی ہنر سے وابستہ۔"وہ مجھے یاد آتے ہیں " لہجے میں دکھ تھا۔ ایسے آدمی کا قلق، جس کی مسرت کبھی قہقہہ نہیں برساتی اور جس کا الم روتا کبھی نہیں۔ جس کی کائنات اس کے قلب میں آباد رہتی ہے۔ اپنے درد کی حکایت جو کبھی نہیں کہتا۔ اپنی کامرانی کی کہانی کبھی نہیں سناتا۔ ہمیشہ جو ایک طالبِ علم تھا اور ہمیشہ طلبِ علم میں رہے گا۔
ابھی کچھ دیر پہلے مشہور ڈاکٹرز ہسپتال کے ڈاکٹر سرور سے اس پر وہ بات کر رہے تھے کہ اگر ایک سے زیادہ ویکسین ملا کر لگائی جائیں تو کیا یہ زیادہ اثر انگیز ہوں گی؟ سیکھتے رہنے کے آرزومند کسی بھی آدمی کی زندگی میں بہار کا موسم دائمی ہوتاہے۔ ہر سویر شبنم گرتی ہے، ہر روز پھول کھلتے ہیں۔ ہر شام شاخیں لہلہاتی ہیں۔ برسوں پہلے ایک متجسس طالبِ علم سے انہوں نے کہا تھا:Pleasure of knowing، نشاطِ ادراک، کاش لوگ سمجھ سکیں کہ کیسی مستقل نوید اس عمل میں کارفرما رہتی ہے۔
پروفیسر صاحب کا طویل قامت عم زاد دروازے پر آن کھڑا ہوا اور کھڑا رہا۔ اسے کچھ قرض وصول کرنا تھا۔ چمکتی ہوئی آنکھوں سے، استفہامیہ انداز میں وہ میری طرف دیکھتا رہا۔ جی اب شاداب اور سیراب تھا، شوخی پر آمادہ۔ اس سے کہا: لداخ کے برف زاروں سے آپ کے آباؤ اجداد ٹھنڈ سے نجات کی خاطر نہیں بلکہ بکروں کے ریوڑ تمام کرنے میدانوں میں اترے تھے۔ قدیم عربوں کی طرح، کشمیری اور پشتون گوشت خوری پہ تلے رہتے ہیں۔ روزِ حساب یہ ریوڑ تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔ ایک معصوم سی ہنسی وہ ہنسا، شوخی اگرچہ آنکھوں میں جاگتی رہی۔ وہ جانتا ہے کہ ایسے میں سکوت ہی کارگر ہوتاہے۔ میری طرف متوجہ ہوئے بغیر استاد نے کہا "دراصل شادیاں رچانے کے لیے۔" انگریز مورخ کہتے ہیں کہ تاجروں کے اس قبیلے میں خواتین کی تعداد بہت کم تھی۔ پھر انہوں نے یاد دلایا کہ بالطشطنر کے زمانے میں سرزمینِ شام سے اس قبیلے نے لدّاخ کی راہ لی تھی۔ وہی بالطشطنر، حضرت دانیالؑ نے جس سے کہا تھا "عالمِ خواب میں دیوار پہ لکھا ہوا تو نے دیکھا "تجھے تولا گیا اور تو کم نکلا" پشتونوں کے بارھویں قبیلے نے بھی اسی ہنگام ہجرت کی تھی۔ کچھ ایران کے شہر اصفہان میں بس گئے۔ کچھ خراسان کے پہاڑوں میں، 2700برس بعد جو افغانستان کہلایا۔ کچھ وادیء کشمیر میں جا بسے۔
ابو ریحان البیرونی کی"کتاب الہند"کا انہوں نے حوالہ دیا۔ کوئی بات اس آدمی کو بھولتی نہیں۔ اپنا ترازو وہ کبھی فرش پہ رکھتا ہی نہیں۔ سیاہ بادل گھر کر آئے۔ دستگیر مرحوم کے لیے دل میں اداسی اترنے لگی۔ برف سی گرتی رہی۔ بارش سی برستی رہی۔
اور وہ عجیب آدمی ناصر درانی۔ ایسا با وفا، ایسا خالص، ایسا بے ریا۔ تیس برس پہلے وہ اس کمرے میں آیا تھا اور اپنا راستہ چن لیا تھا۔ انہی دنوں، جب ممتاز مفتی یہاں آیاکرتے۔ کیسے کیسے لو گ یہاں اترتے رہے۔ کیسے کیسے لوگ اب بھی اترتے ہیں۔ دریاکا گھاٹ ہے، سمندر کا کنارا۔ دائم یہ قلق دل میں رہے گا کہ چپ کا روزہ ناصر درانی نے دراز کیوں رکھا؟ با ت ادھوری رہ جاتی ہے۔ پوری کہانی پھر کبھی
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون