مرحوم
اب یہ پتھر دلوں کی دنیا ہے۔ چیخنے چلانے اور دشنام طرازی کرنے والوں کی۔ اب اس میں کیا رکھا ہے؟ ٹی وی پروگرام کے لئے بعض اوقات بہت درد سری ہوتی ہے۔ خاص طور پر ایک مشکل دن میں، جب موضوعات زیادہ ہوں۔
اپوزیشن کا جلسہ تھا۔ ٹی وی خراب، میاں محمد نواز شریف کی والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا۔ تدفین کے لئے میاں صاحب پاکستان آئیں گے یا نہیں؟ اتنے میں خبر آئی کہ رخصت ہونے سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران کو سبق سکھانے کے آرزو مند ہیں۔ اتنی بڑی خبر اور تصدیق کا کوئی طریق نہیں۔ برادرم اسحق خاکوانی نے اطلاع دی کہ الجزیرہ ٹی وی نے اس پر ادھوری سی خبر دی ہے طبیعت ناساز، یا اللہ کیا کروں؟ اتنے میں چوہدری انور عزیز کے انتقال کی خبر آئی۔ اچانک جب ایسا ہوتا ہے تو ہوش و حواس مدد نہیں کرتے۔
ہوش و حواس وتاب و تواں داغ ؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
برادرم اسلم خان کو فون کیا کہ برسوں سے ان کے ساتھ تھے۔ اپنا حال تو یہ ہے کہ بہت ضروری کاموں کے سوا شام کو گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ جمعرات کا دن اسلام آباد سے لاہور اور سوموار لاہور سے اسلام آباد کے سفر میں بیت جاتا ہے۔
1993ء کی بات ہے۔ میرے چھوٹے بھائی محمد زبیر انتقال کر گئے۔ سرما کے دن تھے، طبیعت کسی طرح قرار نہ پاتی تھی۔ کسی اخبار سے ان دنوں وابستہ نہ تھا۔ تنہائی اور فرشتہ سیرت عزیز بھائی کی موت کا غم۔ کچھ سجھائی نہ دیتا تھا۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی۔ گھر کو دیکھ کر دشت یاد آتا اور دشت کو دیکھ کر گھر۔ کچھ وقت پروفیسر خورشید احمد کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز میں بیت جاتا۔ وہاں ہجوم اور ہجوم میں تنہائی۔
انہی دنوں لاہور آنا ہوا تو قاضی حسین احمد نے یاد کیا۔ کھانے کی میز پر ان کے ساتھ تھا۔ کسی نے مرحوم کے کان میں سرگوشی کی۔ وہ کچھ پریشان سے ہو گئے۔ تفصیل پوچھی، مختصر سی روداد بیان کی۔ پوری بات کہنے کا یارا نہ تھا کہ داستان بہت دردناک تھی۔ زندگی نے وفا کی اور لکھ سکا تو یہ کہانی لکھوں گا۔ ستائیس برس بیت چکے۔ اب تک عالم یہ ہے کہ سرما کا آغاز ہوتا ہے تو مرنے والے کی یاد آتی ہے، خود پہ قابو نہیں رہتا:
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لئے چلتی ہے
جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں
کبھی غالبؔ یاد آتے ہیں:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
تم کون سے تھے ایسے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملک الموت تقاضا کوئی دن اور
ملال کے ساتھ قاضی صاحب نے کہا:ہماری زندگی ایسی ہو گئی کہ رنج اور خوشی کا احساس ہی جاتا رہا۔ ان دنوں اپنا حال بھی کم و بیش یہی ہے۔ صحافت کے کمبل سے جان چھڑانا چاہتا ہوں مگر اب کمبل نہیں چھوڑتا۔ کس محبت سے اس گلستاں میں قدم رکھا تھا اور اب یہ ایک جنگل، راستہ جس میں سجھائی نہیں دیتا۔ شب کسی طرح خود سنبھالے رکھا۔ سو کر اٹھا ہوں تو بیتے دنوں کی یادیں یلغار کرتی چلی آتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا، بہت دن سے اب ملاقات نہیں تھی کہ بیشتر وقت مسافت میں بیت جاتا۔ دانیال صاحب کا فون نمبر تھا نہیں، ہوتا بھی تو ان سے کیا کہتا۔ اسلم خان سے تعزیت کی اور عرض کیا کہ آخری برسوں کے بارے میں کچھ بتائیں۔ ظاہر ہے کہ وہ خود بھی صدمے کی حالت میں۔ کہا: ایک طویل عرصہ آپ نے ان کے ساتھ بسر کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ان کے بارے میں بات کرنے کے زیادہ اہل ہیں۔ ان سے میں کیا عرض کرتا۔
چوہدری ایسا منفرد آدمی زندگی بھر نہیں دیکھا۔ ایسا انکسار، ایسی تواضع اور ایسا صبر و ضبط۔ ملک کے شاید واحد سیاستدان جو ساٹھ یا پینسٹھ برس کی عمر میں سیاست سے الگ ہو گئے اور میراث صاحبزادے کو سونپ دی۔ اسلم خان نے کہا! اپنی صاحبزادی کرن عزیز چوہدری کی وفات نے انہیں توڑ ڈالا۔ وہ تیل کی معیشت Oil Economyکی بین الاقوامی ماہر تھیں۔ آکسفرڈ یونیورسٹی کی پروفیسر ایمریطس۔ صدام حسین سے بات چیت کے لئے صدر بش نے جو آخری وفد بھیجا تھا، اس میں وہ شامل تھیں۔ دل کا دورہ پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے چلی گئیں۔
دماغ سے زیادہ چوہدری صاحب دل کے آدمی تھے۔ طرح دار اور اپنے مزاج میں یکتا۔ ان ارکان اسمبلی میں وہ شامل تھے، ملک معراج خالد کے ہمراہ جنہوں نے فیلڈ مارشل ایوب خاں سے برملا اختلاف کیا۔ 1970ء کا الیکشن وہ ہار گئے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کا طوفان تھا۔ چند ماہ بعد وزیر اعظم بھٹو سے ملاقات ہوئی۔ جیسا کہ موصوف کا مزاج تھا، چھوٹتے ہی کہا: تو آپ وہ ہیں، جو ملک سلیمان سے ہار گئے۔ چوہدری صاحب شائستہ بہت تھے مگر بے ساختہ اور کبھی بے باک بھی۔ بولے:بھٹو صاحب میں آپ سے ہار گیا۔ ملک سلیمان کے بس کا میں نہیں تھا۔ ملک سلیمان وہی ہیں، بعدازاں قائد عوام نے جسے تھانے میں بلوا کر کے رسوا کیا اور جہاں تک یاد پڑتا ہے، بیوی بچوں کے ساتھ۔ کوئی بات ان کی ناگوار گزری تھی۔
وزیر اعظم کو چوہدری صاحب کی بات اس قدر خوش آئی کہ انہیں پنجاب میں ایک ادارے کی ذمہ داری سونپ دی۔ پھر وہ ان کے ساتھ رہے، حتیٰ کہ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن آن پہنچے اس میں حصہ لیا اور فاتح رہے، لیکن جلد ہی صاحبزادے کے حق میں دستبردار ہو گئے۔ لیڈری کیلئے جو بیتاب تھا۔ ایک باصلاحیت، سرگرم اور متحرک آدمی مگر اپنے والد سے بالکل مختلف۔ اپنے والد کے دوستوں کا اکرام مگر ملحوظ رکھتے۔ چوہدری صاحب شریف خاندان سے بیزار تھے۔ دانیال ان سے جا ملے اور اس قدر کہ گویا ہمیشہ سے انہی کا حصہ ہیں۔ پدر جذبات کی تربیت اور تہذیب میں جتا رہنے والا آدمی تھا۔ پسر اپنی امنگوں کے اظہار میں بے تاب۔
محمد خان جونیجو کے وزیر تھے کہ بے قاعدگی کا الزام لگا اور وہ کابینہ سے الگ ہو گئے۔ کہنے والوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے۔ شاعر نے کہا تھا:
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہرتو کہنے کو فسانے مانگے
چوہدری صاحب سرتاپا اثبات تھے، طنزکرنے والوں کے باب میں خاموش رہتے۔ گاہے پلٹ کر بھی نہ دیکھتے۔ صبر ایسا تھا کہ سبحان اللہ۔ ربع صدی ہوتی ہے، مجیب الرحمن شامی کے ہاں جانا تھا۔ بولے: میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ڈرائینگ روم میں دیر تک ہم انتظار کرتے رہے۔ فطری طور پر یہ نیاز مند مضطرب تھا اور سخت مضطرب۔ شامی صاحب نمودار ہوئے تو حسب عادت ہنستے ہوئے بولے: آپ قلم کی نذر ہو گئے۔ میں کالم لکھ رہا تھا۔ چوہدری صاحب کے ماتھے پر شکن تک نہ ابھری۔ بعد میں بھی رویہ یہی رہا۔ ذکر تک نہ کیا۔ 1983ء میں ایم آر ڈی کی احتجاجی تحریک کے دن تھے۔ ایک مجلس میں کسی نے کہا: جنرل محمد ضیاء الحق ایک کرپٹ حکمران ہیں۔ بولے: اور سینکڑوں خرابیاں ہوں گی، کرپٹ ہرگز نہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گئے ہم تو ایک واقعہ کا سراغ بھی نہ لگا سکے۔ ایک مربی اور محسن کی وفات کے فوراً بعد آدمی کیا لکھ سکتا ہے؟ یادیں ہیں کہ ہجوم کرتی چلی آتی ہیں۔ دل مگر ٹھکانے پر نہیں۔ ایک عالی دماغ تھا نہ رہا۔ نوابزادہ نصراللہ مرحوم کا شعر ہے:
یوں تو محفل سے تری اٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا، وہ بھی نہ رہا، کہتے ہیں
اب یہ پتھر دلوں کی دنیا ہے۔ چیخنے چلانے اور دشنام طرازی کرنے والوں کی۔ اب اس میں کیا رکھا ہے؟