جمہوریت
صوفی تو کیا، شاعر وہ باکمال تھا، حسین بن منصور حلّاج۔ اس نے کہا تھا: میں ان کے لیے روتا ہوں، جو چلے گئے اور ان کے لیے جو راستوں میں سرگرداں ہیں۔
یہ عبارت اس حال میں لکھی جا رہی ہے کہ پروفیسر احمد رفیق اختر پندرہ بیس سامعین کے مقابل موتی رول رہے ہیں۔ انہوں نے طلب کیا تھااور اصرار کے ساتھ، لیکن اب کچھ انتظار کرنا ہوگا۔ ایسا ہی ایک تجربہ تہران میں کیا تھا۔ 2013ء کے موسمِ بہار میں۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر آموختہ دہراتے رہے اور میں ان کے سامنے بیٹھا خامہ فرسائی کرتا رہا۔ میرے ساتھی اخبار نویس یہ سمجھے کہ میں ان کے فرمودات لکھ رہا ہوں۔ نوروز کا جشن ابھی ابھی تمام ہوا تھا اور ہوائیں شہر کے کوچہ و بازار میں، چشموں اور چنار کے درختوں تلے کہانیاں کہاکرتیں۔ پہلی بار منکشف ہوا کہ موسمِ گل کا مطلب کیا ہے۔ حافظِ شیراز کی شاعری کا ایک اور پہلو بے نقاب ہوا۔
اقبالؔ نے حافظؔ کو مسترد کر دیا تھااور اگرچہ اپنے عالی قدر والد کی محبت میں حافظؔ کے خلاف لکھے بعض اشعار حذف کر دئیے، اپنے موقف پہ حالانکہ انہیں یقین تھا۔ وہ عمل کے علمبردار تھے اور حافظؔ حسنِ فطرت کا اسیر، ایک رند۔ وہ ایک غالب قوم کا شاعراور اقبالؔ زخموں سے چور چور ملّت کا نوحہ خواں۔ حافظؔ نے کہا: فراغتے و کتابے و گوشہء چمنے۔ اقبالؔ کا عزم یہ تھا۔
میں ظلمتِ شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہوگی آہ میری، نفس مرا شعلہ بار ہو گا
عجیب بات یہ ہے کہ دونوں پر بھید ایک ہی عمر میں کھلا اور ایک ہی طرح۔ حافظ ؔ ایک تْک بند تھا۔ مشاعروں میں، ایرانی جس کا غیر معمولی اہتمام کرتے، سامعین کا حسنِ سماعت حافظ کے لیے برسوں ایک حسرت ہی رہا۔ پھر وہ واقعہ رونما ہوا، جس نے تاریخ کی عظیم ترین شاعری کو جنم دیا۔ بابا کوہی کے مزار پر وہ رویا اور فریاد کرتا رہا: یارب! ایک ذرا سی روانیء طبع کے سوا میں نے تجھ سے کیا مانگا تھا۔ پھر وہ گداز شاعر کو بخشا گیا کہ دائم باقی رہے گا۔
ماقصّہء سکندر و دارا نہ خواندہ ایم
از ما بجز حکایت مہر و وفا مپرس
سکندر و دارا کی داستانوں سے میں واقف نہیں۔ مہر و محبت کی حکایت کے سوا، مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھو۔
کچھ ہیں، جنہوں نے واردات بیان کی اور کچھ ایسے ہو گزرے ہیں، جنہوں نے کہانی کبھی نہ کہی۔ امام غزالیؒ دس برس کے بعد لوٹ کر آئے تو پانچ سو دینار کے جبّے اور عربی گھوڑے کی بجائے، دو دینار کی قمیض پہنے، ایک خچر پہ سوار تھے۔ ہجرت اس حال میں کی تھی کہ استادِ زمانہ تھے۔ گھر سے نکلتے تو دو اڑھائی سو طالبِ علم اور استاد ہم قدم ہوتے۔ واپس آئے تو فقر ہی شعار تھا۔ پہلی بار اپنی کتاب عوامی زبان فارسی میں لکھی... احیاء العلوم... اب اپنے عہد میں اٹھنے والے ہر سوال کا جواب انہوں نے دیا۔ طوس کے ایک چھوٹے سے گھر میں بچوں کو پڑھایا کرتے مگر امام کہلائے۔ آنے والے زمانوں کے امام بھی۔ ماہیتِ قلب پہ کبھی کوئی سوال کرتا تو عربی کا ایک شعر پڑھا کرتے: جو گزر گیا، سو گزر گیا۔ اپنی ذات سے انہیں اب کوئی غرض نہ تھی بلکہ مقصد اولیٰ سے، مالک سے اور مالک کی مخلوق سے۔
طلوع مہر، شگفتہ سحر، سیاہی شب
تیری طلب، تجھے پانے کی آرزو، ترا غم
آخری ایام میں اقبالؔ کی تمنا تھی کہ اپنے قلب و دماغ کی سرگزشت لکھیں۔ لکھ ڈالتے تو دنیا ہمیشہ باقی رہنے والی ایک دستاویز کو دیکھتی مگر وہ سرکارﷺ کی امت، خاص طور پہ مسلم برصغیر کے مستقبل پہ غور وفکر میں غلطاں رہے۔ ایسی برکت اللہ نے انہیں بخشی کہ باید و شاید۔ کبھی کسی شاعر نے کسی سماج کو اس طرح نہ بدلا تھا، جس طرح انہوں نے۔ جوانی میں ایک اور طرح کی شاعری کیا کرتے، پھر ان موضوعات کو اجاگر کیا، جو کبھی شاعری کا عنوان تھے ہی نہیں۔ اوّل وہ داغ ؔ کے شاگرد تھے۔ فارسی اور جدید انگریزی شعرا سے متاثر، مناظرِ فطرت کے مصور۔
اے ہمالہ اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تری پیشانی کو جھک کر آسماں
پھر اس مقام پہ پہنچے کہ خود بھی حیران ہوئے۔
سرود رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سر آمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اب میں زندگی کو الوداع کہتا ہوں۔ فکر مند ہوں کہ نسیمِ حجاز اب آئے گی یا نہیں۔ دوسرا دانائے راز ہندوستان کے بت کدے کو نصیب ہو گا یا نہیں؟
عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات
تا ز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں
زمانوں تک زندگی عبادت گاہوں میں روتی ہے، تب آسمانوں سے ایک رازداں اہلِ زمیں کو نصیب ہوتاہے۔
وجدان کہتاہے اور قرائن یہ بتاتے ہیں کہ کبھی کوئی واقعہ رونما ہوا۔ کسی شب شاعر نے حضورِ پروردگار میں گریہ کیا۔ تب فکر و نظر کے آفاق روشن ہو ئے۔ ایسی روانی کہ کوئی نظیر نہیں ملتی۔ نصف شب کو جاگ اٹھتے، علی بخش کے لیے تالی بجاتے۔ کاغذ اور قلم منگاتے۔ ایک ذرا سے تامّل کے بغیر، اوراق پہ روشنی اترنے لگتی۔ آدمی کا کوئی ہنر ہے اور نہ کامرانی۔ عطا و بخشش ہوتی ہے، عطا و بخشش۔ چرواہے بادشاہ ہو جاتے ہیں بلکہ بادشاہوں سے بڑھ کر۔ عمر فاروقِ اعظم ؓنے کہا تھا: ہم کیاتھے؟ اسلام نے ہمیں عزت بخش دی۔ کہا: اونی چولا پہنے، میں اونٹ چرایا کرتا اور میرا باپ مجھے مارتا کہ سلیقہ نہیں۔ اپنے ایک گورنر کو معزول کرتے ہوئے رنج سے ارشاد کیا تھا: تیری ماں تجھے روئے، وہ تجھے چرواہے کے سوا کیا بناتی۔
آدمی نہیں جانتا اور غور نہیں کرتا۔ راولپنڈی کی ایک محترم خاتون، جو ایک ممتاز کشمیری لیڈر کی خوش دامن ہیں، میاں محمد نواز شریف کے ہاں تشریف لے گئیں۔ وضع داری کا انہوں نے مظاہرہ کیا۔ برائے احترام محترمہ کلثوم نواز اور محترمہ مریم نواز بھی کھانے کی میز پر موجود تھیں۔ اچانک وہ بولے: کشمیریوں کی پوری تاریخ نے مجھ سے بڑا لیڈر پیدا نہیں کیا۔ وہ اکل کھری، بڑبولی خاتون۔ تاب اس میں کہاں تھی۔ بولی: میاں صاحب، آپ کو یہ بات نہ کہنا چاہیے تھی۔ کشمیریوں میں اقبالؔ ہوگزرے ہیں۔
میاں صاحب حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ علم اور ادراک کے بغیر۔ اہلِ علم کی صحبت کبھی نصیب نہ ہوئی۔ کتاب کبھی پڑھی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ ڈاکٹر طاہر القادری، شریف خاندان کی مدد سے جو اجاگر ہوئے۔ سنسنی پھیلانے کا، چندہ جمع کرنے کا فن سیکھا۔ ارب پتی بنے تو شیخ الاسلام ہو گئے اور اب نیلسن منڈیلا کے مقام پر فائز ہونے کے آرزومند ہیں۔ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کبھی ان کے لیے نمونہء عمل تھے، پھر آیت اللہ خمینی اور اب نیلسن منڈیلا۔ ارے بھائی، ہیرو وہ آدمی ہوتاہے، جو خدمت میں یکسو ہو جائے، عظمت کا آرزومند نہیں۔ اہلِ عظمت چیختے کبھی نہیں۔ ہیجان کا شکار نہیں ہوتے۔ سودائے عشق اور ہے، وحشت کچھ اور شےمجنوں کا کوئی دوست فسانہ نگار تھا
فرمایا: اب فیصلہ ہو گا کہ یہ جمہوری ملک ہے یا نہیں؟ اسٹیبلشمنٹ سے آپ کا تنازع اپنی جگہ مگر جمہوریت؟ کیا یہ جمہوری پولیس ہے؟ جمہوری عدالتیں؟ کیا آپ کی جماعت جمہوری ہے؟ لیڈر دیوتا اور بادشاہت خاندانوں کی۔ بلاول زرداری، ذوالفقار علی بھٹو کے مجاور ہیں، اسفند یار باچا خان کے۔ مولانا فضل الرحمٰن مفتی محمود کے وارث، محمود اچکزئی اپنے آبا کے۔ محترمہ مریم نوازعالی جناب کی۔ جنرل پرویز مشرف اپنے انجام کو پہنچے۔ جنابِ زرداری، شریف خاندان اور ان کے بعد عمران خاں چند برسوں میں جا پہنچیں گے۔
صوفی تو کیا، شاعر وہ باکمال تھا، حسین بن منصور حلّاج۔ اس نے کہا تھا: میں ان کے لیے روتا ہوں، جو چلے گئے اور ان کے لیے جو راستوں میں سرگرداں ہیں۔