فیصلے کا وقت آپہنچا
بات چیت یا کچھ اور؟ کپتان کی حکومت کیا امن بحال کرنے میں کامیاب رہے گی؟ اس کا فیصلہ ابھی ہوا جاتا ہے۔ اسی پر اس کے باقی و برقرار رہنے یا فنا ہوجانے کا انحصار ہے۔
اونٹ کی ایک رسّی... سید ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا تھا: اگر کوئی اونٹ کی ایک رسّی دینے سے بھی گریز کرے گا، تو میں اسے معاف نہیں کروں گا۔ حکومت کمزور پڑتی ہے تو رعایا بے خوف ہو جاتی ہے۔ قانون کا جلال تحلیل ہو جائے تو فساد جنم لیتا اور بے قابو ہو جاتا ہے۔ جان و مال کی حفاظت اہم ترین ترجیح ہے۔ فساد کی تازہ ترین لہر میں سرکار بے قصور نہیں۔ ہمیشہ کی طرح ہر طرح کی بے حکمتی کا مظاہرہ اس نے کیا ہے۔ شیخ رشید جب وزیرِ داخلہ اور عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ ہوں تو اس کے سوا امید بھی کیا۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیں کہ پولیس اہلکاروں کو قتل اور اغوا کیا جائے۔ بپھرے ہوئے جتھے قانون نافذ کرنے والوں پہ چڑھ دوڑیں اور ایک آدھ نہیں، سینکڑوں کو زخم لگائیں۔ 600پولیس افسروں کو زخمی کرنے والے کیونکر یہ امید رکھتے تھے کہ جب جوابی کارروائی کا حکم ملے گا تو 160 سال سے بے رحم چلی آتی پنجاب پولیس احتیاط ملحوظ رکھے گی۔
ہزاروں برس پہلے اپنے حقوق سے عام لوگ اسی لیے حکمرانوں کے حق میں دستبردار ہوئے کہ ان کی جان ومال اور آبرو محفوظ رہے۔ حکومت کا کوئی جواز ہی نہیں اگر وہ یہ ذمہ داری پوری نہ کر سکے۔ ختم المرسلینﷺ دنیا سے اٹھے تو تین شہروں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور طائف کے سوا، ہر کہیں حکومت کا وجود ختم ہو گیا۔ مدینہ منورہ میں مسلمانوں کی جمعیت منظم ہونے کے فوراً بعد، سرکارﷺ کی اولین ترجیحات میں ایک حکومت کا قیام تھا۔ وہ جو میثاقِ مدینہ کے تحت تشکیل پائی۔ مدینہ منورہ کے تمام باشندوں، حتیٰ کہ مشرکین اور یہودیوں کو اس میں ایک امّت قرار دیا گیا۔ حقوق سب کے برابر تھے اور فرائض بھی۔ حکومت ایک معاہدہ ہوتی ہے۔ ہاں! مگر جب حکمران کا انتخاب ہو چکے اور قوانین کا بنیادی ڈھانچہ یعنی آئین بن چکے تو تمام شہریوں پر اس کی پابندی واجب ہو جاتی ہے۔ یہی ریاست ہے اور ریاست سے انحراف کا مطلب بغاوت۔ ریاست سب کچھ گوارا کر سکتی ہے مگر بغاوت نہیں۔ اگر کوئی گروہ اتفاق رائے سے طے شدہ نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے تو حکومت کا فرض ہے کہ پوری قوت کے ساتھ قانون اس پہ نافذ کر دے۔ قوت ایک نفسیاتی چیز ہے۔ ثانیاًوحشت نہیں، جیسا کہ لاہور میں ہوا بلکہ حکمت کے ساتھ بروئے کار لائی جاتی ہے۔
اعراب نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ صرف مال و زر کی محبت نہیں کہ سال کے آخر میں یہ بچی ہوئی دولت کا اڑھائی فیصد ہوا کرتی بلکہ اس لیے بھی کہ یہ اقتدار کی قوت کا اعتراف تھا۔ یہ بغاوت تھی۔ اس وقت نائب الرسولﷺ نے وہ جملہ کہا: خدا کی قسم، اگر کوئی اونٹ کی ایک رسّی دینے سے بھی انکار کرے گا، تو میں اس کے خلاف جنگ کروں گا۔ اعلان کر دیا کہ تمام تر نشیب و فراز کو ہموار کردوں گا۔ آج کے پاکستان کا سب سے بڑا المیہ فقط یہ نہیں کہ حکومت کمزور، نالائق اور کنفیوژن کے مارے لوگوں کے ہاتھ میں ہے بلکہ یہ بھی کہ وہ سرے سے حکومت کرنا جانتے ہی نہیں۔ ترجیحات طے ہی نہیں کر سکتے۔ سلیقہ مندی نام کی کوئی چیز ہی نہیں، جو وزیرِ اعظم بزدار ایسے شخص کو وزیرِ اعلیٰ بنا دے، اس کی صلاحیت اور ہوش مندی معلوم۔
سرکارﷺ کا ارشاد یہ ہے کہ امت کا اختلاف باعثِ رحمت ہے۔ اختلاف کا مگر ایک قرینہ ہوا کرتاہے۔ جس ملک کی دو سب سے بڑی سیاسی پارٹیوں اپنے مخالفین کی کردار کشی کے لیے میڈیا سیل بناتی ہوں ؛حتیٰ کہ اس کے ایک وزیر پر گندی گالیاں بکنے کا الزام ہو؛حتیٰ کہ وزیر ِ اعظم ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوں جو کردارکشی میں زیادہ طاق اور مستعد ہوں۔ معاشرے کو جما جڑا وہ کیسے رکھ سکتی ہے۔
عہدِ اوّل کے مسلمان اور طرح کے لوگ تھے۔ قرآن ِ کریم میں لکھا ہے: اللہ ان سے راضی اور وہ ان سے راضی۔ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور طائف، تین شہر ہی سہی اور ان میں جنگ جوؤں کی تعداد تیس چالیس ہزار سے زیادہ کیا ہوگی لیکن وہ اور طرح کے لوگ تھے۔ ان میں سے ہر ایک ہزاروں شہسواروں کے برابر تھا۔ دشمن ہی نہیں، وہ موت کے سامنے بھی سینہ تان کر کھڑے ہو سکتے تھے۔ جناب خالد بن ولیدؓ نے ایرانیوں کو لکھا تھا:ہم ایسے لوگ ہیں، جو موت کو زندگی سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ جناب حسان بن ثابتؓ کا ایک شعر یہ ہے "کالی سانڈنیوں پر سوارہمارے لشکربادلوں کی طرح بھاگے چلے جاتے ہیں /اور ان کے پہلوؤں پہ پیاسے نیزے رکھے ہیں۔ ہمارے واعظ ان کی سچی تصویر پیش نہیں کرتے۔ بے حد مہذب مگر نہایت ہی بے ساختہ لوگ تھے۔ ایک نجیب الطرفین اسپ کی طر ح جوش و جذبے سے بھرے ہوئے لیکن ان کے ہاتھ میں ہمیشہ دلیل کی تلوار ہوتی اور دلیل ہی کی ڈھال۔ جب وہ چڑھ دوڑنے پر تلے ہوں لیکن قرآنِ کریم کی کوئی آیت سنا دی جاتی یا رسولِ اکرمﷺ کا قولِ مبارک تو وہیں رک جاتے۔ ستون کی طرح جم کر کھڑے ہو جاتے۔ سرِ مو انحراف نہ کرتے۔ ہمارا واسطہ اب لوگوں سے ہے، جو بات ریاستِ مدینہ کی کرتے ہیں اور جن میں سے بعض کے کردار عبد اللہ بن ابی کے پیروکاروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ بیسویں صدی کے سب سے بڑے فلسفی برٹرینڈرسل نے کہا تھا: اخلاقیات دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک وہ، جس کی ہم تبلیغ کرتے ہیں اور ایک وہ، جس پہ ہم عمل پیرا ہوتے ہیں۔
کیسی ہی گئی گزری ہو، کیسی ہی ناقص ہو، ریاست محترم ہے۔ اس لیے کہ وہ محافظ اور نگہبان ہے۔ جان و مال اور آبرو کی حفاظت کا اس کے سوا کوئی طریق تاریخ نے کبھی نہیں تراشا۔ ہر حال میں اسے محترم رہنا چاہیے؛ اگرچہ یہ عدل کے فروغ اور قانون کی پاسداری ہی سے ممکن ہے۔ امتحان کا وقت آ پہنچا۔ ریاست کے لیے اور اس حکمران کے لیے بھی، جو خود کو برگزیدہ سمجھتا ہے۔ یہ مگر اسے معلوم نہیں کہ کاروبارِ حکومت مشورے سے چلایا جاتا ہے۔ مشورہ ان سے جو مخلص اور ماہر ہوں۔ ان سے نہیں، جو دربار ی آداب کے خوگر ہوں۔ حکمرانوں کے لیے مہلت اب دراز نہیں ؎
یقیں پیدا کر اے ناداں، یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری
یوں تو درجنوں ہیں لیکن عثمان بزدار، شیخ رشید اور علی زیدی ایسے لوگ اس بات کے مستحق نہیں کہ خلقِ خدا پہ حکم چلائیں اور اس کے باب میں فیصلے صادر کریں۔ رہنما نہیں، یہ نہایت معمولی لوگ ہیں۔ ایسے لوگوں کو فیصلے کا اختیار جب دے دیا جاتاہے تو تباہی کی بنیاد رکھ دی جاتی ہے۔ کپتان کی ناکامی کا فیصلہ اسی وقت ہو گیا تھا، جب عثمان بزدار کو انہوں نے وزیرِ اعلیٰ نامزد کیا تھا۔ وہ آدمی جو تونسہ کی ٹاؤن کمیٹی کا ناظم تھا تو جعلی ملازمین کی فوج بھرتی کر رکھی تھی۔ ایک ایسا لشکر، جس کا وجود ہی نہ تھا مگر جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جاتے۔ جس کا خاندان آج بھی اس خطے میں دندناتا پھرتاہے۔
بات چیت یا کچھ اور؟ کپتان کی حکومت کیا امن بحال کرنے میں کامیاب رہے گی؟ اس کا فیصلہ ابھی ہوا جاتا ہے۔ اسی پر اس کے باقی و برقرار رہنے یا فنا ہوجانے کا انحصار ہے۔