Wednesday, 17 April 2024
  1.  Home/
  2. Haroon Ur Rasheed/
  3. Dastaan e Afghan (2)

Dastaan e Afghan (2)

داستانِ افغان (2)

بیتی ہوئی صدیاں اقوام کے مزاج ڈھالتی ہیں۔ دوسری بار شیبانی خان کے ہاتھوں سمر قند سے پسپا ہو کر ظہیر الدین بابر نے ازبکستان میں ایک قبائلی سردار کے پاس پناہ لی۔ اب وہ شاعری اور تصوف کی طرف مائل تھا۔ مستقبل میں امید کی کوئی کرن نہ تھی۔ اپنی فوج وہ کھو چکا تھا؛حتیٰ کہ اس کے جوتے ٹوٹ گئے۔ اسی اثنا میں سمر قند میں رہ جانے والی والدہ اور بہن نے واپسی کی اطلاع دی۔ اپنی خودنوشت تزکِ بابری میں وہ لکھتا ہے: اماں جان آپہنچی ہیں اور اپنے ساتھ بھوکوں کا ایک لشکر لائی ہیں۔

ایک ایک کر کے بابر کے ساتھی آن ملے اور کسی نئی سرزمین کا رخ کرنے پر اصرار کیا۔ جنگجوئی ان کے لہو میں تھی اور اپنے لیڈر پہ انہیں کامل اعتماد تھا۔ یہ اعتماد درست ثابت ہوا۔ اوّل خراسان کا ایک حصہ اور پھر ہندوستان اس نے فتح کیا، جہاں اگلی اڑھائی تین صدیوں تک اس کی اولاد سریر آرائے سلطنت رہی۔ مغلوں کا ہتھیار رواداری تھا۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ صرف اس فاتح کی حکومت دراز ہوتی ہے، جو معاشرے کی تقسیم اور تعصبات سے بالا ہو کر سوچ سکے، جس کے دامن میں سب لوگ پناہ لے سکیں۔ کیا یہ بات طالبان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے؟

بابر ہمیشہ شاکی رہا کہ کابل کے باشندے تند خو ہیں۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود اس تاریخی شہر سے فاتح کو بے پناہ محبت تھی۔ سیب سے ملتا جلتا بہی نام کا پھل اب کمیاب ہے۔ آگرہ میں بابر کے دربار میں بہی کے خوان لائے گئے تو فرطِ مسرت سے وہ رو پڑا۔ کنواہ کی جنگ میں ظفر یاب ہوا تو کابل کے شہریوں میں سے ہر ایک کے لیے دو اشرفیاں بھیجیں۔ مرا تو کابل میں دفن ہونے کی وصیت کی۔ وسطِ شہر میں آج بھی ایک ٹیلے پر اس کا مزار قائم ہے۔ وہ آدمی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کبھی جھوٹ نہ بولتا تھا۔ اپنے عیوب کے بارے میں اس طرح گفتگو کرتا، گویا کسی اور کے بارے میں بات کر رہا ہو۔ عملیت اور رومان کا ایک حیرت انگیز نمونہ۔ اپنے ساتھیوں پہ شفیق، اپنی اولاد پہ نثار۔ ترکانِ عثمانی تھے یا ترکانِ تیموری، بھائی بھائیوں اور بیٹے باپ کے خلاف بغاوت کیا کرتے۔ بابر وہ تنہا آدمی ہے، جس نے اپنے فرزند ہمایوں پہ جان نچھاور کر دی۔ معالج مایوس ہو گئے تو انہوں نے بتایا کہ صدقہ ہی اب واحد امید ہے۔ اس مقصد کے لیے سب سے قیمتی چیز کوہِ نور ہیرا تجویز کیا گیا۔"ایک زندہ آدمی کے بدلے میں پتھر کا ایک ٹکڑا؟ " اس نے حیرت سے کہا۔ پھر مریض کی مسہری کے گرد سات چکر کاٹے اور دعا کی کہ خالقِ تقدیر بیٹے کے بدلے اس کی جان قبول کر لے۔ تاریخ ایسی کوئی دوسری نظیر پیش نہیں کرتی۔

مغل زوال کے بعد سفاک نادر شاہ کے حریفوں میں سے ایک، احمد شاہ ابدالی نے آج کے افغانستان کی بنیاد رکھی۔ شاید اس لیے کہ وہ ملتان میں پیدا ہوا تھا، مسلم برصغیر میں اس کی دلچسپی غیر معمولی تھی۔ مغلوں کے پنجاب میں سکھ اور شمال مشرق میں مرہٹے چھا گئے۔ میرؔ صاحب نے اس عہد کو مصور کیا ہے۔

چور اچکے، سکھ مرہٹے، شاہ و گدا زر خواہاں ہیں چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے، فقر بھی اک دولت ہے ابعشروں تک برصغیر کے وسیع وعریض میدان خانہ جنگی کا شکار رہے؛حتیٰ کہ پانی پت کے میدان میں مرہٹوں کے لشکر جرار کو ابدالی نے شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ قندہار کو اس نے دارالحکومت کیا، جس کے لیے مغلوں اور ایرانیوں نے بارہا جنگیں لڑی تھیں۔ شاید اسی لیے کہ ایرانیوں سے محفوظ رہ سکے۔ ابدالی کے اڑھائی سو برس بعد، اقتدار سنبھالنے واے ملا عمر نے خلافت کا اعلان کیا تو اسی شہر کو مرکز بنایا۔

ابدالی کے مزار پر نصب کیا گیا کتبہ یہ تھا "بادشاہِ افغانستان و ترکمانستان" سلطان کو ادراک تھا کہ اس کی سلطنت میں کئی اقوام بستی ہیں، تاریخی عمل میں شایدجو یکجا ہو سکیں۔ بتدریج شاید ہو جاتیں مگر خارجی مداخلت!

ابدالی قبیلے نے مدتوں افغانستان پر حکومت کی۔ بیشتر اس کادفاع کرنے میں کامیاب رہے۔ مغلوں کی طرح اس راز سے وہ واقف تھے کہ مختلف قبائل، لسانی و نسلی گروہوں اور مکاتب فکر کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیے۔ ظاہر شاہ کے عہد تک قرار باقی رہا۔ بامِ دنیاپامیر کی رفعتوں پر مقیم قل آغا کے ترک قبیلے سے لے کر بامیان کے تاتاری قبائل تک، وادیء پنج شیر کے فصیح فارسی بولنے والے تاجکوں سے لے کر، ہمارے کافرستان والوں کے عم زاد، یونانی النسل نورستانی تک، اس عہد میں آسودہ تھے۔ ہر چند کہ بادشاہت تھی۔ ہر چند کہ ملک پسماندہ تھا لیکن غیر ملکیوں سے محفوظ اور پر امن۔ دنیا بھر کے سیاحوں کی منزل۔

پھر ساڑھے تین سو برس سے آگے بڑھتے روسیوں کو گرم پانیوں کی آرزو نے بے تاب کیا۔ پھر وسطی ایشیا کی باقی مسلم ریاستوں کی طرح افغانستان کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھا۔ اشتراکیوں کی حوصلہ افزائی کی۔ 1974ء میں سردار داؤد کی سرپرستی سے تغیر کا آغاز کیا۔ خانہ جنگی بڑھتی گئی تو دسمبر 1979ء میں سرخ افواج افغانستان میں داخل ہو گئیں۔ باقی تاریخ ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے کتنی ہی حماقتیں کی ہوں لیکن روسیوں کی ایسی مزاحمت انہوں نے کی کہ ایک عشرہ بھی بتا نہ سکے۔ ماسکو کے لیے وہ مامون الرشید کے جنرل طاہر ثابت ہوئے۔ 1989ء میں اس حال میں روسی واپس گئے کہ سوویت یونین ٹوٹ کر بکھر گیا۔ ماسکو میں روسی جنرلوں کو بھیک مانگتے دیکھا گیا۔ سائنس دان فرار ہونے لگے، جہاں کہاوت یہ ہے: اجنبی دیس میں بادشاہ بننے سے بہتر ہے کہ اپنے وطن میں آدمی بھکاری بن کر رہے۔

روسیوں نے تیرہ لاکھ افغان قتل کرڈالے اور تیرہ لاکھ اپاہج۔ سوویت یونین کے خلاف افغان حریت پسندوں کو 122اقوام کی اخلاقی تائید حاصل تھی۔ طاقتور افواج کی مالی اور اسلحی مدد بھی۔

امریکیوں کو تنِ تنہا انہوں نے ہرا دیا۔ صرف پاکستان کی محدود سی خفیہ تائید انہیں حاصل تھی، جس کی اشرافیہ اور اکثر دانشور خوئے غلامی کے مارے ہیں۔ حلیف اقوام کی امداد کے علاوہ 3600ارب ڈالر امریکیوں نے اس جنگ پر لٹائے۔ گذشتہ برس 35ارب ڈالر جرمنی نے صرف کیے، جی ہاں 35ارب ڈالر، بخیل برطانویوں نے 18ارب ڈالر، جاپان نے 16ارب ڈالر، عالمگیر صف بندی میں آسٹریلیا اور بھارت کے ہمراہ جو واشنگٹن کا رفیق ہے۔ چودہ ارب ڈالر فرانس نے دیے۔

اس کے باوجود یہ جنگ کیوں ہار دی گئی؟ مغربی سپاہی کے سامنے کوئی مقصد نہ تھا کہ جان لٹاتا۔ ویت نام اور عراق میں بھی یہی ہوا تھا۔ آئن سٹائن کے بقول ایک ہی تجربے کو بار بار دہرانا ان احمقوں کا شیوہ ہے، جو سیکھنے کی صلاحیت سے بہرہ ور نہیں ہوتے۔

کہانی طویل ہے اور پیچیدہ بھی۔ آسانی سے سمٹ نہیں سکتی۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ غیر ملکی خواہ کتنے ہی طاقتور ہوں، اس سرزمین کو تسخیر نہیں کر سکتے۔ ثانیاً یہ کہ افغانستان کی مختلف نسلوں، قبائل اور لسانی گروہوں کو ایک نیا عمرانی معاہدہ درکار ہے۔ افغانی سخت گیر ہیں، مذہبی اور شکی ہیں۔ اکثریت غیر ملکیوں کو گوارا نہیں کرتی، انتہائی سخت جان۔

حرفِ آخر وہی کہ ممالک، اقوام اور معاشرے طاقت سے نہیں بدلتے۔ علم، اخلاقی بالیدگی اور محبت سے رفیع ہوتے ہیں۔ یہ ایک پیہم جدوجہد ہوتی ہے، آغاز جس کا ادراک سے ہوتا ہے۔ مسلسل تربیت سے معاشرہ صیقل ہونے اور فروغ پانے لگتا ہے۔ یہ ادراک کہاں ہے۔ اخلاقی شعور کی اہمیت کا احساس کس کو ہے؟

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Jab Ye Faisla Aaya

By Rauf Klasra