Saturday, 30 November 2024
  1.  Home
  2. Haroon Ur Rasheed
  3. Darya Ko Apni Mauj Ki Tughyanion Se Kaam

Darya Ko Apni Mauj Ki Tughyanion Se Kaam

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

اقتدار سے جنون اور غلبے کی جبلّت میں، دانش کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ ذہن کام ہی نہیں کرتا۔ سب سبق بھول جاتے اورسب آموختے ہوا ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر انہی کو مداخلت کرنا ہو گی، ایسے میں جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔

کورونا ہے، باہمی اختلافات ہیں اور سخت ترین سرد موسم کی پیش گوئی، فرض کیجیے، ان سب رکاوٹوں پر قابو پا لیا جائے؟ ۔ فرض کیجیے، سب راستے ہموار ہو جائیں۔ تمام تر موانع اور مشکلات پر قابو پا لیا جائے تو آخری نتیجہ کیا ہو گا؟۔

فرض کیجیے، عوام کے ہجوم امڈ پڑیں، اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ جائے اور اپوزیشن کے مطالبات ماننے پر آمادہ ہو جائے تو کیا ہو گا؟ ۔ یہی کہ عمران خان کی حکومت ختم ہو جائے گی۔ آخر کار مگر انہیں اس سے کیا حاصل ہو گا؟ ۔ زرداری خاندان تو یوں بھی بجھ چکا ہے۔ دیہی سندھ کے سوا، کسی علاقے میں ان کی مقبولیت باقی نہیں۔ کرپشن کے الزامات بھی فراواں ہیں۔ لاتعداد بے قاعدگیوں اور لوٹ مار کا انہیں جواب دینا ہے۔ شریف خاندان کا حال تو اور بھی پتلا ہے۔ ان کے ایک ایک فرد پر بدعنوانی کے مقدمات ہیں اور سنگین مقدمات۔ نواز شریف پر پہلے ہی پابندی عائد ہو چکی۔ اقتدار میں آنجناب کی واپسی کے تمام راستے بند ہیں۔ محترمہ مریم نواز ضمانت پر ہیں۔ اپنی جائیدادوں کا انہیں حساب دینا ہے، جن کے وجود سے یکسر انہوں نے انکار کیا تھا۔ شریف خاندان کے صاحبزادے لوٹ کر نہیں آ سکتے۔ شہباز شریف اور ان کے فرزندوں، حتیٰ کہ خاندان کی خواتین پر کالا دھن سفید کرنے کے ثبوت موجود ہیں، بھارت نوازی کے الزامات اس کے سوا۔ اقتدار کا دروازہ ان پر کیسے کھلے گا؟ ۔ حضرت مولانا فضل الرحمن؟

تیری رسوائی کے خونِ شہدا درپے ہے

دامنِ یار خدا ڈھانپ لے پردہ تیرا

جنرل مشرف کے ساتھ ساز باز کے نتیجے میں، شہدا کے لئے مختص کروڑوں، اربوں روپے کے جو قطعہ ہائے اراضی عالی مرتبت نے اپنے عزیز و اقارب کے نام پر الاٹ کروائے، ان کا کیا ہو گا۔ پختون خوا میں ان کے ابھرنے اور غالب آنے کا کوئی امکان باقی نہیں اِلاّیہ کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی سمیت صوبے کی تمام سیاسی قوتیں، ان کی ہم رکاب ہو جائیں۔ یہ کیونکر ممکن ہو گا، کیسے ممکن ہو گا؟

زیادہ سے زیادہ وہی کہ عمران خان کا غلبہ تمام ہو جائے۔ مگر اس سے کیا ملک کو استحکام نصیب ہو سکے گا؟ سب جانتے ہیں کہ کبھی نہیں، کسی طرح بھی نہیں۔ ترغیب سے، پیغام رسانی سے اور دھمکیوں کی یلغار سے محترمہ مریم نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کو ہموار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہی کو نہیں، ارکان اسمبلی کو بھی ڈراتی ہیں۔ کیا وہ سب کے سب خوفزدہ ہو جائینگے۔ کیا عمران خان کے ہزاروں پرجوش کارکن اور ایک کروڑ سے زیادہ ووٹر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں گے؟ کیا عسکری قیادت ان کے سامنے جھک جائیگی؟ ۔

نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے علاوہ کچھ اور سیاسی جماعتوں کے کارکن پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ سے نالاں ہیں۔ کیا وہ عمران خان کے جوش و جذبے سے بھرے کارکنوں کو بھی اپنے خلاف صف آرا کر لیں گے؟ ۔

چیخ چیخ کر خواجہ آصف نے اعلان کیا:لانگ مارچ اور استعفوں کے بعد، خدا کی قسم، ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ اللہ کی قسم کھانے کی ضرورت انہیں کیوں آ پڑی؟ ۔ کس کو یقین دلانے کے لئے۔ خود اپنے آپ اور خلق خدا کو آسودہ اور متحرک کرنے کے لئے؟ 1993ء کے الیکشن، ایسے ہی ہنگامے کے بعد جو غیر جانبدار جنرل عبدالوحید کاکڑ کی مداخلت سے برپا ہوئے تھے۔ شیخ رشید کے ایک مخالف نے جلسہ عام میں ایسا ہی دعویٰ کیا تھا"خدا کی قسم، میں اسے ہرا دوں گا؟ یاد نہیں پڑتا کہ وہ اپنی ضمانت بچا سکے یا نہیں۔ رفتہ رفتہ بہرحال وہ تحلیل ہوتے گئے اور اب ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں۔ کسی کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ زندہ سلامت ہیں یا نہیں۔ ارضی حقائق کو فقط جوش و خروش اور جذباتی کارکنوں کی اعانت سے بدلا جا سکتا تو ملک کے وزیر اعظم طاہر القادری ہوتے۔

جن کے کارکن ان پر زندگیاں فدا کرنے پر آمادہ رہتے ہیں اور فدا کرنے کے بعد بھی ان کے لواحقین، خوابوں کی دنیا آباد کیے رکھتے ہیں۔ کیسی کیسی یلغار انہوں نے کی اور کیسے کیسے دعوے۔ دعویٰ مگر باطل ہوتا ہے۔ آدمی کو اس کی تقدیر کا مالک نہیں بنایا گیا۔ سیاسی، معاشی اور تاریخی عوامل کو اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ وقت کا دھارا اور موسم کا رخ ہی فیصلہ صادر کرتے ہیں:

دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام

کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے

عمران خان پر کیے جانے والے بہت سے اعتراضات درست ہیں۔ کوئی کارنامہ انجام نہیں دے سکے۔ کرشمہ اب بھی ان کا باقی ہے۔ ان کے چاہنے والے اب بھی بہت۔ وہ مگر معاملہ فہم ہیں اور نہ مر دم شناس۔ سیاست کی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور نہ معیشت کی نزاکتوں کو، اس پہ اپنی برگزیدگی کا احساس۔ اس طرح کے ارشادات کہ"اپوزیشن والے مجھے جانتے نہیں"۔ آپ کیا نوشیرواں عادل ہیں؟ صلاح الدین ایوبی ہیں؟ پرسوں اپنے پسندیدہ اخبار نویسوں کے ہجوم میں خود انہوں نے تسلیم کیا کہ چھ ماہ تک آئی ایم ایف سے منہ موڑ کر انہوں نے پہاڑایسی غلطی کا ارتکاب کیا۔

شکر اور گیہوں کی گرانی۔ گرتے گرتے کپاس کی پیداوار ایک تہائی رہ گئی۔ محتاط ترین اندازہ یہ ہے کہ امسال دو ارب ڈالر کی درآمد کرنا پڑے گی۔ وہ دعوے کیا ہوئے، دن رات جو وہ دہرایا کرتے تھے؟ یہ شوکت خانم ہسپتال، نمل کالج یا کرکٹ کا میدان نہیں، ان کی محدود ذہانت اور مستقل مزاجی جہاں معجزے برپا کر سکے۔ کارِ سیاست ہے، یہ کار ریاست۔ یہاں قائد اعظم محمد علی جناح ایسے عبقری کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے:

یہاں رکھنا قدم تم بھی سنبھل کر شیخ جی کیوں کر

یہاں پگڑی اچھلتی ہے، اسے میخانہ کہتے ہیں

چٹا گانگ سے چترال تک بھاگ دوڑ نواب بہادر یار جنگ، راجہ صاحب محمود آباد، راجہ غضنفر اور سردار عبدالرب نشتر ایسے ساتھیوں کی مخلصانہ تائید کے باوجود، عشروں کی ریاضت اور مسلسل مشاورت۔

ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ مکانوں کو چھوڑیے، پولیس اور عدلیہ کی اصلاحات کے منصوبوں کا کیا ہواشبر زیدی کہتے ہیں کہ ایف بی آر کے بائیس ہزار ملازمین میں سے بیس ہزار کرپٹ یا ناکارہ ہیں۔ سراج الدولہ کی 90ہزار فوج کی طرح جو تین ہزار برطانوی سپاہ سے ہار گئی تھی۔ تاجروں اور کارخانہ داروں کے سامنے ٹیکس وصول کرنے والے لاچار ہیں اور اصلاح کے لئے کپتان میں ایک قدم اٹھانے کی ہمت بھی نہیں۔

اپوزیشن لیڈر کرپٹ ہیں اور ان کا احتساب لازم، مگر خسرو بختیار پر عائد الزامات کا جواب کیا ہے؟ بی آر ٹی پشاور کے ملبے کا بوجھ کب تک وہ اٹھاتے رہیں گے۔ کب تک اسٹیبلشمنٹ ان کا بوجھ اٹھائے رکھے گی؟ کب تک اپنی ذات کے گرداب میں گم رہیں گے!

ذوالفقار علی بھٹو بھی ایک کرشماتی شخصیت تھے۔ پڑھے لکھے بھی بہت۔ بڑے خطیب، بڑے لکھاری اور اپنے عصر کے خم و پیچ سے آشنا۔ کیسے کیسے مشکل فیصلے انہوں نے صادر کیے۔ کیسے کیسے طاقتور ممالک کا سامنا کیا۔ آخر کو مگر کیا ہوا؟ خوئے انتقام انہیں پھانسی کے پھندے تک لے گئی۔ جن جنرلوں اور حریفوں کو حقیرجانا تھا، وہ ان کیلئے اللہ کا عذاب ہو گئے۔

اقتدار سے جنون اور غلبے کی جبلّت میں، دانش کا چراغ بجھ جاتا ہے۔ ذہن کام ہی نہیں کرتا۔ سب سبق بھول جاتے اورسب آموختے ہوا ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایک بار پھر انہی کو مداخلت کرنا ہو گی، ایسے میں جو ہمیشہ کرتے آئے ہیں۔

About Haroon Ur Rasheed

Haroon Ur Rasheed is a well known analyst and columnist. Currently, he is working with 92 News. He has worked for Dunya News, 92 News and Geo.

Check Also

Haye Kya Daur Tha Jo Beet Gaya

By Syed Mehdi Bukhari