دانائے راز
1400بر س سے سرکارؐ کی مدح جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔ ابتلا کا زمانہ ابھی جاری تھا، جب یہ آیت نازل ہو ئی تھی۔ تیرہ سو برس بعد امتی نے لکھا
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ "ورفعنا لک ذکرک"
دیکھےاس آدمی کا نام اقبالؔ تھا۔
سیدنا علی بن عثمان ہجویریؒ کے نواح میں، عالمگیری مسجد کے سائے میں، شاعر مٹی اوڑھے سو رہا ہے مگر مرا نہیں، زندہ ہے اور ہمیشہ کے لیے زندہ۔ اصل الاصول یہ ہے کہ ایک ذرہء خلوص بھی پروردگار ضائع نہیں کرتا۔ اخلاص کی مشعل بھٹکنے دیتی ہی نہیں۔ اقبالؔ سراپا اخلاص تھے۔ موت مٹی سے بنے آدمی کے لیے ہوتی ہے، علم، اخلاص اور وفا کے لیے نہیں۔
اقبالؔ ایک نابغہ تھے۔ ایک جینئس اور عبقری۔ فکر، شاعری اور سیاست میں، جو ان کی تگ و تاز کے میدان تھے۔ اور جینئس بھی ہو گزرے ہیں۔ ادب میں غالبؔ، حافظِ شیراز، شیکسپیئر اور ٹالسٹائی بھی۔ فرانسیسی فرانزز لینن کا شمار بھی شاید انہی میں ہوگا، ایران کے علی شریعتی کا بھی۔ سیاست اور فکر کی دنیا میں اور کتنے ستارے اور کتنے چاند چمکے۔
اپنے معاشروں پر کیا وہ اتنا ہی اثر انداز ہو سکے؟ فانی زندگی ختم ہونے کے بعد کیا وہ دنیا یا محض اپنے معاشروں میں بھی اسی طرح پھلتے پھولتے رہے، فہم و بصیرت کے فروغ اور حیات کی بالیدگی میں ویسا ہی کردار ان کا باقی رہا؟
مولانا روم کے باب میں سید سلیمان ندوی نے لکھا کہ ہر صدی میں ایک انقلاب ان کی فکر سے طلوع ہوتاہے۔ خود اقبالؔ انہیں مرشدِ رومی کہتے ہیں۔ انوکھی بات یہ ہے کہ اقبالؔ سے پہلے انقلاب کا پیامبر رومی پوری طرح دریافت نہ ہوا تھا، جس کے کلام کا حرکی پہلو جرات و جستجو سے آبدار ہے۔ اقبالؔ نے محض مثنوی مولانا روم کی بجائے دیوانِ شمس تبریز سے بھی پوری طرح استفادہ کیا، جو حضرت مولانا جلال الدین رومی ہی کا کلام ہے، اپنے استاد سے منسوب۔ ان سے پہلے تو مولانا روم زندگی کی ناپائیدا ری اور اس دوسری دنیا کے پیغامبردار تھے، جو موت کے بعد طلوع ہونی ہے۔ میرؔ کے الفاظ میں
مرگ ایک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر
مثنوی اور دیوانِ شمس تبریزپر غور کیجیے تو یوں لگتاہے کہ قونیا کی خاک اوڑھ کر سویا ہوا آدمی عمر بھر ایک ہی بات یاد دلاتا رہا "وما الحیوۃ الدنیا الا متاع الغرور"۔ دنیا کی زندگی دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ شاعروں کا وظیفہ یہ نہیں تھا۔ شاعر توزندگی کے تیور بیان کرتے اور فصاحت کا جادو جگاتے آئے تھے۔ رومی نے شاعری میں نیا افق پیدا کر دیا۔ حیرت انگیز طور پر اس چراغ سے جو دوسرے دیے روشن ہوئے، ان میں سے بیشتر کا تعلق سرزمینِ پنجاب سے ہے۔ خواجہ فرید الدین گنج شکر، جن کے سحر سے پنجابی شاعری آج تک آزاد نہیں ہو سکی۔ ان کے فکری جانشین اور راہِ سلوک کے ایک اور مسافر سلطان باہو، جن کے کلام میں وہی وارفتگی اور والہانہ پن ہے، جو زمان و مکان کی حدود سے ماورا ہوتا ہے۔ پنجابی شاعری میں اس روایت کے امین اور بھی ہیں۔ ان سے پہلے شاہ حسین، ان کے بعد خواجہ غلام فریدؔ اور میاں محمد بخش۔
خواجہ غلام فرید کے اقبالؔ بہت قائل تھے۔ ایک بار ارشاد کیا تھا کہ خواجہ کے ہوتے ہوئے، یہ قوم مجھے کیوں پڑھے گی۔ اقبالؔ پڑھے گئے، کسی بھی دوسرے شاعر سے زیادہ پڑھے گئے۔ انہیں اور ان کے کلام کو ابدی حیات نصیب ہوئی۔ مولانا روم کے سوا شاید ہی کوئی شاعر ہو، جو اس ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہو بلکہ ان کا دائرہء اثر مولانا روم سے بھی زیادہ وسیع ہے۔ رومی کے تراجم اقبالؔ سے زیادہ ہوئے مگر رومی ایک نہیں، کئی ہیں۔ ایک اہلِ تصوف کے، ایک مغرب کے پسندیدہ جہاں مشین اور ریاکاری سے اکتایا ہوا آدمی سکون و آشتی ترستا ہے۔ اقبالؔ کا رومیؒ مختلف ہے، تحرّک اور انقلاب کی دعوت دیتاہوا، زندگی کو بدل ڈالنے کی دعوت۔
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لیے
اور عرصہء ایام سے ہجرت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشید
اک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
کیسے کیسے عظیم شاعر فلک نے زمین کو عطا کیے ہیں، جو اس کے تاروں سے بڑھ کر چمکتے ہیں اور ہمیشہ چمکتے رہیں گے۔ اقبال ؔ مگر ایک ہی ہیں کہ رومیؒ، فرید الدین گنج شکر اور سلطان باہو کی طرح، وہ زندگی اور زمین کو آسمان سے دیکھتے ہیں بلکہ اس لیے بھی کہ ان کے ہاتھ میں انقلاب کا پرچم ہے۔ ان موضوعات پر انہوں نے لکھا، کبھی کوئی شاعر جنہیں چھو نے کی ہمت نہ کر سکا۔
سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ شاعری کے دلدادہ تھے۔ زہیر بن ابی سلمیٰ کے معترف۔ انہیں اشعر الشعرا کہتے۔ فرماتے: کسی کی مدح کرتاہے تو انہی اوصاف پر، جو اس میں موجود ہوں۔ ایک بار ارشاد کیا تھا: جب تک عربی زبان زندہ ہے، اس کا کلام باقی رہے گا۔ ہاں، اس میں دانائی ہے، خودداری بھی بہت، جو عرب شاعروں کا وتیرہ نہ تھا۔ زہیر کے ممدوح حرم بن سنان وفورِ محبت میں جذبات سے اتنے مغلوب ہوئے کہ فدا ہو گئے۔ کہا: آج کے بعد زہیر جب بھی مجھے سلام کرے گا، یعنی ملاقات ہو گی، میں اسے ایک اونٹ یا گھوڑا، ایک کنیز یا غلام پیش کروں گا۔ اس کے بعد زہیر جب سردار سے ملے تو یہ کہا: تم سب پر سلام ہو، سوائے اس کے جو تم میں سب سے بہتر ہے۔ پھر کبھی کوئی تحفہ قبول نہ کیا۔
وفات سے پہلے زہیر نے ایک خواب دیکھا: آسمان سے لٹکتی ہوئی رسی، کچھ لوگ جسے تھام سکے۔ اس نے ہاتھ بڑھایا تو رسی سمٹ گئی۔ سو کر اٹھا تو اپنے بیٹوں سے یہ کہا: خدا کی قسم یہ نبوت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں اس مشعل بردار کو دیکھ نہ پاؤں گا مگر تم اس پر ایمان لانا۔ زہیر کا فرزند کعب بن زہیرگستاخی کا مرتکب ہوا۔ اس کے قتل کا حکم جاری کر دیا گیا مگر پھر وہ بھیس بدل کر حاضر ہوا اور ایمان لایا۔ عالی جنابؐ اس وقت شاید عفو درگزر کے باب میں کچھ ارشاد فرما رہے تھے۔ عقب سے آواز آئی: کیا گستاخی کا مرتکب بھی معاف کر دیا جائے گا؟ پلٹ کر نہیں دیکھا مگر فرمایا: ہاں، خواہ وہ کعب بن زہیر ہی کیوں نہ ہو۔ مشہور قصیدہ"بانت سعاد" اس کے فوراً بعد لکھا گیا۔ اوّلین اور اعلیٰ ترین قصائد میں سے ایک، جو سرکارؐ کی خدمت میں پیش کیے گئے۔ ایک شعریہ ہے
جئت رسول اللہ معتذراً
والعفو عند کراما الناس مقبولُ
اللہ کے رسولؐ کی خدمت میں معذرت کے لیے حاضر ہوا۔ جو اہلِ کرم ہیں، معذرت وہ قبول کرتے ہیں۔
1400بر س سے سرکارؐ کی مدح جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ورفعنا لک ذکرک۔ ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا۔ ابتلا کا زمانہ ابھی جاری تھا، جب یہ آیت نازل ہو ئی تھی۔ تیرہ سو برس بعد امتی نے لکھا
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ "ورفعنا لک ذکرک"
دیکھےاس آدمی کا نام اقبالؔ تھا۔ (گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے سیمینار میں پڑھا گیا)