ایک سلگتی روح (1)
ان کے ایک ناقد نے کہا تھا: اگرجنرل حمید گل تھری سٹار جنرل ہیں تو عظمیٰ گل فور سٹار۔ جنرل صاحب میں شائستگی، نرمی اور تپاک زیادہ تھا۔ معاف کرنے کی خو بھی۔ صاحبزادی نے خدمتِ خلق اور انسان دوستی کے میدانوں میں اتنے بے شمار چراغ جلائے ہیں کہ نیک طینت والدین سے بھی آگے بڑھ گئی۔ جنرل صاحب صاحبِ مطالعہ بہت تھے، قوتِ متخیلہ سے مالا مال۔ صاحبزادی عمل پسند زیادہ ہیں۔ اپنی والدہ محترمہ کی طرح۔ افتادگانِ خاک کے درد سے ان کا دل بھی گداز رہتا۔
کتاب سے ان کی وابستگی بھی مستقل تھی۔ گھر کے کام کاج میں جتی رہتیں۔ فرصت کے لمحات میں ہمیشہ ذکر و فکر میں محو۔ ہوائی جہاز میں جب بھی انہیں دیکھا تو تسبیح و مناجات یا قرآنِ کریم کا مطالعہ کرتے ہوئے۔ کم لوگوں میں ایسی قوتِ فیصلہ ہوتی ہے، جیسی عظمیٰ گل میں پائی جاتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ وہی ان کی حقیقی وارث۔
زندگی کے آخری برسوں میں جنرل پے بہ پے امتحانوں سے گزرے۔ عظمیٰ کے نصیب میں بھی امتحان لکھے گئے۔ زندگی آخر کار آزمائش کے سوا کیا ہے۔ غالبؔ نے کہا تھا:
عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
سبھی کو زندگی آزماتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ کچھ لوگ دل کو پتھر بنا لتے ہیں اور دوسرے ضمیر کی آسودگی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ جلتے بجھتے، سلگتے ہوئے۔ عظمیٰ گل ایک سلگتی رہنے والی روح ہیں۔
آدھی رات کا گجر بجا ہے۔ ہر کہیں ڈھونڈ چکا، وہ تین ساڑھے تین صفحات نہ مل سکے جو محترمہ عظمیٰ گل کی کتاب کے لیے دیباچے کے طور پر لکھے تھے۔ لکھنے کی میز چھان ماری، تینوں تپائیاں، سرہانے رکھی کتابیں اور وہ بے شمار کاغذات جو ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں۔۔ پروگرام کے نوٹس!
تب وہ شعر یاد آیا، جو ایک دوست کی دو کتابوں کا عنوان ہے۔
جسے لے گئی ہے ابھی ہوا، وہ ورق تھا دل کی کتاب کا
کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا، کہیں آنسوؤں سے لکھا ہوا
دیباچہ میرے لیے ایک ادق کام ہے۔ کتنے ہی دوست ناراض ہوئے۔ پورے مسودے کا مطالعہ کون کرے۔ فرصت نام کی کوئی چیز زندگی میں باقی نہیں۔ آنکھ کھلتی ہے تو فرائض کا ایک انبار سامنے ہوتا ہے۔ کوئی تعزیت، کوئی تقریب، کالم اور ہفتے میں چار دن اس پروگرام کی تیاری، ہفتے میں چار دن جو برپا ہوتا ہے اور جس میں چالیس منٹ تک تنہا بات کرنا ہوتی ہے۔
خال ہی اپنے لیے کوئی وقت باقی بچتا ہے۔ ایک زمانہ ہوا، خود سے ملاقات نہیں ہوئی۔ پے بہ پے دوست فرمائش کرتے ہیں کہ اپنے مشاہدات لکھوں۔ لکھنا چاہتا ہوں لیکن فرصت کہاں سے لاؤں۔ چار ہنگامہ خیز دنوں کے بعد کچھ ملتوی فرائض انجام دینا تھے، شب اسی میں بیت گئی:
اسے ڈھونڈتے میرؔ کھوئے گئے
کوئی دیکھے اس جستجو کی طرف
جنرل حمید گل کی صاحبزادی کے طور پر عظمیٰ گل کو جانتا تو مدتوں سے تھا۔ حقیقی تعارف ان سے تب ہوا، جب کسی نے بتایا کہ اڈیالہ جیل کے قیدیوں کے جرمانے وہ ادا کرتی ہیں۔ ان سے پوچھا تو صاف مکر گئیں، سپاٹ چہرے کے ساتھ!
دو عشرے پہلے یہ ان دنوں کی بات ہے، جب وہ اوران کے میاں یوسف گل واران بس سروس کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ جنرل صاحب مرحوم سے میں نے کہا: انہیں کیا سوجھی ہے۔ ٹرانسپورٹ بھلے لوگوں کا کام نہیں، سرکار سے جس میں واسطہ رہتا ہے اور اس کے بدترین محکمے پولیس سے۔ کہا: میری رائے بھی یہی ہے۔ تم انہیں سمجھاؤ، پھر اپنے مخصوص لہجے میں ایک جملہ کہا، سامع کو جس نے گنگ کر دیا۔ بولے: اتنی وہ میری بیٹی نہیں، جتنی وہ تمہاری بہن ہے۔ تمہاری بات سنتی ہے۔ اسے سمجھاؤ۔
واران کے صدر دفتر میں، جس پہ سرکار نے اب پھر قبضہ کر رکھا ہے، عظمیٰ اور یوسف گل کو سمجھانے گیا۔۔ اور لوٹ کر نہ آسکا۔ اسی رسان سے، جس میں قیدیوں کے جرمانے ادا کرنے کی تردید کی تھی، اس نے کہا: میں نے غلط بیانی کی تھی۔ بات یہ ہے کہ اس معاملے کو خفیہ رکھنے کا فیصلہ تھا۔ معلوم نہیں، کیسے آپ کو علم ہو گیا۔
ہر صاحبِ نعمت کے حاسد ہوا کرتے ہیں۔ جنرل صاحب مرحوم کے بھی بہت تھے۔ واران بس سروس کا منصوبہ نواز شریف کے عہد میں بنا تھا۔ جنرل مشرف کے ابتدائی دنوں میں ہموار انداز میں چلتا رہا۔ یہ وہ دن تھے، جب جنرل صاحب کے سابق سٹاف افسر جنرل پرویز مشرف ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے۔
دو بار خاموشی سے ان کے گھر گئے۔ پھر وہ ناراض ہو گئے اور ناراض بھی ایسے کہ انہیں Psedu intellectualکہا۔ وہ ان کی پالیسیوں کے ناقد بن کے ابھرے تھے، خاص طور پر امریکہ کے حوالے سے۔ جنرل صاحب ایک مثالیت پسند تھے۔ یہی ان کی زندگی کا نغمہ تھا۔ یہی ان کی بالیدگی اور یہی ان کے زخموں کا سبب۔
راولپنڈی کے کور کمانڈر جنرل گلزار کیانی نے ایک روز واران کے صدر دفتر پہ قبضہ کر لیا۔ اخبار میں خبر پڑھی تو حیران رہ گیا۔ عظمیٰ اور یوسف گل سے بات کی۔ روزنامہ جنگ میں ایک کالم لکھا "جنرل حمید گل کی بیٹی کے آنسو۔ " سرکارکا شکنجہ کچھ ڈھیلا ہوا۔ یہ الگ بات کہ زچ کرنے پر حکومت ادھار کھائے بیٹھی تھی اور جنرل صاحب کے حاسد تاک میں تھے۔
سرکار کے ساتھ معاہدے کے مطابق بس کا اجراہونے کے بعد روٹ نمبر ایک یعنی راولپنڈی کی مری روڈ پر چلنے والی ویگنوں کو بند ہو جانا تھا۔ متبادل روٹ انہیں مہیا کیے جاتے۔ چار پانچ ہزار آدمیوں کا روزگار اس سے وابستہ تھا؛چنانچہ وہ یکجا ہو گئے اور سیاسی پارٹیاں ان کی پشت پر آکھڑی ہوئیں۔ جی ہاں! جماعتِ اسلامی سمیت ساری سیاسی پارٹیاں۔
ووٹوں کی اتنی بڑی تعداد کو کون نظر انداز کر سکتا تھا۔ پی آئی اے، سٹیل مل اور درجنوں دوسرے سرکاری ادارے بارہ سو ارب روپے سالانہ برباد کرتے ہیں تو ایک سبب یہ بھی ہے کہ کارکن ووٹ رکھتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں انہیں رنجیدہ نہیں کرنا چاہتیں۔ ملک ڈوبتا ہے تو ڈوبتا چلا جائے۔
بسیں چلنا شروع ہوئیں تو آئے دن اخبارات میں سنسنی خیز خبریں چھپنے لگیں۔ جہاں کہیں کوئی تنازع ہوا یا پیدا کیا گیا، معرکے کی ایک روداد کسی اخبار کے صفحہء اول پہ جگمگا اٹھی۔ 1950ء کے عشرے سے سی آئی اے کے زیرِ اثر ایک اخبار اس میں پیش پیش تھا۔
اس امکان کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ ایک سو سے زیادہ بسوں میں کسی ایک کو کبھی کوئی حادثہ پیش آسکتاہے، اس اخبار نے پہلے سے ایک شعلہ فشاں رپورٹ مرتب کر رکھی تھی۔ (جاری ہے)