دونوں کی چھٹی
سازشوں کے شہر اسلام آباد میں ہر طرف بہار کے رنگ بکھرے نظر آتے ہیں لیکن یہ بہار بڑی عجیب ہے۔ اِس بہار میں پھولوں کی خوشبو سے زیادہ رنگ برنگی سازشوں کی بدبو پھیلی ہوئی ہے۔ شہر کے کچھ مضطرب لوگ ناک پر ہاتھ رکھ کر ایک دوسرے کو بتا رہے ہیں کہ وفاقی کابینہ میں حالیہ تبدیلیوں کے بعد بھی عمران خان کی حکومت معیشت کو نہ سنبھال سکی تو سب کی چھٹی ہو جائے گی۔ سسٹم کی بھی چھٹی ہو سکتی ہے اور ایسی صورت میں اپوزیشن کو بھی کچھ نہیں ملے گا۔ محمود و ایاز ایک ہی صف میں نہیں بلکہ ایک ہی جیل میں کھڑے نظر آئیں گے۔ عمران خان کے اپنے وزیر دفاع پرویز خٹک کہتے پھر رہے ہیں کہ کابینہ میں تبدیلیوں کے باوجود بہتری کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اگر اُنہیں وزارت داخلہ مل جاتی تو شاید وہ عمران خان کی تبدیلیوں کو خوش آئند قرار دے دیتے۔ ویسے تو اِن تبدیلیوں کو خوش آئند قرار دینا واقعی بڑا مشکل ہے کیونکہ اعظم سواتی کی کابینہ میں واپسی پر خود تحریک انصاف والے بھی حیران ہیں لیکن یہ تو ماننا پڑے گا کہ جس وزیراعظم کی حکومت صرف چار ووٹوں کی اکثریت پر کھڑی ہے، اُس نے پانچ ارکان قومی اسمبلی کی وزارتیں بدل دیں۔ کابینہ میں یہ تبدیلیاں بالکل بھی غیر متوقع نہیں تھیں۔ اِن تبدیلیوں سے ایک دن پہلے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں "پوٹھوہار لٹریری فیسٹیول" کا اہتمام کیا گیا تھا اور ایک سیشن میں مجھے "حق گوئی کے وارث" کے موضوع پر توثیق حیدر کے ساتھ گفتگو کرنا تھی۔
اصغر ندیم سید کے ذریعہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاءالقیوم کی دعوت ملی تو ہمیں ڈاکٹر شاہد صدیقی یاد آ گئے، جنہوں نے دو سال پہلے اِسی بہار کے موسم میں اِسی یونیورسٹی میں ایک لٹریچر فیسٹیول سجایا تھا۔ پوٹھوہار لٹریچر فیسٹیول میں مقامِ فیض پر آئی اے رحمان، منیزہ ہاشمی اور فاروق قیصر کی گفتگو سننے کا بہت اشتیاق تھا۔ یونیورسٹی پہنچا تو طلبہ اور اساتذہ نے کہا کہ ہمارا خیال تھا وزیر خزانہ بدلنے والا ہے، آپ آج نہیں آئیں گے۔ مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ لٹریچر فیسٹیول میں ہر کسی کو وزیر خزانہ کی تبدیلی کا انتظار تھا۔ اِس دوران عدیل ہاشمی کی نظامت میں فیض احمد فیضؔ کے بارے میں گفتگو شروع ہو گئی۔ آئی اے رحمان صاحب بتا رہے تھے کہ جب فیض صاحب پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر تھے تو خبر خود چل کر اُن کے پاس آیا کرتی تھی۔ آج کے پاکستان میں ایڈیٹر کا عہدہ تقریباً ختم ہو گیا ہے، خبر کسی ایڈیٹر یا رپورٹر کے پاس پہنچے نہ پہنچے، سوشل میڈیا پر چھلانگیں مارتی ہوئی عوام تک پہنچ جاتی ہے اور پھر افواہوں کے ہجوم میں گم ہو جاتی ہے۔ افواہوں کے ہجوم میں سے اصل خبر کو نکال کر سامنے لانے کا کام آج بھی اخبار اور ٹی وی چینلز کر رہے ہیں۔
اسد عمر کا کہنا ہے کہ اُنہیں وزارت خزانہ سے ہٹائے جانے کے فیصلے کا پہلے سے علم نہیں تھا۔ حیرت ہے کہ جب مراد سعید اور فیصل واوڈا نے کابینہ کے اجلاسوں میں اسد عمر پر فائر کھولا تو اُنہیں کیوں سمجھ نہ آئی کہ اُن کی وزارت خطرے میں ہے۔ 26 مارچ کو ہم نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں صاف صاف بتا دیا تھا کہ اسد عمر پر کابینہ میں بڑی تنقید ہو رہی ہے۔ کابینہ میں اُن پر تنقید کرنے والے فیصل واوڈا کیپٹل ٹاک میں موجود تھے، اُنہوں نے ہماری خبر کی تردید کرنے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
دو اپریل کو ہم نے کیپٹل ٹاک میں فواد چوہدری سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں آپ کی اور اسد عمر کی گرما گرم بحث ہوئی؟ اُنہوں نے اسے معمول کی کارروائی قرار دیا۔ پانچ اپریل کو اسد عمر نے کچھ صحافیوں کو بریفنگ کے لئے وزارت خزانہ میں بلایا۔ بریفنگ ختم ہونے والی تھی تو فواد چوہدری بھی آ گئے تاکہ ہمیں تاثر ملے کہ سب ٹھیک ہے لیکن اسی شام اسد عمر کو اُن کے ایک دوست صحافی نے بتا دیا تھا کہ آئی ایم ایف ک ساتھ مذاکرات کے بعد آپ کو فارغ کر دیا جائے گا۔ 12اپریل کو اُن کے ایک اور دوست صحافی نے اُنہیں امریکہ پیغام بھیجا کہ پاکستان واپسی پر آپ فارغ ہو جائیں گے لیکن اسد عمر ان سب خبروں کو غالب بن کر ہزاروں خواہشیں ایسی قرار دیتے رہے جن پر نجانے کس کس کا دم نکل رہا تھا۔ اسد عمر کی وزارت خزانہ سے فراغت کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال میں پانچ وزیر خزانہ تبدیل کئے تھے۔ پیپلز پارٹی کے چوتھے وزیر خزانہ حفیظ شیخ تھے۔
اُنہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے آخری دنوں میں وزارت خزانہ سے خود استعفیٰ دے دیا تھا۔ مسلم لیگ(ن) نے دو وزرائے خزانہ کے ذریعہ معیشت چلائی۔ اسد عمر پر بڑا اعتراض یہ کیا جا رہا ہے کہ اُنہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کر دی۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن تاخیر کی وجہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کی شرائط بڑی سخت تھیں۔ اسد عمر اِن شرائط کو نرم کرانے کی کوشش کرتے رہے اور اپنی کوشش میں کامیاب رہے لیکن اِس دوران کچھ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور صنعتکار اُن سے ناراض ہو گئے اور اُنہوں نے حکومت کے اندر اسد عمر کے خلاف بغاوت کرا دی۔ اسد عمر کے استعفے کے بعد میڈیا میں وہ لوگ بھی ایکسپوز ہو گئے جن کے پاس خبر خود چل کر نہیں جاتی بلکہ کسی کی خواہش خود چل کر جاتی ہے اور وہ کسی کی خواہش اور خبر میں فرق سمجھ نہیں پاتے۔ جب مختلف ٹی وی چینلز پر نئے وزیر خزانہ کے متوقع ناموں پر بحث جاری تھی تو حکومت کے ایک ذمہ دار نے کچھ ٹی وی چینلز کو حفیظ شیخ کا نام بتا دیا تاکہ قیاس آرائیاں ختم ہو جائیں۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حکومت کی طرف سے حفیظ شیخ کا نام دیئے جانے کے باوجود کچھ ٹی وی چینلز حفیظ پاشا کو وزیر خزانہ بنانے پر مصر تھے۔ شاید اِس لئے کہ حفیظ پاشا کو وزیر خزانہ بنانا کسی کی خواہش تھی، خبر نہیں۔ بہرحال اسد عمر کے استعفے پر کسی کو خوش نہیں ہونا چاہئے۔ وہ جنرل ایوب خان کے وزیر خزانہ محمد شعیب نہیں تھے جو ورلڈ بینک سے آئے اور آٹھ سال بعد واپس ورلڈ بینک چلے گئے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خزانہ شوکت عزیز بھی نہیں تھے، جو سٹی بینک سے آئے اور سٹی بینک واپس چلے گئے۔
وہ عمران خان کے وزیر خزانہ تھے، اُنہیں کہیں نہیں جانا، عمران خان کے ساتھ رہنا ہے۔ بہتر ہے وہ کابینہ میں واپس آ جائیں اور عمران خان کے ساتھ مل کر کام کریں۔ عمران خان کی ناکامی سے شاید کسی کی انا کی تسکین ہو جائے لیکن پاکستانیوں کو بہت نقصان ہو گا۔ خود عمران خان کو بھی کچھ معاملات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ اُنہیں پنجاب کو سنبھالنا ہو گا۔ پنجاب نہ سنبھلا تو عمران خان کے لئے پانچ سال پورا کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اپوزیشن حکومت پر تنقید ضرور کرے لیکن اپوزیشن کے کچھ رہنما عمران خان کو یہ پیغامات بھیجنا بند کر دیں کہ ہمیں باہر چلے جانے دو۔ ایسے پیغامات کمزوری اور منافقت کی نشانی ہیں، اِسی لئے عمران خان اپوزیشن کے قریب نہیں جاتے۔ کم از کم معیشت کو سنبھالنے کے لئے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے تعاون کریں ورنہ یاد رکھیں ایک کی ناکامی دوسرے کی کامیابی نہیں بنے گی۔ دونوں کی چھٹی ہو گی۔