طاقت اور مقبولیت کا قہر

خطا اولادِ آدم کا وصف ہے مگر جب کسی خطاکار کو طاقت و مقبولیت حاصل ہوتی ہے تو نسلِ انسانی پر ہی قہربن کر ٹوٹتا اور تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتا ہے۔ زمانہ شاہد ہے مقبولیت حاصل ہوتے ہی گمراہ ہوکر حضرت انسان وہ تباہی و بربادی کرتا ہے کہ داستانیں سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انسان ہی انسان کا دشمن بن جاتا ہے۔ مقبولیت کا مطلب تو محبت ہے مگر انسان کو یہ خدشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ کوئی دوسرا آکر مقبولیت چھین کر خود مقبول نہ ہو جائے۔
انسان کو طاقت مل جائے تو خود کو محفوظ بناتے ہوئے لوگوں کو کچلنے لگتا ہے۔ اِس طاقت و مقبولیت نے دنیا میں وہ قہر ڈھائے ہیں جس کی کوکھ نے جنگوں کو جنم دیا جن کے دوران لاکھوں کروڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ خامیوں و کوتاہیوں سے سیکھنا ہی دانشمندی ہے مگر دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑاتے ہیں تو انسان کا دشمن انسان ہی نظر آتا ہے۔ مملکتوں کی آبادی و رقبے میں اضافے سے طاقت و مقبولیت کی قہر ناکی کو وسعت ملی مگر انسان یہ بھول جاتا ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے فتح کے ہزاروں دعویدار جبکہ شکست لاوارث ہوتی ہے یہ تاریخ کا سبق ہے۔
جدید فرانس کا بانی نپولین بونا پارٹ ایک مقبول اور بہادر آدمی تھا۔ عوام کی محبت کو اُس نے دائمی سمجھ لیا اور کوشش کرنے لگا کہ صرف فرانس ہی کیوں وہ تو سارے یورپ کا شہنشاہ بن سکتا ہے۔ یہ زعم بھی ہوگیا کہ فرانس کی طرح پورے یورپ میں مقبول ہے۔ اسی خود پسندی نے بستیاں اور مملکتیں تاراج کرادیں یورپ کی سربراہی حاصل کرنے کے چکر میں لاکھوں مرد وزن قتل کرادیے اور پھر جب انگلینڈ کو مطیع باجگزار بنانے کے سفر کا آغاز کیا تو بڑھتے قدم رُک گئے۔
اِس سفر سے عروج کو زوال نے آگھیرا بیلجیئم کے علاقے واٹر لوکے مقام پر شکست ہوئی اور گرفتار ہوکر عمر کے آخری ایام ملک سے دور ایک قیدی کی حثیت سے بسر کیے۔ اِس طرح لوگوں کو قیدی بنانے کے چکر میں خود ہی قیدی بن گیا فرانس نے اُس کی باقیات لاکر پیرس کے مضافات میں ایک مقبرے میں دفن کررکھی ہیں جہاں راقم نے ہو کا منظر دیکھا۔ عام لوگ تو کُجا سیاحوں کی آمد بھی محدود ہے۔ ایک مقبول اور بہترین جنگجو نپولین بوناپارٹ تاریخ کا ایسا کردار ہے جس کی خوبیوں پر خامیاں حاوی ہیں کاش انسان طاقت و مقبولیت کو قہر بنانے سے گریز کرے۔
جان ایف کینڈی کی طاقت و مقبولیت کا زمانہ شاہد ہے اُسے بھی یقین ہوگیا کہ دنیا کے لیے ناگزیر ہے اور پھر ایک وقت وہ آیا کہ روس کو براہ راست جوہری جنگ کی دھمکی دے دی یہ ایسی دھمکی تھی جس سے دنیا کی تباہی یقینی تھی لیکن کب طاقت و مقبولیت کا پہیہ آگے کی بجائے پیچھے کی طرف گھومنے لگے؟ یہ انسان نہیں جان پاتا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ جان ایف کینڈی کو ایسے حالات میں گولی لگی کہ اُس کا سر ایک ناتواں بچے کی مانند اپنی بیوی کی گود میں تھا اور اسی حالت میں دم توڑ دیا اور مٹی کی چادر اوڑھ لی تو کوئی ہے ایسا دانشمند جو عبرت حاصل کرے؟ مگر تاریخ کا سبق ہے کہ کوئی حکمران تاریخ سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا تاآنکہ طاقت و مقبولیت چھن جائے۔
بینجمن نیتن یاہو اسرائیلی وزیرِ اعظم ہے اِسے اپنی مقبولیت بڑھانے کا جنون ہے اُس نے طاقت کے بے جا اظہار کو اپنا ہتھیار بنا لیا ہے۔ یہ سفاک شخص انسانوں کے قتل پر فخر کرتا ہے اور جو قتل ہونے سے بچ جائیں اُنھیں بھوک سے مارنے کی کوشش میں ہے۔ یہ بے رحم و سفاک شخص اپنے مقاصد کے لیے انسانی خون بہانے پر زرا شرمسار نہیں۔ لہو لہو غزہ اِس کے جرائم کا منہ بولتا ثبوت ہے یہ رحم جیسے جذبے سے کوسوں دور ہے۔ یہ مرنے والوں کی تعداد پوچھتا ہے اور پھر ایک خون آشام دیو کی طرح مسلم نسل کشی میں دوبارہ مصروف ہوجاتا ہے لیکن کیا اُس کا اقتدار ہمیشہ رہے گا اور تاریخ اُسے اچھے نام سے یادکرے گی؟ ناممکن۔ کچھ بھی تو دائمی نہیں جو دنیا میں آیا ہے ایک روز اُسے جانا ہے تو کیا بہتر نہیں کہ اچھی یادیں چھوڑی جائیں مگر اسے مسلمانوں کا خون بہانا اور مارنا مرغوب ہے کب اِس سے طاقت و اختیار کا ہتھیار کب چھنتا ہے نگاہ منتظرہے۔
شیخ حسینہ واجد مسلم ملک بنگلہ دیش کی تین بار وزیرِ اعظم رہیں یہ خود بھی مسلمان تھیں اور ملک کی مقبول ترین خاتون کا اعزاز بھی رکھتی تھیں یہ اپنی مقبولیت کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ ایک وقت آیا کہ اُسے اپوزیشن جماعتیں خطرہ محسوس ہونے لگیں جس کا توڑ گرفتاریاں اور پھانسیاں دینا سمجھ لیا گیا مگر جب اپوزیشن جماعتوں پر پابندیاں لگا کر انتخابی عمل سے ہی باہر کیا جانے لگا تو مخالفانہ تحریک زور پکڑنے لگی۔ اِسے پھر بھی عقل نہ آئی ہزاروں افراد کو قتل کرادیا آج عبرت کا نمونہ بنی اِس حال میں بھارتی شہر اگرتلہ میں مقیم ہیں کہ صرف جنونی مودی ہی اُسے دوست تصور کرتا ہے۔
بنگلہ دیش میں نفرت کا یہ عالم ہے کہ اُس کے باپ سے منسوب یادگاریں مٹانے کے ساتھ کرنسی نوٹوں سے تصویر تک ہٹادی گئی ہے۔ اِس لیے ملک میں واپسی کا بظاہر اب کوئی راستہ نہیں رہا کیونکہ مخالفانہ تحریک کے دوران ہزاروں بے گناہوں کا قتل ثابت ہوچکا ہے لہذا شاید جلاوطنی میں ہی آسودہ خاک ہو ناقسمت ہو اگر مقبولیت و طاقت کو مثبت مقاصد کے لیے استعمال کرتیں تو آج کم از کم انجام کچھ تو بہتر ہوتا۔
بھارت کے نریندرامودی کو کون نہیں جانتا، گجرات کے قصاب کے لقب سے معروف اِس شخص کی سیاست مسلم دشمنی ہے یہ بھارت کو ہندو ریاست بنانے کے لیے ملک سے مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں، بدھ مت اور نچلی زاتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ انتخاب جیتنے کے لیے مداری کی طرح ہر بار کوئی نیا داؤ آزماتا ہے جس کے نتیجے میں اُس کی خامیاں بُھلا کر ہندو اکثریت اُسے ووٹ دے دیتی ہے لیکن اِس بار ریاستی انتخابات سے قبل عوام کو کچھ نیا اور منفرد بتانے کی کوشش کی جموں کشمیر کے علاقے پہلگام میں اپنے اِداروں سے سیاحوں پر حملہ کرایا۔
مزید اشتعال انگیزی یہ کہ پاکستان کی فضائی حدودپا مال کرنا شروع کردیں، اِس حرکت کے دو مقاصد تھے اول ہندوؤں کو باور کرانا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ آورہے دوم خطے سے بھارتی بالادستی تسلیم کرانا لیکن دونوں مقاصد حاصل نہیں ہوسکے۔ فضائی جھڑپ میں واضح شکست سے اب نہ صرف مودی کا مزید عرصہ اقتدار میں رہنا دشوار ہے بلکہ ملک ٹوٹنے کا بھی خدشہ ہے۔ اگر یہ جنونی شخص بھلائی کے کام کرتا نفرت پھیلانے کی بجائے ملک میں افہام و تفہیم کی فضا بناتا تو ملک میں ایسے حالات ہرگز نہ ہوتے ایک شکست سے اُس کی مخفی خامیاں بھی اُجاگر ہوئی ہیں اور اب یہ جنونی شخص تاریخ کے اوراق کا ایک بدنما داغ بننے کے قریب ہے۔
مگر خطا اولادِ آدم کا وصف ہے اور جب کسی خطاکار کو طاقت اور مقبولیت حاصل ہوتی ہے توکسی اور پر نہیں نسل انسانی پر ہی قہر بن کر ٹوٹتا اور تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتا ہے۔