Wednesday, 25 December 2024
  1.  Home
  2. Hameed Ullah Bhatti
  3. Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

Pakistan Ke Missile Program Par Americi Khadshat

پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی خدشات

پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ کے آٹھ عشرے مکمل ہونے والے ہیں۔ اِس دوران دونوں ایک دوسرے کی کئی ضرورتیں پوری کیں مگر خاص بات یہ ہے کہ جونہی امریکی ضرورت پوری ہوگئی تو تعلقات میں اُتار چڑھاؤ آتا رہا اسی لیے گرمجوشی اور سرد مہری کا عکس واضح نظر آتا ہے، مگر کبھی ایسی نوبت نہیں آئی کہ پاکستان کو امریکہ کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہو۔

ماضی میں پاکستان نے امریکہ کے لیے طویل خدمات سرانجام دیں جن میں چین و امریکہ کو قریب لانا اور روس جیسی سُپر پاور کے بڑھتے قدم روکنا قابل زکر ہے جس کے صلے میں پاکستان کو نہ صرف امداد ملتی رہی بلکہ کسی حد تک دفاعی ضروریات بھی پوری کی جاتی رہیں اور جوہری پروگرام کے حوالے سے نرمی کا فائدہ ملتا رہا جبکہ امریکہ نے جو کہا پاکستان نے وہی کیا۔ ضروریات نے دونوں کو جوڑے رکھا مگر اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے۔

پاکستان کی اِس لیے امریکہ کو ضرورت نہیں رہی کہ روس کی حالت اب ایسے زخمی اور معزور شیر کی ہو چکی ہے جو بہت کمزور ہوچکا ہے جس میں امریکی اہداف کو نشانہ بنانے کی استعداد نہیں رہی اِس لیے روسی خطرے کی کوئی خاص پرواہ نہیں رہی بلکہ روس کی جگہ چین کو اولیں خطرہ تصور کیا جانے لگا ہے جو معاشی حوالے سے تیز ترین ترقی کرتے ہوئے دنیا میں اہم حثیت اختیار کرتا جا رہا ہے۔

امریکہ کی کوشش ہے کہ چین کو کچھ اِس طرح تنازعات میں الجھایا جائے کہ وہ اپنی معیشت پر توجہ ہی نہ دے سکے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے جاپان اور بھارت جیسے ممالک کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جوتکمیل کے مراحل میں ہیں کیونکہ روس کیخلاف پاکستان کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور چین کے منصوبے سی پیک کا حصہ بن کر پاکستان نے جو غلطی کی ہے نے امریکی خفگی کو دعوت دے ڈالی ہے۔

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کو امریکہ کے لیے اُبھرتا ہوا خطرہ کہنے پر واقفانِ حال کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ چین سے قریبی تعلقات بنانے پر پاکستان کو معاشی اور دفاعی حوالے سے مضبوط کرنا امریکی مفاد میں نہیں۔ امریکہ چاہتا ہے بھارت خطے میں تمام خطرات سے بے نیاز ہوکر چین کی معاشی راہ روکے لیکن ایک مضبوط و مستحکم پاکستان اِس مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ ایک انٹرویو کے دوران جب پاکستان کی جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے بارے پوچھا گیا تو امریکہ کے ڈپٹی نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جون فائز نے مضحکہ خیز اور عجیب و غریب جواب دیا کہ ہمارے لیے پاکستان کے اقدامات کو امریکہ کے لیے اُبھرتے ہوئے خطرے کے علاوہ کسی اور چیز کے طورپ ر دیکھنا مشکل ہے۔

بائیڈن انتظامیہ کا یہ لب و لہجہ اور سوچ دراصل ایسی کوشش ہے جس کے تحت پاکستان کو آزاد و خود مختار ملک کی بجائے ایک ایسی ریاست بنانا ہے جو اپنے مفاد کے مطابق آزادانہ فیصلے کرنے سے زیادہ امریکی مفاد کو پیشِ نظر رکھے مگر چین سے تعلقات کے حوالہ سے پاکستان ابھی تک کسی دباؤ کو خاطر میں نہیں لا رہا نیز روس سے تجارتی و دفاعی تعلقات بڑھانا بھی ناپسندیدگی کی ایک اور وجہ ہے۔ اسی بنا پر پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کا الزام لگا کر کئی کمپنیوں اور اِداروں پر پابندیاں لگانے کا عمل شروع کیا گیا ہے مگر حالات ایسے ہیں کہ شاید ہی پاکستان دباؤ میں آئے۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ جوہری پروگرام کی طرح لاحق خطرات کے توڑ کے لیے محدود وسائل سے اپنا میزائل پروگرام کا عمل جاری رکھے گا۔

پاکستان کسی صورت بھارت سے لاحق خطرات کو نظرانداز نہیں کر سکتا جو خطے کی معاشی و دفاعی طاقت بننے کی کوشش میں ہے۔ بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان نے بھی تمام تر عالمی دباؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی مفاد میں جوہری صلاحیت کا اظہار کیا۔ اب بھی بھارت کی جنونی سرکار کے دماغ کو درست رکھنے کے لیے میزائل پروگرام کو ترقی دینا پاکستان کی مجبوری ہے۔ پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں اِن حالات میں وہ ہتھیاروں میں خودکفالت کے ساتھ عالمی منڈی میں فروخت سے زرِ مبادلہ بھی حاصل کررہا ہے تو بھلا کیوں کسی کی ہدایات کوخاطرمیں لائے گا؟

پاکستان ماضی میں صرف طفیلی ریاست جیسا کردار ادا کرتا رہا۔ اب کسی پر تکیہ کرنے کی بجائے دفاعی حوالے سے اپنی استعدا د میں اضافہ کرے اور خودانحصاری کی پالیسی اپنائے یہ امریکہ کو پسند نہیں حالانکہ 2012 سے امریکہ نے جب پاکستانی میزائل پروگرام پر تشویش کا اظہار کرنا شروع کیا تو امریکی تحفظات دور کرنے کے لیے پاکستان نے کافی سنجیدہ کوششیں کیں۔ پڑوس سے لاحق خطرات کے توڑ اور جنوبی ایشیا میں امن و استحکام برقرار رکھنے کے لیے دفاعی صلاحتیوں میں اضافے کی ضروریات سے آگاہ کیا تاکہ امریکی بداعتمادی کا خاتمہ ہو لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

جنوبی ایشیا میں بھارت کے علاوہ کسی اور ملک کا مضبوط و مستحکم ہونا امریکی سربراہی میں قائم کواڑ کے لیے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے اسی لیے امریکی خواہش ہے کہ پاکستان جوہری و میزائل پروگرام پر پیش رفت روک دے۔ پاکستان سے بھارت جو چاہتا ہے وہ بزریعہ امریکہ حاصل کرلیتا ہے دونوں ممالک میں بظاہر براہ راست مزاکرات میں تعطل ہے لیکن امریکی وساطت سے پیش رفت جاری ہے یہ امریکہ کی حددرجہ نوازشات جانبداری کی عکاس ہیں۔

پاکستان کے میزائل پروگرام پر امریکی خدشات اِس بنا پر بھی غیر حقیقی اور بے بنیاد ہیں کہ بھارت کا میزائل پروگرام پاکستان سے زیادہ ترقیافتہ ہے اِس کے باوجود روس، امریکہ، اسرائیل، برطانیہ وغیرہ سے جدید ترین اسلحہ خرید رہا ہے مگر امریکہ یا کسی اور عالمی طاقت کی طرف سے کبھی کوئی اعتراض سامنے نہیں آیا۔ بھارت نے جوہری تجربات کیے مگر اقوامِ عالم نے کوئی سرزنش نہ کی البتہ پاکستان کو جواب میں جوہری تجربہ کرنے سے روکنے کی ہرممکن کوشش کی اور جب پاکستان نے عالمی دباؤ کو خاطر میں لائے بغیر جوہری صلاحیت کا اظہار کر دیا تو مختلف نوعیت کی عالمی پابندیوں کی زد میں آگیا۔

جوہری ہتھیار تیار کرنے میں استعمال ہونے والا تابکاری مواد بھارت میں غیر محفوظ ہے یہ مواد نجی ہاتھوں میں فروخت کرنے جیسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جنھیں عالمی طاقتوں نے نظر انداز کیا حالانکہ یہ مواد کسی جنونی کے ہاتھ لگنا نقصان دہ ہوسکتا ہے مگر تمام طاقتیں خاموش ہیں جبکہ پاکستان کے پُرامن اور محفوظ جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات ظاہر کرنا معمول ہے۔

پاکستان کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اُس کا میزائل پروگرام صرف دفاعی نوعیت کا ہے اِس لیے امریکی خدشات کو جانبداری کہہ سکتے ہیں کیونکہ بھارت کی ہمسایہ ممالک میں مداخلت عیاں حقیقت ہے اسی بنا پر بنگلہ دیش، سری لنکا، مالدیپ سے لیکر نیپال تک نفرت عروج پر ہے۔ اگر امریکہ دنیا میں امن چاہتا ہے تو اُسے جانبدارانہ پالیسی چھوڑکر تنازعات کو حل کرنا ہوگا بھارت اور اسرئیل جیسے مذہبی جنونی ممالک کی جارحانہ حکمتِ عملی کی سرپرستی سے امن کی بجائے تنازعات بڑھیں گے اور دنیا مزید غیر محفوظ ہوگی۔

Check Also

Jamia Tur Rasheed Nayi Raahon Ka Ameen

By Abid Mehmood Azaam