اسی عطار کے "چھوہرے" سے دوا
نومنتخب وفاقی کابینہ سے گزشتہ دنوں ایوان صدر میں صدر مملکت آصف علی زرداری نے حلف لیا۔ اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف بھی موجود تھے۔ وفاقی کابینہ کی تقریب حلف برداری کے بعد منعقد ہونے والے پہلے اجلاس میں وزیراعظم نے نئی حکومت کے سامنے موجود چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مٹھی بھر اشرافیہ 90 فیصد وسائل پر قابض ہے اشرافیہ کے لئے سبسڈی کا کوئی جواز نہیں اسے ختم کرکے عام آدمی کو ریلیف دیاجائے گا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ غریب مہنگائی میں پس کر رہ گیا ہے حکومت کا سب سے بڑا امتحان قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔ ہمیں قرض نہیں سرمایہ کاری کی بات کرنا ہوگی۔ یہ بھی کہا کہ اب یا کبھی نہیں کا مرحلہ آگیا ہے۔
وزیراعظم کی مندرجہ بالا باتیں کانوں کو بھلی لگتی ہیں لیکن یہ نئی بات ہرگز نہیں ہر منتخب حکومت کا سربراہ اور دیگر ذمہ داران ابتدائی دنوں میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں انتخابی عمل کے دوران اپنی اپنی جماعت کے منشور سے عوام کو لبھانے والوں میں سے اقتدار سازی کا حق جسے ملتا ہے وہ ایسے ہی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے عوام کو یقین دلاتا ہے کہ ان سے نمٹنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی جائے گی اور یہ بھی کہ اشرافیہ کی بجائے عوام پر توجہ دی جائے گی۔
یہ دعوے پورے نہیں ہوپاتے اس کی صاف سیدھی وجہ یہ ہے کہ اقتدار ہمیشہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کے پاس ہی ہوتا ہے صرف حکومت کی تبدیلی پر چہرے تبدیل ہوتے ہیں۔ نومنتخب حکومت کی وفاقی کابینہ ہو یا چاروں صوبوں کی نئی صوبائی کابینائیں، ان میں معاشرے کے عام طبقات کا حصہ تو تب ہو جب سیاسی جماعتیں انتخابی عمل کے دوران عام طبقات کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے لئے ٹکٹیں دیں۔
مروجہ سیاست میں 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات سے انتخابی عمل جمہوری اقدار و روایات پر استوار نہیں رہا بلکہ یہ تاجرانہ فہم پر استوار ہوگیا ہے۔ عام آدمی تو کسی بلدیہ کی کونسلری کا الیکشن نہیں لڑسکتا اس نے صوبائی یا قومی اسمبلی کے امیدوار کے طور پر کروڑوں روپے کہاں سے خرچ کرنے ہیں۔ سیاسی عمل کو منفعت بخش تجارت بنانے میں مارشل لاء ادوار کا بنیادی کردار ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت پسند کہلانے والوں نے بھی مزاحمت نہیں کی بلکہ انہوں نے الیکٹیبل کے حصول کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے ہر ہتھکنڈہ آزمایا، نتیجہ آج 25کروڑ عوام کے سامنے ہے۔
سیاسی جماعتیں مخصوص نشستوں یا ایک دو جنرل نشستوں پر معاشرے کے عام طبقات سے امیدوار نظر وٹو کے طور پر لاتی ہیں یہ جیت گئے تو ہر طرف واہ واہ ہوگئی ہار گئے تو بس یہ کہہ دیا "عام آدمی کو تو عام آدمی بھی ووٹ نہیں دیتا"۔
وزیراعظم نے جن مسائل کی نشاندہی اور چیلنجز کا اعتراف کیا وہ نئے ہرگز نہیں۔ جناب شہباز شریف پی ڈی ایم کی 16 ماہ والی حکومت میں بھی وزیراعظم ہی تھے ان کی حکومت نے 2 بجٹ پیش اور منظور کرائے وہ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی پچھلی حکومت کے دو وفاقی بجٹس عوام دوست تھے؟ یا اس حکومت نے اشرافیہ کی بالادستی توڑنے کے لئے ہلکے پھلکے اقدامات ہی اٹھائے۔
بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی سولہ ماہ والی پچھلی حکومت کے دو بجٹس میں اشرافیہ کے لئے مختص رقوم کے مقابلہ میں قابل ذکر حصہ بھی عوام کے لئے نہیں رکھا گیا یہی نہیں بلکہ اس حکومت نے مہنگائی اور غربت وغیرہ جیسے مسائل کا ذمہ دار اپنی پیش رو پی ٹی آئی کی اس حکومت کو ٹھہرایا جو اپنے ساڑھے تین سال کے دور اقتدار میں ہر ناکامی کا ذمہ دار سابق حکومت کو ٹھہراکر عوام کو بتاتی رہی کہ پچھلی حکومتوں نے ملکی خزانہ لوٹا اور قرضوں کا بوجھ لاددیا۔
ایسی ہی کہانیاں پی ڈی ایم حکومت کے ذمہ داران بھی 16 ماہ تک سناتے رہے ان کی آنکھوں کے سامنے اور ناک کے نیچے عام شہری کے حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔
بالفرض ہم اگر یہ مان بھی لیں کہ موجودہ حکومت بہتر کارکردگی پر توجہ دے گی تو پھر اس سوال سے کیسے آنکھیں چرائی جائیں کہ وزیر خزانہ کے طور پر ناکام ترین شخص جسے اپنی زبان پر قابو نہیں کو کابینہ میں اہم ترین وزارت (وزیر خارجہ) دے کر کیا پیغام دیا گیا ہے؟
اس امر پر دو آراء نہیں کہ ملک میں اس وقت معاشی اور سیاسی عدم استحکام سے پیدا شدہ مسائل آسمان کو چھورہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام سے نجات تو کیا ملنا ہے اس میں کمی ہوتی بھی دیکھائی نہیں دے رہی۔ وجہ یہی ہے کہ ایک سابق حکمران جماعت تحریک انصاف سیاسی مفاہمت پر آمادہ نہیں بلکہ وہ محاذ آرائی پر تلی ہوئی ہے اس کی قیادت نے حالیہ انتخابات کے نتائج کے حوالے سے جو بیانیہ بنایا وہی میڈیا کے تینوں میڈیمز میں معروف ہے۔
حکمران اتحاد میں شامل تینوں بڑی جماعتیں تو اس بیانیہ کے جھول ہی ثابت نہیں کرپائیں چہ جائیکہ پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرپاتیں۔
سیاسی عدم استحکام اگر جوں کا توں رہتا ہے تو معاشی بہتری کے دروازے کیسے کھلیں گے؟ ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد صرف سیاسی استحکام اور قانون کی عملداری قائم ہونے سے بحال ہوسکتا ہے۔
یہاں حالت یہ ہے کہ موجودہ حکمران اتحاد کی ایک بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے ہم خیال سرمایہ داروں کی اکثریت بیرون ملک سرمایہ کاری کو ترجیح دیتی ہے۔ خود شریف خاندان کے کاروبار کا بڑا حصہ بیرون ملک منتقل ہوچکا ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب تک مختلف امور کے حوالے سے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی وضع نہیں کی جاتی مثبت فضا بننے اور بہتری آنے کی توقع عبث ہے۔
دوسری جانب عوام کی حالت یہ ہے کہ وہ مہنگائی کے "بیلنے" میں آئے ہوئے ہیں۔ مہنگائی میں کمی کے لئے اگر کبھی کوئی اقدام ہوا بھی تو نشانہ پرچون فروش بنتے ہیں گویہ پرچون فروش بھی دودھ کے دھلے ہرگز نہیں لیکن مہنگائی کے اصل ذمہ دار تو سرمایہ دار، سٹاکٹس اور آڑھتی ہیں، ان طبقوں کے لوگ چونکہ بااثر ہوتے ہیں سیاسی جماعتوں اور لوگوں تک ان کی شخصی رسائی اور مالی معاونت ہوتی ہے اس لئے ان کے خلاف کارروائی ہمیشہ زبانی جمع خرچ ثابت ہوتی ہے۔
فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ صرف پانچ دنوں کے دوران پیاز کی فی کلو قیمت میں 110روپے اضافہ ہوا۔ یہ ایک مثال ہے اس سے تلخ مثال یہ ہے کہ رمضان سے قبل ساڑھے چار سو روپے تک فروخت ہونے والی کھجور یکم رمضان المبارک کو آٹھ سو روپے کلو تک فروخت ہوئی۔
دوسری اشیاء سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کا بھی یہی حال ہے ان حالات میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے فرائض اور عوام کو ریلیف دلانے کی ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برآ ہوں گی یہ بذات خود ملین ڈالر کا سوال ہے۔
بظاہر عوام کے پاس نئی حکومت کے وعدوں پر اعتماد اور جی بہلانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں۔ صورتحال "دن کہاں بدلتے ہیں غریب زادوں کے" مصداق ہی ہی رہتی دیکھائی دیتی ہے۔
اس کے باوجود امید کا دامن چھوڑنے کی بجائے حکومت سے توقعات باندھ لی جائیں تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر مہنگائی، غربت اور بیروزگاری جیسے چیلنجز سے حکومت وقت عہدہ برآ نہ ہوسکی تو مایوسیوں اور محرومیوں کا آتش فشاں پھٹنے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔
ایسا ہوا تو پھر ہر خاص و عام بری طرح متاثر ہوگا۔
"ہم نیک و بد حضور کو بتلائے دیتے ہیں"