پی ٹی آئی اور مولانا ملاقات پر شور کیسا؟
اگر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اے آر ڈی میں بٹیھ سکتے ہیں، دونوں کے درمیان میثاق جمہوریت ہوسکتا ہے، پی ڈی ایم میں اکٹھے ہوسکتے ہیں تو پھر تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں برائی کیا ہے۔ کیا خود مولانا فضل الرحمن اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایم آرڈ کی قربتوں کے باوجود اگلے برسوں میں"کھلی جنگ" نہیں رہی؟
اس کھلی جنگ میں ہی جے یو آئی نے نوابزادہ نصراللہ خان کے ساتھ مل کر محترمہ بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران سلمان رشدی کی "متنازعہ" کتاب کے معاملے پر خونی احتجاج کیا تھا۔
اس خونی احتجاج کے علاوہ عورت کی حکمرانی والا مسئلہ اٹھایا گیا اس "نازک" مسئلہ پر عطاء الحق قاسمی نے شرعی جذبہ سے جو کالم لکھا تھا وہ ہماری صحافتی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔ پھر مولانا کئی بار پیپلزپارٹی کے اتحادی رہے۔ 1993ء سے 1997ء تک والی حکومت میں۔ 2008ء سے 2013ء تک والی پیپلزپارٹی کی حکومت میں بھی اچھے اتحادی تھے۔
پیپلزپارٹی سے مولانا کے اچھے تعلقات میں تلخی پی ڈی ایم کی تشکیل کے دنوں میں در آئی۔ یاد کیجئے کہ پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں مولانا فضل الرحمن اور بلاول کے درمیان سخت الفاظ کا تبادلہ اس وقت ہوا تھا جب مولانا نے اپنے خطاب میں عمران خان اور تحریک انصاف کے خلاف اپنے روایتی موقف کا اظہار کرتے ہوئے اس مخالفت کو ختم نبوت ﷺ کے مسئلہ سے جوڑا۔
بلاول کی وجہ سے ہی پی ڈی ایم کے اس اجلاس میں مذہبی کارڈ والی قرارداد پاس نہ ہوسکی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی یہ تنازع تب مزید بڑھا جب مولانا عبدالغفور حیدری نے پی ڈی ایم کے اجلاس سے اٹھ کر ایک مخصوص میڈیا ہائوس کے صحافیوں کو دو تین گرماگرم خبریں فراہم کیں۔ ان میں یہ خبر بھی شامل تھی کہ پی ڈی ایم اور اتحادی اسمبلیوں سے مستعفی ہوجائیں گے۔ یہ پرانی باتیں ہیں لیکن ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔
کیا ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے ہاتھوں سے کوہالہ کے پل پر پھانسی دینے کا اعلان کرنے والے ایئرمارشل (ر) محمد اصغر خان ایک دن ایم آرڈی کا حصہ نہیں بنے؟ بھٹو کے خلاف امریکہ اور فوج کے ایما پر تحریک نظام مصطفیﷺ چلانے والے پاکستان قومی اتحاد کی کتنی جماعتیں بعدازاں مارشل لاء مخالف سیاسی اتحاد ایم آرڈی کا حصہ بنیں؟
اسلامی جمہوری اتحاد اور پھر مسلم لیگ (ن) نے پیپلزپارٹی اور بھٹو خاندان کے خلاف جو زہریلا اور سوقیانہ پروپیگنڈہ کیا اس کے بعد کیا یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ اگلے برسوں میں جنرل مشرف کی فوجی آمریت دونوں جماعتوں کو اے آر ڈی نامی اتحاد میں اکٹھا بیٹھادے گی؟
یہ وہ سب باتیں، نکات اور سوالات ہیں جن کے پیش نظر تحریک انصاف کے وفد کا اسد قیصر کی سربراہی میں مولانا فضل الرحمن سے ملنا حیرانی کا باعث نہیں۔ البتہ یہ ملاقات عمران خان کی خواہش اور اجازت سے ہوئی یا خیبر پختونخوا کے اس مخصوص سماجی ماحول کی وجہ سے جس پر ایک خاص عقیدے کی انتہا پسندانہ رائے غالب ہے، اس کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اسی کے پیش نظر ہماری دانست میں یہ اہم سوال ہے آپ مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کرنے والے تحریک انصاف کے وفد میں شامل افراد کے ماضی بارے معلومات حاصل کرلیجئے اس ملاقات کا پس منظر سمجھ میں آجائے گا۔
پی ٹی آئی کے وفد کے سربراہ اور ایک اہم رکن دونوں کا خاندانی تعلق جہادی فہم کے حامل خاندانوں سے ہے۔ اسد قیصر اور بیرسٹر سیف کے خاندانوں کے متعدد افراد ماضی کے افغان جہادی گروپوں کے علاوہ کالعدم ٹی ٹی پی سے پرجوش تعلق رکھتے ہیں۔ خود اسد قیصر بھی جوانی میں پرجوش مجاہد جہاد افغانستان تھے۔
یہ ملاقات کیوں ہوئی اس کی ایک وجہ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا وہ اجلاس ہے جس میں خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے ارکان نے ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ پارلیمانی اشتراک پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ دوسری وجہ پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ مولانا فضل الرحمن مبینہ انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کے لئے ایک اتحاد کی طرف بڑھیں۔
پی ٹی آئی پنجاب اور سندھ میں تو بدترین انتخابی دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے سرپھوڑنے پر آمادہ ہے لیکن جونہی خیبر پختونخوا کے انتخابی نتائج کی بات آتی ہے تو اس کا موقف ہوتا ہے ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے۔
ادھر مولانا فضل الرحمن کی انتخابی دھاندلی کے حوالے سے سب سے زیادہ شکایات صوبہ خیبر پختونخوا کے حوالے سے ہیں۔ ان کا "خیال" ہے کہ جس ایجنسی نے 2002ء کے قومی انتخابات کے دوران خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ایم ایم اے کے لئے معاملات "سدھارے" اسی ایجنسی کے ایک دھڑے نے 8 فروری 2024ء کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کے لئے "کام" کئے۔
یہ خیال کہاں تک درست ہے اور درست ہے تو کیا جنرل پرویز مشرف کے دور کی طرح ایک بار پھر ایجنسیوں کی ترجیحات مختلف ہیں؟ ایسا ہے تو اب "جاوید ہاشمی" کون ہوگا؟
معاف کیجئے گا بات سے بات نکلتی چلی گئی لیکن یہ ہماری سیاسی تاریخ کے شب و روز کی ہی باتیں ہیں۔ تلخ، عجیب، قلابازیوں اور "دیگر" سے عبارت۔ بات پھر وہی ہے وہ یہ کہ تحریک انصاف کے وفد کی مولانا سے ملاقات پر اتنا ہنگامہ کیوں؟
یہاں جماعت اسلامی اور نیشنل عوامی پارٹی ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں ایوب مخالف سیاسی اتحاد میں اکٹھے تھے۔ پھر ایوب مخالف عوامی تحریک میں بھی۔ جماعت اسلامی اور این ڈی پی (یہ جماعت نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کے بعد بنی تھی) بھٹو مخالف اتحاد یو ڈی ایف میں اکٹھے رہے پھر پاکستان قومی اتحاد میں بھی۔
سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا۔ سیاسی ترجیحات بدلتی رہتی ہیں اس لئے دوست اور دشمن بھی بدلتے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب ایک مخصوص سرکاری محکمے کے افسر ماڈل ٹائون اور ڈیوس روڈ پر مسلم لیگ کے دفتر میں قائم آئی جے آئی کا میڈیا سیل چلاتے تھے۔
بھٹوز اور پیپلزپارٹی کو دیکھ کر میاں نوازشریف کا خون کھول اٹھتا تھا پھر ایک وقت میں میاں نوازشریف نے کہا محترمہ بینظیر بھٹو ہمارے لئے قابل احترام بہن ہیں۔
پاکستانی سیاست میں نظریات اور تحمل کم کم ہی ہوتے ہیں۔ پنجاب میں و یسے بھی مولا جٹ اسٹائل پسند کیا جاتا ہے۔ اب تو مذہبی ٹچ بھی ہاتھوں ہاتھ لئے جاتے ہیں۔
مثلاً کبھی عمران خان نے کہا تھا "اللہ تعالیٰ نے مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کیا"۔ گزشتہ روز علی محمد خان کہہ رہے تھے "ہم اقتدار میں آئے تو "فتح مکہ" کے ماڈل کو اپنائیں گے"۔
ہماری مروجہ سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کوئی کِل سیدھی نہیں۔ صرف مروجہ سیاست ہی نہیں اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوئی کِل سیدھی نہیں۔
2002ء کے عام انتخابات کی طرح حالیہ انتخابات میں بھی اسٹیبلشمنٹ تقسیم دیکھائی دی۔ باردیگر عرض ہے حالات، سیاسی و معاشی معاملات معمول پر آتے دیکھائی نہیں دیتے۔ مسلم لیگ (ن) وفاق اور پنجاب میں حکومتیں بنانے جارہی ہے لیکن اس کی اعلیٰ قیادت میں مایوسی صاف دیکھی جاسکتی ہے۔
گزشتہ روز جاتی امراء میں منعقدہ مشاورتی اجلاس میں میاں نوازشریف سمیت چند رہنما اس امر پر متفق تھے کہ وفاق میں مخلوط حکومت بنانے کی بجائے صرف پنجاب میں حکومت بنائی جائے۔ انتخابی نتائج نے میاں نوازشریف کو مایوس کیا ہے۔ البتہ یہ کہنا کہ میاں نوازشریف انتخابی نتائج کی مایوسی کی بدولت وزیراعظم بننے سے پیچھے ہٹے، درست بات نہیں۔
درست بات کے لئے ہمیں 2023ء میں میاں شہباز شریف کی لندن سے آمد کے بعد گوجرانوالہ میں ہوئی ایک ملاقات کو ذہن میں لانا ہوگا۔ اس ملاقات میں شہباز شریف سے کہا گیا تھا کہ میاں نوازشریف کو ذرا تھام اور سنبھال کر رکھیں کچھ باتیں مزید بھی ہوئیں۔
ان باتوں کا نتیجہ جناب نوازشریف کا اپنی بجائے شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانا اور اپنی صاحبزادی مریم نواز کو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لئے پارٹی سے نامزد کرانا ہے۔
غوروفکر اور سمجھنے والوں کے لئے اس میں بہت ساری نشانیاں اور رہنمائی موجود ہے۔
آخری بات اگر پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کا پارلیمانی اشتراک نہ بن پایا تو اس کے ذمہ دار ایم ڈبلیو ایم کے وہ "سپر انقلابی" ہوں گے جنہوں نے بے موسمی دھمال ڈالتے ہوئے ایسی دھول اڑائی کہ حقیقت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔