محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت
27 دسمبر محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کا دن ہے۔ 27 دسمبر 2007ء کی شام اترنے سے کچھ دیر پہلے انہیں راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر اس وقت شہید کردیا گیا جب وہ ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرکے واپس جانے کیلئے روانہ ہوئیں۔
ان کی شہادت کے ذمہ داران کے حوالے سے ایک کہانی وہ ہے جو جنرل مشرف کی حکومت نے بیچی۔ ایک کہانی اس بنیاد پر ترتیب دی گئی کہ چونکہ ان کی شہادت کا بینیفشری آصف علی زرداری ہے اس لئے ان کے قتل میں اس کا ہاتھ ہے۔
اس دوسری کہانی کی دلچسپ سطر یہ ہے "زرداری نے ناہید خان کو فون کرکے کہا بی بی سے کہوگاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دے"۔
کچھ کہانی کاروں نے ناہید خان کی جگہ آصفہ بھٹو (بینظیر بھٹو کی چھوٹی صاحبزادی) کا نام بھی لکھا کہ "زرداری نے بیٹی کو فون کرکے کہا کہ اپنی والدہ کو فون کرکے ان سے کہو کہ گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں کے نعروں کا جواب دیں"۔
مشرف سرکار کی کہانی کے مختلف حصے ہیں ایک میں کالعدم تحریک طالبان کو اس قتل کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ثبوت کے طور پر ایک ٹیلیفونک گفتگو پیش کی گئی اسی کہانی کے دوسرے حصے میں سولہ برس کے اعزاز شاہ کو ماہر مجرم کے طور پر پیش کیا گیا۔
تیسرا حصہ بہت دلچسپ ہے وہ یہ کہ وفاقی وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے چند گھنٹے بعد غالباً شب کے سوا بارہ بجے پریس بریفنگ کے دوران یہ بتایا کہ "تفتیش کاروں کو لیاقت باغ میں جلسہ کے لئے بنائے گئے سٹیج کے عقب سے ایک غیر ملکی کی نعش ملی ہے۔ ان سے پوچھا گیا غیرملکی کی قومیت کے حوالے سے ابتدائی اطلاع کیا ہے؟
جواب میں کہنے لگے میں ابھی اتنا ہی بتاسکتا ہوں جو بتاچکا مزید تفصیلات ظاہر کرنے سے تفتیش متاثر ہوگی۔
وزارت داخلہ کے یہ ترجمان 28 دسمبر 2008ء کو دن کے اڑھائی بجے دی گئی پریس بریفنگ میں غیر ملکی کی لاش ملنے کی بات پوچھے گئے سوالات کے جواب میں گزشتہ شب کی اپنی ہی بات سے مکرگئے بولے آپ لوگوں (ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی میں نے غیرملکی کی لاش سٹیج کے عقب سے ملنے کی بات نہیں کی"۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں نے جن کی اکثریت پچھلی شب کی پریس بریفنگ میں موجود تھی، حیرانی سے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر بریگیڈیئر (ر) جاوید اقبال کو جو جوتوں سمیت پریس بریفنگ کے لئے آنے والے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی آنکھوں میں گھسنے کی کوشش کررہا تھا۔
اعزاز شاہ جسے مشرف سرکار نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے واقعہ میں ملزم ٹھہرایا تھا اسی برس یعنی جولائی 2007ء میں ایبٹ آباد سے گرفتار ہوا تھا گرفتاری کے وقت بتایا گیا کہ وہ وفاقی وزیر داخلہ آفتاب احمد شیرپائو کے قتل کے منصوبہ سازوں میں شامل ہے۔
جولائی میں گرفتار ہونے والا 27 دسمبر کو لیاقت باغ کے باہر ہونے والی دہشت گردی کی واردات کا ایک اہم کردار قرار دیا گیا یہ اسی طرح کی احمقانہ بات تھی جو اس سوال پر کی گئی کہ "اگر بعض اطلاعات کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں لیزر بیم گن استعمال نہیں ہوئی تو کیوں جائے وقوعہ کو کلین کرنے کے لئے فائر بریگیڈ کی مدد لی گئی کیا وجہ تھی کہ حادثے والی جگہ کے اردگرد موجود درختوں اور سامنے والی دو عمارتوں کی سڑک (لیاقت باغ والی) کی طرف والی دیواروں کو بھی پانی سے کیوں دھویا گیا؟
ایک ڈھکوسلہ نما جواب ملا، جائے وقوعہ کو دھونے اور صاف کرنے کا مقصد صرف حالات کو بہتر بنانے کے لئے تھا۔ یعنی کرائم سین کی جزئیات کو سمجھنے کسی قسم کا ثبوت یا اشارہ ملنے کی ضرورت کو نظرانداز کردیا گیا کیوں؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کبھی کسی نے نہیں دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کالموں میں، میں نے تواتر کے ساتھ عرض کیا کہ اس وقوعہ میں لیزر بیم گن استعمال ہوئی ہے۔ تب ایک طبقہ تمسخر اڑاتے ہوئے دو باتیں کہتا تھا، لیزر بیم گن کبھی دیکھی بھی ہے۔ یا یہ کہ یہ بس سازشی تھیوری ہے لیکن اس موضوع پر آگے چل کر متعدد بار عرض کیا، لیزر بیم گن کے استعمال کے حوالے سے روسی ایجنسی "کے جی بی" کی اس رپورٹ کا کیا کریں گے جو ریڈیو ماسکو سمیت روسی ابلاغ عامہ کے دوسرے ا داروں نے نشر اور شائع کی۔
تب میں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ محترمہ بینظیر بھٹو سے ان کی شہادت والے دن کی صبح افغان صدر حامد کرزئی نے بھی ملاقات کی تھی۔ کرزئی نے ہی محترمہ بینظیر بھٹو کو اس امر سے آگاہ کیا تھا کہ قاتل پاکستان پہنچ چکے، بہتر ہے کہ جلسہ میں نہ جائیں۔
اس بار آپ کے خلاف لیزر بیم گن استعمال ہوگی۔
ان باتوں کا تمسخر اڑانے والے کرداروں میں سے کچھ تو وہ تھے جو پچھلے برس اپریل سے قبل کی زندگی میں پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے فکری و فطری رفیق اور غیر اعلانیہ ترجمان تھے اور کچھ وہ جن کی دال روٹی دو اڑھائی عشروں (تب تک) سے ایجنسیوں کے وظیفے پر چلتی تھی، جبکہ میری رائے یہ تھی کہ لیزر بیم گن کو پاکستان لانے اس کے استعمال، سٹیج کے عقب سے غیرملکی کی لاش ملنے کی تصدیق اور پھر اپنی ہی بات سے مکر جانے، جائے وقوعہ کو پانی سے کلین کرنے کا ہنگامی اقدام ان سے تمام باتوں کو ایک دوسرے سے جوڑ کر دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
تجزیوں اور تحقیقات کی عمارت اٹھوانے والے اگر اس موضوع اور خصوصاً 27 دسمبر کی صبح محترمہ بینظیر بھٹو سے افغان صدر حامد کرزئی کی ملاقات اور گفتگو بارے جانکاری حاصل کرلیں تو وہ سرکاری پروپیگنڈے سے رزق پانے کی بجائے بہتر معلومات کی بنیاد پر اپنی بات کرسکیں گے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کو قتل ہوئے 16 برس ہوگئے۔ ان سولہ برسوں میں یہ امر ہر گزرنے والے دن کے ساتھ دوچند ہوا کہ ان کے قتل میں مقامی اور بین الاقوامی قوتیں ملوث تھیں۔
سرکاری کہانی کا سب سے کمزور پہلو یہی ہے کہ اعزاز شاہ جولائی یعنی تقریباً سوا پانچ ماہ سے ایک اور مقدمے میں گرفتار تھا۔
پاکستان جیسے کثیرالقومی ملک میں ایک ایسی قیادت جو مختلف قومیتوں کو جوڑنے کی صلاحیت رکھتی ہو کو راہ سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کرنے والی قوتیں طویل المدتی مقاصد رکھتی تھیں۔
ہم اگر ساعت بھر کےلئے اسی دور (مشرف دور) میں ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے والے نواب محمد اکبر بگٹی کے معاملے کو بغور دیکھیں تو صاف لگتا ہے کہ ان کا قتل بلوچستان میں شورش کی آگ بڑھانے کے لئے ہوا۔
آپ بلوچستان کے زمینی حقائق خصوصاً اکبر بگٹی کے قتل کےبعد سے اب تک کا تجزیہ کیجئے۔ فیڈریشن کی پالیسیوں سے نالاں بلوچوں کو ریاست بے بھڑجانے کا جواز کس نے فراہم کیا؟ خود ریاست نے۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہدات کے بعد سندھ میں ردعمل منصوبہ سازوں کی توقعات کے عین مطابق رہا۔ اس مرحلہ پر اگر پیپلزپارٹی کی قیادت سیاسی بلوغت و بصیرت کا مظاہرہ نہ کرتی تو ایک ہی ہلے میں سندھ بلوچستان کو پاکستان سے الگ کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوسکتا تھا۔
وہ سب صحافی اہل دانش اور سیاسی کارکن جو اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے منصوبے اور مقاصد کو سمجھنا چاہتے ہیں انہیں بالائی سطور میں عرض کی گئی دو تین کہانیوں اور باتوں، کرزئی کی محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات، لیاقت باغ سٹیج کے عقب سے غیرملکی کی لاش ملنے کے اعتراف اور پھر اس اعتراف سے مکر جانے۔
پانچ سوا پانچ ماہ سے گرفتار سولہ برس کے لڑکے کو 27 دسمبر کے سانحہ کے منصوبہ سازوں کا حصہ بنانے کی سوچ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی مارک سیہگل کو ای میل، قبل ازیں 18 اکتوبر کو ان پر کراچی کے استقبالیہ جلوس میں ہونے والے حملے، شہادت والی جائے وقوعہ کو فوری کلین کرنے کے عمل وغیرہ کو ملاکر دیکھتے ہوئے روسی کے جی بی کی رپورٹ کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
سیاست و صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ اس معاملے کی چھان بین کے دوران اسٹیبلشمنٹ کے مقامی طاقتور کرداروں کو بے نقاب کرنا ازبس ضروری تھا۔
گو ہم سادہ انداز میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ سکیورٹی سٹیٹ میں رونما ہوئے کسی وقوعے وہ کتنا ہی المناک کیوں نہ ہو، کی آزادانہ تحقیقات بہت مشکل ہوتی ہیں۔ طاقتور کردار ہر طریقے سے اثرانداز ہوتے ہیں جیسا کہ اس کیس کی تفتیش پر دو اشحاص اثرانداز ہوئے جنرل پرویز مشرف اور ان کے جانشین جنرل اشفاق پرویز کیانی۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے سولہ برس بعد بھی اس سانحہ کے حوالے سے موجود حساسیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس سے بھی کہ ایک کثیرالقومی ملک میں مختلف الخیال قومیتوں اور طبقات کے لئے قابل قبول سیاسی قیادت کو راستے سے ہٹانے کے بعد کسی طرح کے حالات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
حالات اور مسائل کی گونج کانوں کے پردے پھاڑ رہی ہے، یہی تلخ ترین حقیقت ہے۔