وہ جو بیچتے تھے دوائے دل
میں 1968 میں دہلی کالونی میں آکر رہا، 2019 تک وہیں قیام رہا۔ جلد ہی مجھے انوار احمد کی صحبت حاصل ہوئی جو ان کی زندگی بھر جاری رہی۔ وہ مختلف جہات کے آدمی تھے، تاجر تھے اور ان کا کاروبار بڑا پھیلا ہوا تھا جس کی وہ نگرانی کرتے۔ وہ پنجابی سوداگران کی منتخبہ مجلس کے رکن رہے اور اپنی برادری کے فلاحی کاموں میں انتہائی مصروف رہتے۔ وہ جماعت اسلامی کے رکن تھے اور جماعتی ذمے داریوں کو مستعدی سے انجام دیتے ایسا مختلف الجہات مصروفیت کا حامل شخص میں نے شاذونادر ہی دیکھا۔
ان کی اولین ترجیح اسلام رہی، اسلام کو اس کی روح کے ساتھ سمجھنے والوں میں وہ نمایاں تھے اور اسلام کے معاملے میں ان کا ذہن صاف تھا اور عملی طور پر وہ مقدور بھر اسلام کے لیے کوشاں رہتے۔ مجھے حج کے دوران ان کی معیت حاصل ہوئی اور اس سفر میں ان کے اندر ایمان کی جو حرارت میں نے دیکھی وہ اچھے اچھوں میں عنقا ہوتی ہے۔
اپنی برادری کے علاوہ بھی وہ فلاحی اور دینی کاموں میں جہاں ضرورت پڑتی دست تعاون درازکرتے رہتے۔ اٹاوہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے انھوں نے صرف میرے کہنے پر اپنے دونوں ہاتھ پھیلا دیے۔ اٹاوہ کی مسجد کی تعمیر میں ان کا مال یا ان کے بعض احباب کا مال خرچ ہوا اور آج وہ مسجد بحمدہ مکمل ہوگئی ہے۔ ایسی کئی مساجد کی تعمیر میں ان کا ہر قسم کا تعاون رہا۔
میں نے ان کو اداروں کے علاوہ افراد کی مدد کرتے دیکھا ہے اور یہ افراد ان کی برادری کے نہ تھے۔ میں ان کی اس فراخ دلی کا گواہ ہوں۔ میں نے ان کے اندر ایک نیک، صالح، سخی اور اسلام کا درد رکھنے والا انسان دیکھا۔
ایک صاحب کا لالوکھیت میں ایک کمرے کا مکان تھا اور افراد کئی مکین تھے، چھت شیٹوں کی پڑی تھی جو گرمیوں میں تپتی تھی اور بارش میں ٹپکتی تھی۔ میں نے ان کے اس حال زارکا ذکر انوار صاحب سے کیا انھوں نے کسی قسم کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی اور اپنے ایک ٹھیکے دار سے کہہ کر ان کے کمرے پر پختہ چھت ڈلوا دی اور اس کے اوپر بھی دیواریں کھڑی کروادیں یوں نہ صرف ان کو پختہ گھر میسر آگیا بلکہ ایک مزید کمرہ بھی حاصل ہوگیا۔ وہ صاحب آج تک ان کے لیے دعاگو اور ان کے احسان مند ہیں حالانکہ محسن اور احسان اٹھانے والا دونوں ایک دوسرے سے قطعی ناواقف رہے۔ ذاتی طور پر دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں۔
پنجابی سوداگران برادری ایک منظم جماعت ہے، اس کے امور منتخبہ مجالس اور کمیٹیاں انجام دیتی ہیں۔ خلیفہ انوار احمد اپنی برادری کے اہم افراد میں سے تھے۔ مختلف عہدوں پر فائز رہے اور صرف عہدے یا منصب کے لیے کوشاں نہ رہے بلکہ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی برادری کے طبی، تعلیمی اور مالی امور کی نگرانی بڑی ذمے داری سے انجام دیتے رہے۔ ظاہر ہے کہ ان خدمات کی انجام دہی کے لیے وہ اپنے تاجرانہ اوقات سے بہت سا وقت نکالتے رہتے تھے۔
میں نے ان کو فرائض اور مختلف النوع فرائض کی انجام دہی بڑے سکون سے ادا کرتے ہوئے پایا وہ برادری کے فرائض بھی انجام دیتے اور ان کا حق ادا کرتے تو دوسری طرف اس تندہی سے جماعت اسلامی کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے اور کبھی ان سے یہ نہیں سنا کہ کسی ایک نوعیت کے کام کی وجہ سے ان کے دوسرے کام متاثر ہوئے ہوں۔ وہ اپنی ہر حیثیت میں اپنے فرائض منصبی کو بخوبی اور بخوشی انجام دیتے اور کسی کام کو اپنے اوپر بوجھ نہ بننے دیتے تھے۔
میں نے حج کے سفر میں ان کی معیت کا ذکرکیا ہے۔ کسی شخص کو پرکھنا ہو تو سفر کے دوران پرکھا جاتا ہے اور اس کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ حج کے سفر میں یوں تو سبھی حاجی ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں اور کسی قسم کی خود غرضی کا مظاہرہ نہیں کرتے مگر انوار احمد صاحب اس سفر اور دوران حج بڑے سرگرم نظر آتے وہ فربہ اندام تھے، مگر وہاں ان کی نقل و حرکت دیدنی تھی۔ ایک بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے مجھے بارگاہ خداوندی میں ان کی مقبولیت کا اندازہ ہوا تھا۔ یہ میرا ذاتی تاثر تھا مگر مجھے توقع ہے کہ اس میں اللہ کی توفیق اور رضا ان کی معاون تھی۔
ہوا یوں کہ رش کے باعث ہمیں طواف زیارت کا موقع نہیں مل پا رہا تھا۔ دوسرے دن رات گئے اس کا موقع میسر آیا۔ میں طواف کے بعد مقام ابراہیم پر دو رکعت ادا کر رہا تھا اور میرے ساتھ ہی انوار احمد بھی نماز ادا کر رہے تھے۔ رش بہت زیادہ تھا۔
نماز کا سلام پھیر کر میں نے صفا و مروہ کی طرف جانے کا ارادہ کیا اور ادھر کا رخ کرکے چند قدم چل پڑا۔ اچانک انوار نے میرا ہاتھ پکڑا اور تقریباً گھسیٹتے ہوئے مجھے ملتزم کی طرف لے گئے۔ خدا جانے کیا ہوا کہ رش کائی کی طرح پھٹتا گیا اور وہ میرا ہاتھ پکڑے سیدھے ملتزم پر پہنچے اور اس سے لپٹ گئے۔
ان کی گریہ و زاری کی آواز مجھ تک آ رہی تھی اور میں ان کی پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ جب وہ خوب رو لیے تو آہستہ سے پیچھے ہٹے اور مجھے پکڑ کر ملتزم سے چپٹا دیا۔ میں ملتزم سے ہم آغوش ہوکر اسی لذت سے ہم کنار ہوتا رہا جو انوار احمد صاحب کو حاصل ہوئی تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ وہ اگر میرا ہاتھ پکڑ کر یوں بچوں کی طرح گھسیٹ کر مجھے نہ لے جاتے تو مجھے معلوم ہے یہ قربت میسر نہیں آسکتی تھی۔ آخر وہ ہجوم ہماری راہ سے کیسے دور ہوگیا۔
میں یوں بھی ان کا قدردان ہوں کہ وہ مجھ سے محبت کرتے تھے۔ میرا اکرام کرتے اتنا اکرام کہ میرا نفس موٹا ہونے لگتا اور میں ان سے دور ہوجاتا کہ کہیں میں نفس کی خیانت کا شکار نہ ہوجاؤں۔
میں نے کبھی ان سے اپنی ذات کے لیے کچھ نہیں چاہا، مگر جب کبھی میں نے کسی ادارے، فرد یا عبادت گاہ کے لیے مدد چاہی انھوں نے پوری فیاضی سے اس میں تعاون کیا۔
میرا گمان غالب یہ ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ رکھتے ہوں گے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ لوگ
وہ بیمار ہوئے اور چٹ پٹ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ مجھے توقع ہے کہ وہاں ان کی پذیرائی رحم و کرم کے ساتھ ہو رہی ہوگی۔