عنایتِ خسروانہ
آج کل ملک میں آٹے کی قلت کے باعث گندم، آٹے اور روٹی کی قیمتوں کو پر لگ گئے ہیں۔ لوگ پریشان ہیں۔ آٹا ایسی چیز ہے جسے امیر سے لے کر غریب تک سبھی استعمال کرتے ہیں مگر کم بختی غریبوں کا مقدر ہوتی ہے اس لیے عوام میں شدید بے چینی پیدا ہوگئی اور ہر طرف ہاہاکار مچ گئی۔
ٹی وی چینل سے لے کر سیاست دانوں تک ہر ایک نے اپنے اپنے طور پر اس صورتحال پر اپنی بے چینی کا اظہار کیا۔ یہاں تک کہ بعض مرکزی وزرا نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا۔
اسی دوران مسلم لیگ (ن) کی رہنما عظمیٰ بخاری نے ملک میں گندم کی قلت پر تشویش کا اظہار کیا اور مبینہ طور پر یہ بھی کہا کہ لاہور میں آٹے کی قلت ہے اور آٹا آسانی سے مہیا نہیں ہو رہا اگر آٹا باآسانی مل رہا ہو تو میرے گھر بھی بھیج دیا جائے۔ دوسرے دن آٹے کی بوریوں سے بھرا ٹرک عظمیٰ بخاری کے دروازے پر آکھڑا ہوا۔
سوال یہ ہے کہ گندم کی قلت پر آواز اٹھانے والی محض عظمیٰ بخاری تھوڑا ہی تھیں۔ ہر سمت ہر طبقے کی طرف سے اس سلسلے میں تشویش کا اظہار کیا جا رہا تھا اور یہ بھی درست تھا کہ ملک میں گندم کی قلت پیدا ہوگئی جس کی وجہ سے تنور پر روٹی کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو کبھی روٹی کے وزن میں کمی کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ 180 گرام کے پیڑے کی روٹی 12 روپے میں اور 160 گرام کی روٹی دس روپے میں خریدی جاسکے گی۔ اس قسم کی پابندیاں عموماً متعلقہ کمشنروں کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں مگر یہ عجیب مضحکہ خیز صورتحال ہے کہ روٹی کا خریدار یا تو اپنے ساتھ ایک جیبی ترازو لیے پھرے یا تنور والا اپنے تنور پر ایک ترازو آویزاں کرے تاکہ روٹی کے وزن کا تعین کیا جاسکے۔
یہ ساری مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہونے کے بعد بھی اگر حکمرانوں اور متعلقہ افسران کا خیال اب بھی یہ ہو کہ ملک میں گندم کی کمی نہیں ہے تو اس کو کیا کہا جائے۔
ٹی وی چینلز، اخبارات، سوشل میڈیا اور غریب عوام چلا چلا کر اور بلک بلک کر کہہ رہے ہیں کہ آٹے کے بحران نے ان کی زندگی حرام کردی ہے مگر سرکاریمحکموں کے افسران اعلیٰ اس پر مصر ہیں کہ ملک میں آٹے کی کمی نہیں۔
جس وقت سرکاری افسران اعلی یہ دعویٰ کر رہے تھے تقریباً اسی وقت ایک مرکزی وزیر نے جو اپنی صاف گوئی کی شہرت رکھتے ہیں، ٹی وی پر کہا کہ ملک میں گندم وافر مقدار میں موجود تھی اس لیے حکومت نے اسے برآمد کردیا جس کے باعث قلت پیدا ہوئی اب ہماری حکومت گندم درآمد کر رہی ہے۔ پہلا فیصلہ بھی ان کے خیال میں غلط تھا اور دوسرا بھی غلط ہے۔
کیا فرماتے ہیں محکمہ خوراک کے افسران با تدبیر بیچ اس مسئلے کے کہ خود ان کے وزیر ملک میں گندم کی قلت کا اعتراف کر رہے ہیں نہ صرف یہ کہ اعتراف کر رہے ہیں بلکہ اس کی وجوہات بھی بیان فرما رہے ہیں جو حکومت کی ناعاقبت اندیشی کی دلیل ہے۔
عظمیٰ بخاری ایک سیاسی لیڈر ہیں انھوں نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں بھی آٹا نہیں مل رہا ہے۔ ماڈل ٹاؤن میں عظمیٰ بخاری کی رہائش گاہ ہے۔ محکمہ خوراک پنجاب نے آٹے کا ایک ٹرک عظمیٰ بخاری کے گھر بھیج دیا جس نے کئی تھیلے آٹا ان دروازے پر لا رکھا۔ عظمیٰ بخاری سیاستدان ہیں اور ٹاک شو میں انھوں نے جو کچھ کہا وہ ان سیاسی لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا جو فیصلہ کرتے ہیں جو ذمے دار ہوتے ہیں اور جن سے جواب طلب کیا جاتا ہے۔
گندم کی قلت کے ذمے دار محکمہ خوراک کے افسر نہیں تھے۔ انھیں ایک سیاستدان کو اس طرح مضحکہ خیزی کا نشانہ بنانے کا کوئی اختیار نہیں تھا اگر انھوں نے یہ حرکت بذات خود کی تو ان سے جواب طلبی ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے وہ خود سے اس قسم کی کوئی حرکت نہیں کرسکتے تھے یقینا:
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
اگر محکمہ خوراک پنجاب اسی قدر مستعد اور فرض شناس ہے اور واقعی۔ ان کے پاس وافر مقدار میں گندم اور آٹا موجود ہے تو پھر ان تمام افراد کے گھروں پر یہ آٹے سے بھرا ٹرک بھیجا جائے اور آٹے کی بوریاں ان کے گھروں پر اتروائی جائیں۔ جو چیخ رہے ہیں اور چلا رہے ہیں کہ ہائے آٹا، وائے آٹا!
کسی سیاستدان کے کوئی سرخاب کے پَر تھوڑا ہی لگے ہوئے ہیں کہ ان کو وافر مقدار میں آٹا فراہم کیا جائے جب کہ پورا ملک آٹے کی عدم دستیابی اور قلت پر آہ و بکا میں مصروف ہے۔
دراصل عظمیٰ بخاری کا تعلق (ن) لیگ سے ہے اور (ن) لیگ پر اس وقت برا وقت آیا ہوا ہے جس پر برا وقت آیا ہوا ہوتا ہے اس کی خواہش کا احترام اسی طرح کیا جاتا ہے۔
اب شکر کی بھی قلت پیدا ہوگئی ہے عظمیٰ بخاری کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ وہ شکر کی قلت پر بھی لب کشائی فرما دیں۔ کیا عجب کہ شکر کی بوریاں ان کے دروازے پر دستک دینے لگیں مگر لطف تو اس وقت آئے گا جب وہ شکر کی یہ بوریاں اپنے ملازموں سے اٹھوالیں اور "خود بھی استعمال کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی فراہم کریں " کہ یہ محکمہ خوراک کی عنایت خسروانہ ہے۔