غلط نشانے
کچھ دن قبل حکومت نے جیدعلمائے دین کا ایک اجلاس طلب کیا اور موجودہ وبائی صورت حال میں نماز جمعہ کے اجتماع کے بارے میں ان کی رائے طلب کی۔ اس اجلاس کے بعد علمائے دین نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں کہا کہ جمعہ کی نماز کو محدود کردیا جائے۔ بچوں اور عمر رسیدہ افراد کو مسجد آنے سے روک دیا جائے اور صورت حال کی خرابی کی صورت میں حکومت مزید پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہے۔ اس پریس کانفرنس میں علما کا اظہار خیال انتہائی محتاط تھا اور زیادہ وضاحت سے انھوں نے کچھ فرمایا بھی نہیں۔
پھر جمعہ کا دن آ پہنچا اور حکومت نے کہا کہ "علما کی ہدایت" کے مطابق جمعہ کی نماز کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اب اذان بھی ہوگی جماعت بھی ہوگی لیکن جماعت میں 3 سے5 افراد تک شریک ہو سکیں گے۔ یہ تعداد تو مسجد کی دیکھ بھال کرنے والے اسٹاف پر مشتمل ہوتی ہے۔ یعنی اب جماعت امام مسجد، موذن اور دو یا تین خدام مسجد پر مشتمل ہوگی اور باہر سے کوئی نہیں آسکے گا۔
یہی ہدایات مساجد کے آئمہ کو دے دی گئیں اور نتیجتاً صرف چند مساجد کے علاوہ تمام مساجد میں ان احکامات پر عملدرآمد ہوا۔ اس سے قطع نظر کہ کورونا وائرس ایک قدرتی آفت ہے یا انسانی ہاتھوں کی کمائی ہے اس وقت پوری عالم انسانیت جس میں عالم اسلام بھی شامل ہے، ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے۔ خصوصاً مسلمان ایسے مواقع پر رجوع الی اللہ کی طرف مائل ہوتے اور اسی کو نجات کا ذریعہ خیال کرتے ہیں مگر مساجد کی بندش کی وجہ سے اللہ کی طرف رجوع کرنے کے دروازے ہی بند ہوگئے۔
جمعہ گزرنے کے بعد اب بعض علما نے سرکار دولت مدار کے اس موقف سے اختلاف ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس اجلاس میں ہم نے جو کچھ کہا اس سے ہمارا مقصد وہ نہیں تھا جس پر عملدرآمد حکومت نے کرایا۔ اب اخبارات میں مولانا عبدالمالک کا بیان بھی شایع ہو گیا ہے، جس میں انھوں نے فرمایا کہ میں نے صدر مملکت کے بلائے ہوئے اجلاس میں ان کے روبرو کہا کہ ملک میں فحاشی، بے راہ روی اور مذہب بے زاری کی جو کیفیت موجود ہے حکومت نے اس پر قدغن لگانے کی کوشش نہیں کی اور اب آپ کی حکومت نماز کو محدود کرنے پر آمادہ ہے۔
میری باتیں ان حضرات کے لیے ناقابل برداشت تھیں اس لیے اسٹیج سیکریٹری صاحب اشارے کرتے رہے کہ میرا مائیک بند کردیا جائے۔ یہ فضا دیکھ کر خود میں نے اپنی بات ختم کردی۔ ( انا للہ و انا الیہ راجعون۔ )اپنی غلطیوں اور غلط کاریوں کی روداد سننا ہر شخص کو ناگوار اور ناپسند ہوتا ہے مگر غلط کاری کے نتائج بھی ہر شخص کو بھگتنا ہی پڑتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا ایک اور رویہ قابل غور ہے۔
اللہ اپنی ہر آفت سے ہماری قوم کو محفوظ رکھے اور ہماری قیادت کی غلطیوں میں عوام الناس کو نہ پکڑے۔ جب چین میں کورونا وائرس پھیلا تو خاص ووہان شہر میں جو وبا کا مرکز تھا کئی سو پاکستانی طلبا نے گھبرا کر پاکستان آنے کی خواہش ظہار کی اور بڑی اپیلیں حکومت سے بھی کیں مگر حکومت پاکستان نے حکومت چین کے مشورے پر ان کو وہاں سے نکلنے نہیں دیا اور اس اسلامی حکم پر عمل کیا کہ " اگر کہیں وبا پھیلے تو نہ وہاں بلا ضرورت جاؤ، نہ وہاں سے نکلو" اس اسلامی اصول پر عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ چین کی حکومت نے ہمارے طلبا کا خاطر خواہ خیال رکھا اور وہ طلبا الحمد اللہ وبا سے ہر طرح محفوظ رہے۔ پھر یہ وبا ایران جا پہنچی۔
وہاں بھی ہمارے سیکڑوں زائرین موجود تھے جو زیارت کے بعد اپنے بال بچوں اور اہل خانہ کے پاس آنے کے خواہش مند تھے۔ یہ لوگ ایک نیک کام سے ایک برادر اسلامی ملک گئے ہوئے تھے اگر ہماری حکومت، حکومت ایران سے رابطہ کرکے ان زائرین کو وہاں روکنے کی بات کرلیتی تو ایران ان کو دھکے دے کر تھوڑا ہی نکال دیتا، مگر یہاں ہم نے اس اصول پر عمل نہیں کیا جس پر ہم چین کے معاملے میں کرچکے تھے۔ ہم نے زائرین کو بلا کر بلوچستان کے بے آب و گیاہ اور وسائل سے محروم علاقے میں قرنطینہ میں ڈال دیا۔
ظاہر ہے کہ وہ بھی انسان تھے اور اس غیر انسانی ماحول کو برداشت نہ کرسکے اور بالآخر ان کو ان کے مطلوبہ مقامات تک پہنچایا گیا اور تمام احتیاطوں کے باوجود کورونا شہروں اور قصبوں میں داخل ہو گیا اور اس کے بعد تبلیغی جماعت والوں نے بھی احتیاط نہیں کی اور حکومتی احکامات پر عمل نہیں کیا، یوں کورونا وائرس میں اضافہ ہونا فطری بات تھی۔ اب ہم جو احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں وہ ایک لحاظ سے بعد از وقت ہیں مگر اللہ کا کرم ہے اب بھی پاکستان میں یہ وبا اس طرح نہیں پھیلی ہے جس طرح ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی ہے۔
یہی وقت ہے کہ ہم اللہ کے آگے جھک جائیں اور اس سے اپنی خطاؤں کی معافی مانگیں۔ یہ کام ہم گھر پر بھی کرسکتے ہیں مگر اس کے لیے بہتر جگہ مسجد ہے جہاں ہم انفرادی یا اجتماعی دعا کریں تو قبولیت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جہاں اپنی مرضی بزور قوت چلا سکتی ہے، اسلامی اقدار کے احیا کے لیے وہ قوت استعمال کرے اور علما کے کندھے پر بندوق رکھ کر غلط نشانے نہ لگائے۔