آداب حکمرانی
حکمرانی کے آداب ہوتے ہیں۔ چاہے وہ چنگیز خانی حکمرانی ہو، بابری حکمرانی، عالمگیری یا پھر طوائف الملوکی۔ ہر حکمران کو آداب حکمرانی سکھائے جاتے تھے۔ حکمرانوں اور بادشاہوں کے شہزادگان کے لیے باقاعدہ اتالیق اور اساتذہ مقرر ہوتے تھے جو انھیں تعلیم بھی دیتے تھے، شہسواری اور تیراکی، تلوار زنی اور نشانہ بازی میں مہارت بہم پہنچاتے تو درباری آداب اور رموز سیاست بھی سکھاتے تھے۔ آداب حکمرانی کا ہر حال میں خیال رکھا جاتا تھا، اور کوئی آداب حکمرانی سے صرف نظر کرتا تو اسے قطعاً اچھا نہ سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ شاہی دربار میں اخلاق سے گری ہوئی حرکت کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے علاوہ شاہی خاندان علم والوں کی نہ صرف سرپرستی کرتا بلکہ خود بھی ان کا شمار اہل علم میں ہوتا تھا۔
تحریک انصاف والے حکمران تو ہوگئے، آداب حکمرانی سے واقف نہ ہوسکے۔ وہ اب بھی ایک غیر ترقی یافتہ جمہوری ملک کی حزب اختلاف کی زبان بولتے اور عملاً وہ رویہ اختیارکرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران بننے کے بعد ان کے لب و لہجے میں نمایاں فرق آتا اور ان کا انداز بیان پوری قوم کے لیے قابل تقلید بنتا، جس پر تحریک انصاف کے کارکن بھی یقیناً فخر کرتے مگر حد یہ ہے کہ پچھلے دنوں جب تحریک انصاف کے سربراہ امریکا تشریف لے گئے تو پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران خوب گرجے برسے اور فرمایا کہ یہ لوگ جنھیں جیلوں میں ڈالا گیا ہے وہ اے سی اور ٹی وی کے مزے لوٹ رہے ہیں، پاکستان جا کر یہ ساری آسائشیں ان سے واپس لوں گا اور واقعی انھوں نے لیں۔
اب جو صدارتی آرڈیننس جاری ہوا ہے اس کے مطابق اگر کسی شخص پر 5 کروڑ روپے سے زیادہ کرپشن کا الزام ہوگا تو جرم ثابت ہونے سے قبل ہی وہ تحقیق تفتیش اور مقدمے کے دوران سی کلاس کا قیدی ہوگا یعنی ہر اس سہولت سے محروم جو ابھی تک بی کلاس قیدیوں کو دی جاتی تھیں۔ ہمیں ان کی سہولتوں سے محرومی سے کوئی لینا دینا نہیں تحقیق، تفتیش اور مقدمے کے دوران ہر شخص معصوم ہوتا ہے۔
اسے جیل میں رکھنا اور سہولتوں سے محروم رکھنا ایسا قانون اب تک کسی آمر نے بھی نہیں بنایا تھا اس سے انتقام کی بو آتی ہے۔ ابھی چند ہفتے بھی نہیں گزرے تھے کہ انھوں نے ایک غیر ملکی سر زمین پر ایسے اقدامات کا ارادہ ظاہر کیا اور اس پر فوراً عمل بھی کر دیا ورنہ عمل درآمد کے معاملے میں ان کی حکومت کی ساکھ اچھی نہیں رہی، آخر اس جلد بازی کے پیچھے کیا کوئی ذاتی عناد کار فرما ہے؟حکمران دوسروں کو یہ سبق تو دیتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کا احترام کریں مگر بعض اوقات ان کا اپنا طرز عمل ان کے اقوال کا منہ چڑاتا ہے۔ حکمرانوں کا غلط رویہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے پر اکساتا ہے، جس کو کسی بھی طور پر قابل تحسین نہیں گردانا جا سکتا۔
دوسرا نقصان یہ ہوا کہ ماتحت اپنے بالا دستوں کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ وفاقی کابینہ کے وہ ارکان جن کا تعلق تحریک انصاف سے ہے پارلیمان میں، پارلیمان کے باہر، عوامی جلسوں جلوسوں میں وہی زبان اور انداز اختیارکرتے ہیں جو ان کے قائد کا ہے۔
چنانچہ کل جب نواز شریف صاحب کی طبیعت کی خرابی کا غلغلہ اٹھا اور ان کے پلیٹ لیٹس گرگئے تو ایک وزیر صاحبہ نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں فرمایا کہ جب اس عمر میں نہاری اور پائے کھائیں گے تو خون پتلا کرنے کے لیے ڈسپرین کھانا پڑے گی جس کے نتیجے میں پلیٹ لیٹس گریں گے، میں خود ڈاکٹر ہوں اور سمجھ سکتی ہوں کہ پلیٹ لیٹس ڈسپرین کھانے سے گرتے ہیں۔
اگرچہ اپنے مخالفین کی بیماریوں کو بھی نشانہ طنز بنانا خوف خدا سے بے نیاز ہوکر اس پر پھبتیاں کسنا بھی اس جماعت کے مزاج اور تربیت میں شامل ہے۔ اب سے پہلے جب بیگم کلثوم نواز شدید علالت میں علاج کے لیے لندن گئی ہوئی تھیں تو ان کی بیماری کو کسی نے اداکاری، کسی نے مبالغہ، کسی نے ہمدردی حاصل کرنے کا وسیلہ قرار دیا تاآنکہ مرحومہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔
اس لیے اس موقع پر ہمیں وزیر صاحبہ کے ارشادات پرکوئی تعجب نہیں ہوا۔ مگر جب بیان کے آخر میں موصوفہ نے فرمایا کہ میں خود ڈاکٹر ہوں اور سمجھ سکتی ہوں کہ بسیار خوری اور چکنائی کے استعمال کے بعد ڈسپرین کے ڈوز پلیٹ لیٹس کو گرا دیتے ہیں۔ تو ہمیں ان کے ڈاکٹر ہونے پر ہی شبہ ہونے لگا مگر کیا کریں کہ وہ واقعی ڈاکٹر ہیں مگر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم نہ بسیار خور ہیں نہ خوش خوراک مگر پچھلے 25 سالوں سے مسلسل ڈسپرین کھا رہے ہیں اور پلیٹ لیٹس ٹس سے مس نہ ہوئے۔
ادھر صحافتی محققین بھی جان نہیں چھوڑتے، ایک اینکر نے ایک سے زیادہ ڈاکٹروں سے دریافت کر لیا اور انھوں نے اعتراف کیا کہ ڈسپرین ان کے ہزاروں لاکھوں مریض کھا رہے ہیں مگر اس کا یہ اثر کسی پر نہیں ہوا۔ ایک طبیب نے تو یہ تک کہا کہ ان کے پورے طبی کیریئر میں ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہم پھر اپنے سابقہ شک کی طرف لوٹنے والے تھے مگر بڑی مشکل سے ہم نے اس پر قابو پایا اور یہ کہہ کر خود کو سمجھایا کہ "جماعتی کردار" بھی ایک چیز ہوا کرتا ہے اور ایسے بیان اسی کا نتیجہ ہیں۔
اب نواز شریف صاحب کی بیماری سنجیدہ نوعیت اختیار کرگئی ہے فی الحال اس کی تشخیص میں مشکل در پیش ہے مگر تشخیص بھی ہو جائے گی اور اس کا خاطر خواہ علاج بھی کرنا پڑے گا۔ یہ نہ ڈسپرین چھوڑ دینے کا معاملہ ہے نہ نہاری کھانے کا، یہ بیماری جس کا علاج پوری طبی توجہ سے کرنا پڑے گا اور نواز شریف صاحب کو وہ تمام سہولتیں دینا پڑیں گی جو آرڈیننس کے ذریعے سلب کرلی گئی ہیں۔
جیل اصلاحات کے نام پر جو منتقمانہ ترمیمات لائی گئی ہیں اس کا نشانہ صرف وہ حزب مخالف کے لیڈر بنیں گے جو سال بھر یا کئی کئی ماہ سے جیل میں پڑے ہیں مگر جن کا نہ کوئی قصورگرفت میں آیا ہے البتہ تحقیق و تفتیش جاری مقدمہ چلنے اور سزا پا کر مجرم کہلانے کا معاملہ تو بہت دورکی بات ہے تعجب ہے کہ ایسا آرڈیننس مرتب کرتے وقت وزیر قانون کے ماتھے پر کوئی شکن کیوں نہیں آئی کہ ایسے قوانین ایک اچھی حکومت کے آداب حکمرانی کے خلاف ہوتے ہیں۔