بندے کے پتر بن جائو!
بزرگوار نے حسرت بھری نظروں سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا "واہ، میرے مولا وہ بھی کیا دن تھے جب میں کڑیل جوان تھا، جو مجھے دیکھتا تھا بس دیکھتا ہی رہ جاتا تھا، یہ چوڑا چکلا سینہ، تنے ہوئے ڈولے، سرخ و سفید رنگ۔ میں شیر کی طرح دھاڑتا تھا، زمین پر پائوں رکھتا تو زمین کانپنے لگتی تھی" میں نے عرض کی "بزرگوار پھر تو آپ نے مظہر شاہ اور سلطان راہی کے ساتھ فلموں میں بھی کام کیا ہو گا" انہوں نے میرے ان ریمارکس کو خراجِ تحسین جانا اور فرمایا "فلم انڈسٹری کی طرف سے آفرز تو بہت ہوئی تھی مگر قبلہ والد محترم نے اجازت نہیں دی، ان کا کہنا تھا کہ انڈسٹری کا ماحول اچھا نہیں تمہارا اخلاق مزید خراب ہو جائے گا" میں نے پوچھا "تو گویا تھوڑا بہت اخلاق پہلے سے خراب تھا؟" اس پر وہ شرما کر بولے "کیا پوچھتے ہو میاں، ہر شب، شب برات تھی ہر روز عید۔ میں اس قصے کو طول نہیں دینا چاہتا تھا کہ جانتا تھا بزرگوار شروع ہو جائیں گے اور استغفر اللہ کا ورد کرتے کانوں کو ہاتھ لگاتے اور خود کو گناہ گار قرار دیتے ہوئے کتنے ہی پردہ نشینوں پر الزام تراشی شروع کر دیں گے چنانچہ میں نے موضوع کا رخ موڑتے ہوئے کہا آپ دور جوانی میں جتنے طاقتور تھے لوگ تو آپ سے خوفزدہ رہتے ہوں گے۔ بولے "ایسے ویسے، مجھے دیکھ کر وہ ادھر ادھر ہو جاتے تھے لیکن میں نے کبھی اپنی طاقت کا غلط استعمال نہیں کیا، جب بھی طاقت استعمال کی صحیح جگہ استعمال کی، بس مجھے باڈی بلڈنگ کا شوق تھا میاں کیا کیا بتائوں میں نے کیا۔ "نہیں آپ بتائیں جو آپ سنانا چاہتے ہیں" فرمایا "میں ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرتا تھا، روزانہ دس میل بھاگتا تھا، میں دفتر جاتا تھا تو کبھی ایک ایک کر کے سیڑھی نہیں چڑھا بلکہ ہمیشہ دو دو تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا تیسری منزل تک جاتا تھا جہاں میرا دفتر تھا۔ " میں نے کہا واقعی آپ تو غیرمعمولی طور پر طاقتور تھے۔ بزرگوار نے ماضی کے جھروکوں سے جھانکتے ہوئے مجھے مخاطب کیا مجھے بیٹھے بیٹھے جوش آتا تھا تو میں اپنے گھر کے برآمدے کے شیڈ سے لٹک جاتا تھا اور پھر پوری طاقت سے اپنے جسم کو اوپر کی طرف کھینچتا حتیٰ کہ میرے گھٹنے شیڈ کے برابر آ جاتے تھے، صرف یہی نہیں محض زور آزمائی کے لئے میں مضبوط لکڑی کو گھٹنے پر رکھ کر اس کے دو ٹکڑے کر دیتا تھا۔ بزرگوار اپنی جوانی بلکہ بھرپور جوانی کی مزید روداد سنانے کے موڈ میں تھے کہ اچانک انہیں کھانسی کا دورہ پڑا، ان کی آنکھیں باہر کو ابل پڑیں، سانس ٹوٹنے لگا اور مجھے ان کی جان کے لالے پڑ گئے مگر اللہ کا شکر ہے کہ چند منٹوں کے بعد آہستہ آہستہ وہ نارمل ہو گئے۔ میں نے انہیں پانی لا کر دیا تھا انہوں نے گلاس میز پر رکھتے ہوئے کہا "میاں اس دمے کے ہاتھوں زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ دعا کرو اللہ ایمان کی سلامتی کے ساتھ مجھے واپس بلا لے"۔ میں نے عرض کی بزرگوار زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ایک بیش بہا نعمت ہے اس کی قدر کرنا چاہئے۔ "بولے تم ٹھیک کہتے ہو لیکن صورتحال یہ ہے کہ دس میل روزانہ دوڑ لگانے، ایک گھنٹہ ایکسر سائز کرنے، تین تین سیڑھیاں پھلانگنے اور دو دو تین تین نوجوانوں سے زیر نہ ہونے والا یہ شخص جو تمہارے سامنے ہڈیوں کے ڈھانچے کی صورت میں موجود ہے اب چند قدم بھی چلتا ہے تو اس کا سانس پھولنے لگتا ہے، گھٹنوں میں درد اس کے علاوہ ہے، بغیر چلے پھرے بھی ان میں ٹیسیں اٹھتی رہتی ہیں، رات کو بستر پر لیٹنا ہو تو لیٹا نہیں جاتا سانس رکنے لگتا ہے چنانچہ کبھی صوفے پر جا کر بیٹھ جاتا ہوں کبھی بستر پر بازو کے بل لیٹنے کی کوشش کرتا ہوں اور کبھی لائونج میں آ کر ٹی وی آن کر کے اپنا دھیان ہٹانے کی کوشش کرتا ہوں۔ بس رات اسی طرح گزر جاتی ہے چنانچہ جب صبح ہوتی ہے تو جوڑ جوڑ درد کر رہا ہوتا ہے، میں تو اس زندگی سے تنگ آ چکا ہوں بس دعا کرو اللہ تعالیٰ ایمان کی سلامتی کے ساتھ اب مجھے اٹھا لے"۔ اس گفتگو کے دوران میرے دوست مرزا عبدالقیوم بھی آ گئے تھے جو بزرگوار سے بہت انس رکھتے ہیں، انہوں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا "آپ ایسی باتیں نہ کریں آپ کی صحت اس وقت بھی ماشاء اللہ دوسروں سے بہتر ہے میں تو آپ پر رشک کرتا ہوں" یہ سن کر بزرگوار کے چہرے پر ناگواری کے آثار ابھرے اور بولے "خاک اچھی صحت ہے میں جوانی میں...." مگر مرزا صاحب نے انہیں درمیان میں ہی ٹوک دیا اور کہا میں جانتا ہوں آپ کی جوانی بلاخیز تھی، اسی لئے تو میں کہتا ہوں کہ عمر عزیز کا یہ حصہ بھی آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے گزار دیں، آپ اپنی زندگی کی بہترین اننگ کھیل چکے ہیں، چوکے اور چھکے مارتے رہے ہیں اب اگر ٹک ٹک کر رہے ہیں تو کوئی بات نہیں آپ انہیں دیکھیں جو زیرو پر آئوٹ ہو جاتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا کہ مرزا صاحب کی ان باتوں سے بزرگوار کے چہرے پر امید کی ایک نہایت روشن کرن ابھری، ان لمحوں میں مجھے لگا جیسا ان کی ساری مایوس سوچیں ہوا ہو گئی ہیں وہ اپنی جگہ سے اٹھ کھڑے ہوئے، میں نے پوچھا کہاں جا رہے ہیں، بولے وضو کرنے جا رہا ہوں، سوچا شکرانے کے دو نفل ادا کر لوں۔
سو یہ میرے ایک بزرگ دوست کی کہانی ہے اور یہ کہانی کسی ایک کی نہیں، ہزاروں لاکھوں کی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ساری عمر عیش و آرام اور بغیر کسی تکلیف کے گزرے، میں نے تو کچھ ارب پتی بھی دیکھے ہیں جو لوٹ مار سے ارب پتی بنے ہیں، کبھی انکم ٹیکس ادا نہیں کیا، کبھی حقوق العباد ادا نہیں کئے مگر ایک وقت آتا ہے کہ بات بات پر ان پر رقت طاری ہو جاتی ہے۔ انہیں ہر وقت موت کا فرشتہ اپنی چارپائی کے گرد دھمالیں ڈالتا نظر آتا ہے اور وہ اچانک چیخنے لگتے ہیں۔ میں ایسے تمام لوگوں سے جو فی الحال جوان ہیں، عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں صرف ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ ابھی سے بندے کے پتر بن جائو، جب موت کا فرشتہ تمہیں لینے آئے گا، اس وقت تم خود کو تبدیل نہ کر سکو گے۔ میری مانو ابھی سے بندے کے پتر بن جائو۔