Goyum Mushkil
گویم مشکل
مجھے اپنے دماغ سے بڑی شکایتیں ہیں۔ اس نامراد نے کبھی دل کی چلنے ہی نہ دی۔ پہلے تو کبھی خیال نہ آیا کہ زندگی بہت مصروف تھی پر اب جب سے زندگی سرپٹ سے دل کی چال پر آئی ہے تب سے دل کی کمی کا شدید احساس ہوتا ہے۔ ناحق ہی ساری زندگی علامہ کے ایک مصرع کے ساتھ بسر کر دی۔ قصور میرا بھی نہیں بچپن سے ذمہ داریوں کی جو ردا اوڑھی تو پھر وہی اوڑھنا بچھونا ہی ہوگئ۔
پاپا کیا گئے بچپنا بھی ان کے ساتھ ہی کوچ کر گیا۔ پاپا پی آئی اے کی قاہرہ جانے والی پہلی بدنصیب پرواز 705 کے مسافر تھے۔ جسے زمین پر اترنا نصیب ہی نہیں ہوا اور ایک سو اکیس افراد اوپر ہی اوپر عالم بالا نکل گئے۔ بھلا کوئی ایسے بھی کرتا ہے پاپا؟ میں اس وقت فقط پانچ سال کی تھی اور زبیر تین سال کا۔ میری یادداشت میں وہ دل خراش شام آج بھی اپنی پوری جزیات کے ساتھ نقش ہے۔
اس شام گھر اور گھر کا باغیچہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ امی بالکل بے سدھ تھیں اور میں امی کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ باغیچے میں بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں گئی حالانکہ زبیر مجھے دو تین بار بلانے بھی آیا مگر مجھے ایسا لگتا تھا کہ اگر میں نے امی کو اکیلا چھوڑ دیا تو یہ بھی کہیں گم ہو جائیں گی۔ میرا بچپنا اس شام کے ڈوبتے سورج کے ساتھ ہی غروب ہو گیا اور اس افسردہ شام نئی عمارہ کا جنم ہوا۔
میں امی کا سایہ اور زبیر کی گارجین بن گئی۔ پاپا کا چلتا ہوا شاندار ہوٹل کا بزنس ماموں کے ہاتھوں میں آیا۔ ان دنوں ماموں خیر سے جوان تھے اور مزاج بھی کچھ شاہانہ اور اس پہ طرفہ تماشا کہ حاطم طائی کہلوانے کا شوق سوا۔ لہٰذا ہوٹل میں سارے یار بیلی کا کھلا کھاتا تھا نتیجتاً سال سوا سال کے اندر ہی بزنس ٹھپ ہوگیا۔ اسی کھینچا تانی میں دو سال گزر گئے۔
امی نے اب تک کچھ کچھ غم سے سمجھوتا کرلیا تھا مگر باوجود دواؤں کے ان کا ڈیپریشن کم نہیں ہو رہا تھا۔ امی نے ہوٹل اور اسکیٹن والےگھر کو فروخت کیا اور ساتھ ہی ساتھ ڈھاکہ بھی شدید دل گرفتگی کے عالم میں چھوڑ دیا۔ جما جتھا سرمائے سے کراچی میں کلفٹن تین تلوار کی چورنگی کے بالمقابل تین بیڈ روم کا کشادہ فلیٹ اور صدر کے بوہری بازار میں دو دکانیں مول لیں اور اس نئے شہر میں نئے سرے سے زندگی کی شروعات ہوئی۔
ایک دکان میں امی نے بچوں کے ریڈی میڈ گارمنٹس سے ذاتی بزنس شروع کیا۔ امی نے پابندی سے کام پہ جانا شروع کر دیا تھا اور کام نے ان کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی یوں کچھ دل کے زخم کا اندمال ہوا۔ پاپا کی جدائی نے ہم سبھوں سے بہت کچھ لے لیا تھا، باوجود شدید مصروفیت کے امی اپنے ڈپریشن سے باہر نہیں آ پا رہی تھیں اور سال میں دو دفعہ ڈپریشن کا دورہ لازمی تھا۔
ان دنوں جب امی بیماری کی وجہ سے دکان نہیں جاسکتی تھیں تو میں اسکول سے واپسی پر دکان جاتی۔ ماموں دکان ہی پر ہوتے تھے مگر ان کے مزاج پر حادثات ہنوز مزاحم نہیں تھے اور ان کا انداز زندگی وہی شاہانہ کا شاہانہ تھا۔ اسی طرح گرتے پڑتے، کاروبار میں مندی اور فائدے اٹھاتے ہوئے، امی کی بیماری کے باعث ڈاکٹر اور ہسپتال کے چکروں کے ساتھ ساتھ زندگی رواں رہی۔
سرعت سے بچپن بیتا اور دبے پاؤں جوانی آ گئ اور میں کراچی یونیورسٹی کے میتھیمیٹکس ڈپارٹمنٹ کے سال اول اور زبیر انجینیرنگ یونیورسٹی آ گئے۔ باقی سارے حالات تو جوں کے توں ہی رہے بس ماموں ہماری زندگیوں سے نکل گئے۔ ان کی افتاد طبع کو بھلا کب قرار تھا، ان کا نیا جنون اب یورپ ٹھہرا۔ ایجنٹ پر خاصا سرمایہ صرف کر چکے تھے اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔
ایک شام امی اور ماموں کی پیسے کو لے کر خوب گرما گرمی ہوئی اور تین دن بعد ماموں دکان اور گھر میں موجود تمام کیش لےکر غائب ہوگۓ۔ غصّہ اترنے کے بعد امی اور میں ان کی تلاش میں پورے کراچی میں مارے مارے پھرے، ہر ریکروٹنگ ایجنٹ کی دہلیز کی مٹی لے لی پر ماموں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ یہ غم امی کا پچھتاوا بن گیا اور ایک اداس اور ٹھٹھرتی ہوئی شام وہ ہم دونوں کو تنہا چھوڑ گئی اور زندگی مزید اداسیوں کے نظر ہو گئ۔
میری زندگی کی مثلث یعنی زبیر، یونیورسٹی اور دکان۔ زبیر کو میں نے سارے جھمیلوں اور ذمہ داریوں سے دور رکھا۔ اب سوچتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ کتنا غلط کیا، ساری دھوپ اور سختی خود جھیلی اور اس کو سائے میں رکھا اس حد تک کہ آسانی اور آسائش کو وہ اپنا حق سمجھنے لگا۔ اپنے ایم فل کے دوران میں دکان کو بہت کم وقت دے پا رہی تھی اور خوبئ قسمت سے سکندر کی صورت مجھے ایک بہت ہی اچھا اور ایماندار مینیجر مل گیا تھا۔
وہ دکان کو بہت احسن طریقے سے چلا رہا تھا ورنہ اس سے پہلے جتنے بھی مینیجر رکھے تھے سب کے سب دو نمبری میں ماہر۔ سکندر متوسط طبقے کا نمائندہ نوجوان تھا جو اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریاں بھی اٹھا رہا تھا۔ سکندر اچھا با ادب، خوش اخلاق اور محنتی لڑکا تھا۔ میں جانے کس گھڑی کی پیدائش تھی کہ میری زندگی میں سدا مد و جزر ہی رہے۔
اب جب دکان کی طرف سے قدرے بے فکری تھی تو زبیر نے ایم ایس کے لیے جرمنی جانے کا شوشہ چھوڑ دیا اور ساتھ ہی فلیٹ اور دکان کے حصے کا مطالبہ بھی۔ جائیداد اس کا حق تھی مگر جس بےرخی اور دھونس سے اس نے جائیداد میں حصے کا تقاضا کیا تھا وہ ناروا تھا اور اس کے کٹھور رویے نے میرے دل کو زخما دیا تھا۔ شریعت کی رو سے کل جائیداد میں دو حصہ اس کا اور ایک میرا بنتا تھا۔
میں نے دکان بیچی اور فلیٹ کے عوض بینک سے قرضہ لے کر اس کا حصہ ادا کیا۔ زبیر جرمنی سدھارا اور میں ڈپریشن کے گپھا میں گم ہوئی۔ شکر کہ ایم فل مکمل ہو چکا تھا ورنہ میرا جو حال تھا اس میں تو یہ بیل کبھی بھی منڈھے نہ چڑھتی۔ سکندر نے ان دنوں میرا خاص خیال رکھا جبکہ اب تو دکان بھی نہیں تھی اور وہ میرا ملازم بھی نہیں۔ انہیں بےکلی کے روز و شب میں ایک شام سکندر نے مجھے پروپوز کر دیا اور میں حیرت سے گنگ رہ گئی۔
میرے کمبخت حسابی کتابی دماغ میں یہ بات کسی بھی کلیہ کی رو سے فٹ بیٹھتی ہی نہ تھی کہ سکندر مجھ سے عمر میں چار سال چھوٹا تھا اور میں اسے صحیح طور پر جانتی بھی نہیں تھی۔ بےشک وہ دیانت دار اور ذمہ دار تھا پر اس سے آگے میں قطعہ لاعلم کہ میرا اور اس کا رشتہ صرف مالک اور ملازم کا تھا۔
ایک پل کو تو میرا جی چاہا کہ اپنے آبلہ پائی کے اس سفر کو ختم کرکے سکندر کی گھنیری چھتنار چھاؤں میں پناہ لے لوں مگر دوسرے ہی پل دل میں وسوسے کے ناگ سرسرانے لگے کہ ماں جایا تو تپتی دھوپ میں چھوڑ گیا تو پھر اس اجنبی کا کیا بھروسہ؟ گو دل کرلایا بھی پر دل کا کیا ہے اسے تو بہلایا بھی جاسکتا ہے۔
زبیر کے خود غرضانہ رویہ کے باعث ان دنوں میری آزردگی اور زود رنجی اپنے عروج پر تھی اور اپنے ڈاکٹر کی ہدایت پر میں اپنے آپ کو جزبوں اور چیزوں سے ڈیٹیچڈ detached کرنے کی مہم میں لگی ہوئی تھی۔ وقت گزرتا گیا پھر سکندر کبھی لوٹ کر نہیں آیا۔ میری لیکچرر شپ کی تنخواہ میری ضروریات سے بھی اضافی تھی۔
تنہائی نے مجھے آکٹوپس کی طرح جکڑ لیا تھا گو میں اپنی زندگی سے مطمئن تھی کہ میں کبھی بھی سوشل برڈ نہیں رہی تھی اور کرنے کو میرے پاس بہت کچھ تھا، لیکچرر شپ تھی، میرا سوشل ورک تھا جس میں، میں اسٹریٹ چلڈرن کو پڑھاتی تھی اور پھر بھی وقت بچ جائے تو نوزائیدہ بچوں کی دلائی سی کر ہسپتال اور ایدھی سنٹر والوں کو دے دیتی تھی کہ سلائی سے مجھے خصوصی لگاؤ تھا اور سلائی میرے لیے anti depressant تھی۔
مگر لوگوں کے نا ختم ہونے والے سوالات مجھے ذچ کئیے دیتے تھے۔ بھئ میری زندگی ہے میں جیسے چاہوں بسر کروں میں لوگوں کو جوابدہ کیوں؟ پر شاید لاشعوری طور پر انہیں سوالات سے بچنے کے لیے میں نے ایک حبس بھری شام وسیم کا رشتہ قبول کرلیا۔ میرے حسابی کتابی ذہن میں ہر کلیے کی رو سے وہ بہترین میچ تھا کہ ہم پیشہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا مختصر سا خاندان کہ بھری دنیا میں ایک اس کی اماں اور دوجا وہ۔
انتہائی سادگی سے ہماری شادی ہوئی اور شادی کے بعد بھی ہماری سابقہ روٹین برقرار رہی۔ بچے کی جلدی ہم دونوں کو تھی کہ میں چالیس سال کی ہوچکی تھی اور اس عمر میں پریگننسی بہت سی پیچیدگیوں کا باعث بنتی ہے۔ میری بدقسمتی کہ تین سال میں میرے تین مس کیریج ہو گئے اور اس دکھ اور اذیت سے گھبرا کر میں نے آئندہ ماں نہ بننے کا فیصلہ کر لیا کہ بچھڑنے کی یہ اذیت میرے ذہن، دل اور جسم کی برداشت سے بہت بہت زیادہ تھی۔
میرے اندر اب اس وچھوڑے کو سہنے کی طاقت اور حوصلہ نہیں تھا۔ یہ فیصلہ میری ازدواجی زندگی میں بھونچال لے آیا۔ میرا یہ یک طرفہ فیصلہ وسیم کی ایگو کا مسئلہ بن گیا۔ وہ یتیم خانے سے بچہ گود لینے پہ راضی نہیں تھے اور میں مزید اس دکھ اور درد کی کٹھالی سے گزرنے پر آمادہ نہیں تھی۔ سو تین سال کا یہ mathematical رشتہ ختم ہو گیا کہ وسیم کو وارث چاہئے تھا اور میں ثمر بار ہونے سے قاصر۔
عجیب بات ہے کہ عورت اپنی زندگی کا فیصلہ بھی خود نہیں لے سکتی۔ وہ کس قدر بوجھ اٹھانے کی متحمل ہے اور اس کے جسم کے لیے کیا بہتر ہے وہ خود اس کا فیصلہ کرنے کی مجاز بھی نہیں۔ اب یہ سب باتیں بہت پیچھے رہ گئی، پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہ گیا ہے۔ وسیم نے دوسری شادی کرلی اور اس کی ولی عہد کی آرزو بار آور ہوئی گو یہ الگ کہانی کہ اس ولی عہد نے اپنی کج روی و نافرمانی کے کارن وسیم کو اٹھ اٹھ آنسو رلائے۔
میں اپنی مصروف تنہائی کے ساتھ مطمئن ہوں بس کبھی کبھی رات گئے یہ خیال آتا ہے کہ بجائے دماغ کے دل کی مان کر سکندر کی بات مانی ہوتی تو شاید یہ تنہائی نہ ہوتی بلکہ ایک خوب صورت اور آسودہ یکجائی ہوتی۔
اکثر شب تنہائی میں
کچھ دیر پہلے نیند سے
گزری ہوئی دلچسپیاں
بیتے ہوئے دن عیش کے
بنتے ہیں شمع زندگی
اور ڈالتے ہیں روشنی
میرے دل صد چاک پر
اب میرا برسوں کا خاموش دل کبھی کبھار بول پڑتا ہے اور جانے دل کو یہ یقین کیوں ہے کہ سکندر بہتر انتخاب ہوتا مگر میں کیا کروں اپنے اس حسابی دماغ کا کہ بچپن سے اسی کی صلاح مانتی آئی ہوں پر اب سوچتی ہوں کہ علامہ کا صرف پہلا مصرع نہیں بلکہ پورا شعر ہی قابل عمل تھا۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
یہاں میں دل کو نظر انداز کر کے مار کھا گئی۔