Sunday, 17 November 2024
  1.  Home
  2. Ata Ul Haq Qasmi
  3. Ab Pareshani Kis Baat Ki?

Ab Pareshani Kis Baat Ki?

اب پریشانی کس بات کی؟

وہ ایک بالکل غیر سیاسی نوجوان تھا لیکن جب وہ صبح سو کر اٹھا تو اخبارات دیکھتے ہی اس پر ڈپریشن سی طاری ہو گئی۔ وہ اپنے جذبات کا اظہار چاہتا تھا لیکن اس کے لئے شہر کی فضا سازگار نہیں تھی اگر اسے اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع دے دیا جاتا تو شاید اس کی یہ کیفیت نہ ہوتی۔ وہ دوبارہ اپنے بستر پر لیٹ گیا اور اسے لگا کہ اس کی انزائٹی (Anxiety) اور ٹینشن میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بار بار ایک ہی خیال اس کے دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہا تھا، وہ اس خیال اور اس کیفیت سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا لیکن تمام تر کوشش کے باوجود وہ اس میں کامیاب نہ ہو سکا، بالآخر وہ بستر سے اٹھا اور باہر گلی میں آگیا جہاں سبزی والے کا ریڑھا کھڑا تھا اور اس کی ہمسائی اپنے گھر کے دروازے میں کھڑی اس سے سبزی خرید رہی تھی۔ وہ عادتاً اس سے بھاؤ تاؤ کررہی تھی حالانکہ وہ جانتی تھی کہ یہ سبزی والا بازار سے ارزاں نرخوں پر سبزی فروخت کرتا ہے۔ وہ کچھ آگے بڑھا تو پان سگریٹ کے کھوکھے کے پاس جا کر رک گیا۔ وہ سگریٹ نہیں پیتا تھا مگر اس نے ایک سگریٹ خریدا اور سگریٹ سلگانے کے لئے دیوار کے ساتھ لٹکی سلگتی ہوئی رسی کے ساتھ اس نے سگریٹ کا اگلا سرا چپکا دیا اور پھر لمبا سا کش لیا۔

اس سے سگریٹ تو سلگ گیا لیکن اس کے ساتھ ہی اُسے کھانسی کا دورہ پڑا کہ وہ زندگی میں پہلی دفعہ سگریٹ پینے کی کوشش کر رہا تھا۔ باہر گلی سے نکل کر وہ سڑک پر آیا تو اسے نسیم خواجہ سرا دکھائی دیا جو مٹک مٹک کر چلتا ہوا اس کی طرف آرہا تھا۔ نسیم نے شاید قلعی کرنے والے برش سے چہرے پر ڈھیروں پاؤڈر اور دوسری الا بلا چیزیں تھوپی ہوئی تھیں۔ اس نے پاس سے گزرتے ہوئے اس کے گالوں پر چٹکی بھری اور کہا "وے باؤ کدی ساڈھے ول وی ویکھ لیا کر" وہ نسیم خواجہ سراکی اس طرح کی حرکتوں سے محظوظ ہوا کرتا تھا مگر اس روز اس نے غصے سے اس کی طرف دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔

چوک میں بسم اللہ ریستوران کے دوازے تک پہنچ کر وہ رک گیا اور پھر بلا ارادہ اندر داخل ہو گیا۔ اسے بالکل بھوک نہیں تھی لیکن وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا تھا۔ زبردستی کھانا کھانے کے بعد وہ باہر نکلا اور پھر بغیر کسی متعین منزل کے وہ بائیں طرف مڑ گیا۔ اس کی انزائٹی اور ٹینشن میں کمی واقع ہونے کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اسے لوگوں کے چہرے بھی مدہم مدہم سے نظر آرہے تھے۔ وہ چند قدم چلنے کے بعد ایک فالودے کی دکان پر رک گیا جہاں "المشہور فالودہ" کا بورڈ لگا تھا، نہ اسے بھوک تھی اور نہ اس کا جی فالودہ کھانے کو چاہ رہا تھا لیکن اس نے ایک بڑا پیالہ فالودے کا لیا اور پھر اپنے کرتے سے منہ پونچھتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ وہ منہ اٹھائے یونہی چلتا جا رہا تھا کہ اس کے پائوں کے نیچے ایک بڑا سا پتھر آگیا جس سے وہ گرتے گرتے بچا، اس نے وہ پتھر ہاتھ میں ا ٹھایا اس کے دائیں جانب ایک ٹریول ایجنسی کا دفتر تھا جس کا دروازہ شیشے کا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ وہ یہ پتھر کھینچ کر دروازے پر مارے۔ اس کا جی شیشہ ٹوٹنے کی چھنچھناہٹ سننے اور اس کی کرچیاں بکھرتے دیکھنے کو چاہتا تھا مگر اس نے اپنی خواہش پر قابو پایا اور اسے زمین پر واپس رکھ کر پورے زور سے اسے ٹھوکر مار دی جس سے وہ پتھر لڑھکتا ہوا ایک کھلے مین ہول میں جاگرا۔

رستے میں "اس "کا گھر پڑتا تھا۔ "اس "کی باتوں سے اس کے دل کے سارے بوجھ ہلکے ہوجاتے تھے۔ وہ"اس" کے گھر میں داخل ہوا، پہلے اس نے سوچا کہ وہ "اس" کے سامنے اپنا دل کا غبار نکالے تاکہ اس کیفیت سے نکل سکے، مگر پھر اس نے سوچا اگر میرا چہرہ اسے کچھ نہیں بتاتا تو پھر زباں سے بتانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ اس روز اس نے محسوس کیاکہ آج "اس" کے پاس اس کا چہرہ پڑھنے کا وقت نہیں ہے کیونکہ "اس" کو کہیں باہر جانا تھا۔ وہ چپ چاپ باہر نکل آیا۔ آج "اس" نے اسے اس طرح رکنے کو کہا بھی نہیں تھا جس طرح کہنے سے وہ سب ضروری کام بھول جاتا تھا۔ اس کے ذہنی کھچائو میں مزید اضافہ ہو گیا۔

اب اس پر وحشت سی طاری ہونے لگی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا جسے کسی نے اس کے سینے پر پتھر کی ایک بھاری سل رکھ دی ہے اور اگر یہ سل نہ ہٹائی گئی تو اس کا سانس بند ہو جائے گا۔ اس نے کھینچ کر سانس لینے کی کوشش کی مگر جیسے سانس اٹک اٹک کر آرہا ہو، وہ اپنی اس کیفیت سے گھبرا گیا مگر اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اس میں سے کیسے نکلے۔ اچانک اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی نمودار ہوئی۔ اس نے اپنا ہاتھ فضا میں بلند کیا اور پھیپھڑوں کی پوری قوت سے نعرہ لگایا "پاکستان زندہ باد" اس کے پاس سے گزرتے لوگوں نے حیرت سے اس دیوانے سے شخص کو دیکھا اور آگے بڑھ گئے مگر اسے یوں محسوس ہوا جیسے اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اور وہ اس ڈپریشن سے نکل آیا جو صبح سے اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس نوجوان کو جیسے تسلی سی ہو گئی کہ دہشتگردی، فرقہ پرستی، تنگ نظری، معیشت کی بدحالی، سیاسی عدم استحکام اور اس طرح کے دوسرے مسائل سے پاکستان کو درپیش خطرات کے حوالے سے جو خدشے صبح سے اسے ڈپریشن میں مبتلا کئے ہوئے تھے وہ اس کے "پاکستان زندہ باد" کا نعرہ لگانے سے ٹل گئے ہیں اور اب اس کا پاکستان اغیار اور اپنوں کی سازش سے پوری طرح محفوظ ہوگیا ہے۔

About Ata Ul Haq Qasmi

Ata ul Haq Qasmi is a Pakistani Urdu language columnist and poet. He has written many articles on different subjects for the leading newspapers of Pakistan.

The most distinguished character of Qasmi's column is his satire on social inequalities of the society and his anti dictatorship stance which he boldly takes in his columns. He has a unique style of writing incomparable to any other columnist because of his humorous way which holds the reader till the last line of his column which is his punch line.

Qasmi was also elevated to the position of Ambassador of Pakistan in Norway and Thailand during Nawaz Sharif's reign from 1997 to 1999. His books of columns include "Column Tamam", "Shar Goshiyan", "Hansna Rona Mana Hay", "Mazeed Ganjey Farishtey and many more while his TV Drama Serials include the most popular "Khwaja and Son", "Shab Daig" and "Sheeda Talli". His travelogues include "Shoq-e-Awargi".

His writing is more toward Nawaz Sharif, and he has some closed relation with him. He supported PML-N in the 2013 election, and there are news that soon he will be appointed Ambassador to some country.

Check Also

Gilgit Baltistan Aur Chitral Mein Khud Kushiyan

By Amirjan Haqqani