سوشل میڈیا کے دانشور
سوشل میڈیا کے دانشور، یہ وہ اصطلاح ہے جو خود سوشل میڈیا پر بطور طعنہ استعمال کی جاتی ہے۔ میں نے ایسے لوگوں کو بھی دوسروں کے لیے یہ اصطلاح بطور حقارت استعمال کرتے دیکھا ہے جن کی اپنی شناخت اور پہچان سوشل میڈیا کی مرہون منت ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا سوشل میڈیا کا دانشور ہونا واقعی باعث ندامت ہے؟ اس میں کیا کلام ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے اہل دانش زیادہ تجربہ رکھتے ہیں اور اپنی فکری پختگی کی وجہ سے ان کا اعتبار اور ساکھ ہے برسوں کی ریاضت کا حاصل ہے۔ بعض ایسے ہیں جن سے ہم جیسوں نے سیکھا اور سیکھنے کا یہ عمل آج بھی جاری ہے۔
ان اہل علم و فکر کے مقابلے میں سوشل میڈیا کے دانشوروں کی حیثیت طفل مکتب کی سی ہے۔ لیکن کیا اسے طعنہ ہی بنا دیا جائے؟ مین سٹریم میڈیا میں بھی، ہر لکھنے والا، علم و فضل اور اسلوب کے اس معیار پر نہیں، جس کا اوپر ذکر کیا ہے۔ بعض ایسے بھی ہیں بطور کالم نگار جو کب کے مرحوم ہو چکے اور ان کی دانشوری اب ایک بے سود مشق مستعجل کے سوا کچھ نہیں۔
اسی طرح سوشل میڈیا کاہر لکھاری نا تجربہ کار، غیر ذمہ دار اور کم علم نہیں، بعض ایسے بھی ہیں جن کی علمی اور فکری اٹھان قابل قدر ہے اور جن کی تحاریر زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہوتی ہے کہ کچھ ایسے سینیئر صاحبان قلم کو جن کے علم و فضیلت کی واحد گواہی ان کی بزرگی ہے، اب ریٹائرمنٹ لے کر نئے لکھنے والوں کے لیے جگہ خالی کر دینی چاہیے۔
مرزا غالب نے جب گلی میں ایک بزرگ کی ڈانٹ کے جواب میں کہا: بڑے میاں بوڑھے ہو گئے ہو بزرگ نہیں " تو بزرگ بقلم خود نے شکایت لگا دی۔ مرزا کی طلبی ہوئی تو انہوں نے اپنی صفائی دی" یہ تو شیخ سعدی نے کہا تھا، میں نے تو صرف دہرایا ہے"۔ لکھ رہا ہوں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے کہ میں بھی صرف دہرا رہا ہوں، کہا تو غالب اور سعدی نے تھا۔
سوشل میڈیا کی قباحتیں اپنی جگہ لیکن سوشل میڈیا پر علم و تحقیق کے کچھ سنجیدہ گوشے بھی آباد ہیں جو من کو شانت کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، کچھ عرصہ باقاعدہ کالم لکھتے رہے، پھر شاید ان کی مصروفیات آڑے آ گئیں۔
آج کل ان کے بلاگ سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جو سنجیدگی، درد دل اور متانت ان کی تحریروں میں ملتی ہے آج کے زمانے میں وہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ عاصم اللہ بخش ان لوگوں میں سے ہیں جن کا وجود سماج کے لیے باعث خیر ہوتا ہے۔ ان میں وہ علمی وجاہت ہے جو اب قصہ پارینہ ہوتی جا رہی ہے۔ عمار خان ناصر کے مدرسہ ڈسکورسز کا شدید ناقد ہونے کے باوجود، یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ علم اور تحقیق کی دنیا میں ان جیسا سنجیدہ اور متین صاحب دانش اب کم ہی کہیں ملتا ہے۔ کسی ایک پہلو کے ناقد ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی فکری دیانت سے ہی محروم ہو جائے۔
مجھے اعتراف ہے کہ عمار خان ناصر ان لوگوں میں سے ہیں جن کی تحریر میں نے ہمیشہ شوق سے پڑھی اور تلاش کر کے۔ ڈاکٹر محمدمشتاق کی تحریریں بھی ہم طالب علموں نے سوشل میڈیا پر ہی دیکھیں۔ جدید اور قدیم مباحث پر ان کی گرفت غیر معمولی ہے۔ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں حق ادا کر دیتے ہیں۔ ان کی تحریر جب بھی پڑھی، خوشی کا ایک احساس رگ و پے میں دوڑ گیا۔
شریعہ اکیڈمی کے ڈائریکٹر جنرل ہیں لیکن میرے لیے اپنی نسبت زیادہ باعث مسرت ہے کہ یہ اس جامعہ کے شعبہ قانون کے استاد ہیں جس جامعہ کے شعبہ قانون کا میں کبھی طالب علم رہا۔ بعض نوجوان اتنا اچھا لکھ رہے ہیں کہ پیار آتا ہے۔ سچ پوچھیے تو کبھی کبھی رشک بھی۔ کرکٹ کے درجنوں ماہرین یہاں موجود ہیں لیکن محسن حدید جیسا تجزیہ کوئی کر کے دکھائے۔ ایک ایک ٹیم، ایک ایک کھلاڑی، ان کی ایک ایک خوبی، خامی اور ایک ایک غلطی پر ان کی نظر ہے۔ کرکٹ کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا کسی نے دیکھنا ہو تو محسن حدید کو دیکھ لے۔
انعام رانا کی تحریر بھی غضب کی تحریر ہے، ان کے شوریدہ سر قلم میں وہ بانکپن اور بے ساختگی ہے کہ لڑکپن کے دوستوں کی نہر کنارے سجی بے تکلف محفلیں یاد آ جاتی ہیں۔ کاش انہیں مکالمہ لاحق نہ ہوتا اور یہ صرف لکھنے تک محدود رہتے۔ خدا کی عطا میں کوئی کمی نہیں، بات اب ریاضت کی ہے۔ وصی بابا کی تحریر تحقیق اور شگفتگی کا حسین امتزاج ہے۔ انہوں نے ایک باقاعدہ نیااسلوب متعارف کرا دیا ہے۔
انعام رانا کی تحریر میں دوستوں کی محفلیں سی آباد ملتی ہیں تو وصی بابا کی تحریر میں ایک جہاندیدہ بزرگ ملتا ہے جو گلی کی نکڑ پر اپنے تجربے کی روشنی میں آتے جاتے جوانوں کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا ہے اورساتھ قہقہے بھی لگاتا رہتاہے۔ وصی بابا جیسی شگفتہ تحریر کہیں کوئی لکھ رہا ہو تو بتائیے۔ عماد بزدار علم و تحقیق کی دنیا میں ایک خوشگوار اضافہ ہیں۔ قائد اعظم اور قیام پاکستان کے حوالے سے یہاں بعض عناصر جو پراپیگنڈہ کرتے رہتے ہیں اس سے مضطرب ہو کر انہوں نے خود تاریخ کو کھنگالا اور تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ ان کی کتاب کا مسودہ پڑھا تو خوشگوار حیرت نے آ لیا۔
عماد جیسے نوجوانوں کا سنجیدہ علمی موضوعات پر لکھنا ایک خوش آئند روایت ہے۔ ایک وطن پرست بلوچ نوجوان کی یہ کتاب چودہ اگست کو مارکیٹ میں آئے گی اور بزرگان بقلم خود کی کاہلی اور غفلت کا کفارہ بنے گی۔ ہمایوں تارڑ سوشل میڈیا پر مقصدیت کا ایک نام ہے۔ سیاست اور سطحی موضوعات سے ہٹ کر انہوں نے ایک الگ ہی میدان چنا ہے۔ بچوں کی تربیت کیسے کی جائے؟ والدین کہاں کہاں غلطی کرتے ہیں؟ پرورش کے رہنما اصول کیا ہیں؟ بچوں کی نفسیات کو کیسے سمجھا جائے؟ دیگر تعلیمی اور علمی موضوعات بھی ان کے ہاں بکثرت ملتے ہیں۔
ہمارے سماج میں ایسی با مقصد سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمایوں تارڑ کا کام صدقہ جاریہ ہے۔ یہ چند نام میں نے گنوا دیے۔ ظاہر ہے یہ فہرست بہت طویل ہے۔ اب آپ ہی بتائیے، سوشل میڈیا کے دانشور کی اصطلاح کو، کیا بطور طعنہ استعمال کیا جا سکتا ہے؟