پارلیمان کا شعور اجتماعی کہاں ہے؟
قوموں پر بحران آتے رہتے ہیں، ان میں وہی رشتہ ہے جو تیر اور مشکیزے میں ہوتا ہے۔ قیادت کے منصب پر فائز لوگ اگر بالغ نظر اور صاحب بصیرت ہوں تو قوم بحران سے سرخرو ہو کر نکل آتی ہے اور ایسا نہ ہو تو المیے اس کے دامن سے لپٹ جاتے ہیں۔ ہماری دہلیز پر بھی اس وقت غیر معمولی بحران دستک دے رہا ہے۔ سوال یہ ہے پارلیمان کا شعور اجتماعی کہاں ہے؟
انسان پیالہ و ساغر نہیں، ایک زندہ وجود کا نام ہے۔ دکھ آتے ہیں تو وہ پریشان بھی ہوتا ہے اور مضطرب بھی۔ یہ پریشانی اسے انتشار فکر سے بھی دوچار کرتی ہے اور وہ برہمی میں عدم توازن کا شکار بھی ہو جاتا ہے۔ ان کیفیات میں فرد ہو یا قوم، ہر دو صورتوں میں اپنے کابرین سے رجوع کیا جاتا ہے۔ یہ اکابرین کا کام ہوتا ہے وہ اس انتشار فکر کو ایک وحدت میں بدل دیں اور برہمی اور عدم توازن کو یکسوئی اور ایک سمت عطا کر دیں۔ قوم اس وقت پارلیمان کی جانب دیکھ رہی ہے۔ کیا پارلیمان میں بیٹھی شخصیات قوم کو وحدت فکر، سمت اور کوئی پالیسی دے سکتی ہیں؟
دو دن کی پارلیمان کی کارروائی ہمارے سامنے ہے۔ یہاں جو گفتگو ہوئی، اس کا حاصل مایوسی کے سوا کچھ نہیں۔ ایک آدھ استثناء کے ساتھ، نہ کہیں بصیرت نظر آئی نہ بالغ نظری کا کوئی چراغ جلایا جا سکا۔ نہ کہیں عالمی حالات کا ادراک نہ کہیں ندرت خیال۔ بے زار اور پھسپھسے سے لہجے ہیں یا پھر روایتی شعلہ بیانی۔ ایک ایسے وقت میں جب پوری پارلیمان کو صرف پاکستان کی ترجمانی کرنی چاہیے تھی یہاں سے اپنی اپنی جماعتوں کا مقدمہ پیش کیا جاتا رہا اور فقرے اچھالے جاتے رہے۔ ۔ اس بات سے اتفاق ہے کہ قوموں کی زندگی میں معجزے نہیں ہوتے اور معاملہ زمینی حقائق ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے لیکن اس حقیقت کی نفی بھی نہیں کی جا سکتی کہ بحران کے موسم میں قیادت اگر اوسط یا اس سے بھی کم درجے کی ہو تو دکھوں کے ساون طویل ہو جاتے ہیں۔
کشمیر میں حالات کیا ہیں، کچھ خبر نہیں۔ گجرات میں مودی کے کردار کو سامنے رکھیں تو دل کانپ اٹھتا ہے۔ وادی میں کیا ہو رہا ہے کسی کو معلوم نہیں۔ مواصلات کے تمام ذرائع کا گلا گھونٹا جا چکا ہے۔ ایک لاکھ سے زائد پیرا ملٹری فورس جو وادی میں بھیجی گئی اس کے بارے میں اطلاعات یہ ہیں کہ ان کا چنائو ان کی فکری ساخت کو دیکھ کر کیا گیا۔ ان میں سے بھاری تعداد نہ صرف آر ایس ایس کی فکر سے وابستہ ہے بلکہ ان کی ایک خاص انداز سے تربیت کر کے انہیں یہاں بھیجا گیا ہے۔ بھارتی افواج پاکستان کو انگیج کرنے کے لیے تیار ہیں اور وادی ان جنونی ہندو قوم پرستوں کے رحم و کرم پر ہے۔ گجرات کے وقت تو مواصلات کے تمام ذرائع دستیاب تھے پھر بھی قتل عام کیا گیا۔ اب تو حکومت بھی اپنی ہے، انٹر نیٹ بھی بند ہے، اندر کی خبر تک باہر نہیں جا سکتی۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے وادی میں کیا کیا قیامتیں نہیں بیت گئی ہوں گی۔ باقی سارے معاملات ایک طرف رکھ دیجیے۔ عزت، جان اور مال کی حفاظت کا یہ پہلو سب سے خوفناک اور تشویشناک ہے۔ سوال یہ ہے، اس پہلو پر ہماری قیادت نے کیا کیا؟ میں اس معاملے کی فنی پیچیدگی سے آگاہ نہیں ہوں لیکن ایک عام شہری کے طور یہ سوچ رہا ہوں کہ وادی میں حقوق انسانی کی پامالی کو دیکھنے کے لیے عالمی برادری سے مداخلت کی اپیل یا کوئی نمائندہ وفد کی تشکیل میں وقت لگ سکتا ہے تو کیا ہنگامی طور پر ایل او سی پر ایسے چند ٹاور بھی نصب نہیں کیے جا سکتے جوکم از کم ایک ڈیڑھ سو کلومیٹر کے علاقے میں انٹرنیٹ ہی کی سہولت پہنچا دیں تا کہ محصوریں کو آواز اٹھانے کا موقع تو ملے۔
سیاسی اختلافات ہوتے ہیں اور باقی رہتے ہیں لیکن جب وطن پکار رہا ہو تو یہ سیاسی عصبیتیں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ یہ محض ایک کتابی بات نہیں، ہم اپنی تاریخ میں اس رویے کا مظاہرہ دیکھ چکے ہیں۔ ایوب خان کا دور آمرانہ تھا اور چونکہ ان کے حسن سلوک کا شکار مادر ملت محترمہ جناح ہوئی تھیں اس لیے تلخی بہت تھی لیکن جب بھارت سے مقابلہ آن پڑا تو پوری قوم ایوب خان کی پشت پر تھی۔ ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگائی، سید مودودی کو جیل میں ڈالا لیکن جماعت اسلامی وہ سب بھول کر صدر پاکستان کے ساتھ کھڑی تھی۔ یہی معاملہ بھٹو صاحب کے ساتھ تھا۔ ان کی سیاسی مخالفت میں شدت تھی لیکن جب وہ شملہ گئے تو سب ان کے ساتھ تھے۔ لیکن ہر دو معاملات میں وسیع تر مشاورت اور ہم آہنگی کی ابتداء حکمران کی جانب سے ہوئی۔ پہلا قدم حکومت نے اٹھایا اور قوم ساتھ آ کھڑی ہوئی۔ ایک عام آدمی سوچ رہا ہے ایسے ہی رویے کا مظاہرہ آج کیوں نہیں ہو پا رہا۔
ماحول کو تلخ کرنے میں کمی کسی نے نہیں چھوڑی لیکن بطور حکمران یہ عمران خان صاحب کی ذمہ داری ہے وہ وسیع تر مشاورت اور ہم آہنگی کے لیے آگے بڑھیں۔ ان کے طرز بیان میں آج بھی وزیر اعظم پاکستان کم اور چیئر مین تحریک انصاف زیادہ جھلک رہا ہوتا ہے۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس طرح کرکٹ میں ہر وقت آپ بائونسر نہیںمار سکتے، بیٹنگ بھی کرنا ہوتی ہے اور ہیلمٹ پہن کر ٹھنڈے دل سے وکٹ پر ٹھہرنا بھی ہوتا ہے اسی طرح اپوزیشن اور حکومت کی اننگز کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ آپ اپوزیشن میں ہیں، کنٹینر پر کھڑے ہیں تو بائونسر پر بائونسر مارتے اچھے لگتے ہیں لیکن جب آپ حکومت میں آتے ہیں تو گویا اب آپ کی بیٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ اب آپ نے بائولنگ نہیں کرنی۔ اب آپ نے بائونسر نہیں مارنے، بائونسر ز کو آتے دیکھ کر بچائو کرنا ہے اور وکٹ پر ٹھہرنا ہے۔
قوم کو شدید بحران کا سامنا ہے اور اہل سیاست اپنے منصب سے انصاف کرتے نظر نہیں آ رہے۔ آج اگر وہ اپنے رویے سے یہ ثابت کر رہے ہیں کہ اہم قومی امور پر رہنمائی ان کے بس کی بات نہیں تو کل انہیں یہ شکوہ زیب نہیں دے گا کہ اہم تزویراتی معاملات پر انہیں کوئی فیصلے نہیں کرنے دیتا۔